Inquilab Logo Happiest Places to Work

آزمائش کے وقت نا اُمیدی غیر اسلامی رجحان ہے

Updated: March 05, 2021, 12:42 PM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

اس فانی دنیا میں مختصر سی زندگی بسر کرتے وقت ہمیں اِس دنیا کی خاصیت اور اپنے جینے کے مقصد کو ضرور یاد رکھنا چاہئے۔

Makkah Sharif - Pic : INN
مکہ شریف ۔ تصویر : آئی این این

اس فانی دنیا میں مختصر سی زندگی بسر کرتے وقت ہمیں اِس دنیا کی  خاصیت اور اپنے جینے کے مقصد کو ضرور یاد رکھنا چاہئے۔ اس کے لئے بنیادی طور پر ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ رب العزت نے بنی نوعِ انسان کے لئے تین ٹھکانے بنائے ہیں: (۱)دنیا (۲)جنت  اور (۳)جہنم۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں نہ کو ئی تکلیف اور پریشانی ہوگی اور نہ رنج وغم بلکہ ہر طرف رنگ و نور کی برسات ہوگی؛آرام و آسائش و کا خوبصورت سماں ہوگا اور لازوال سکون و اطمینان کی عظیم نعمت ملے گی۔اس کے با لمقابل جہنم وہ جگہ ہے جہاں امن  و سکون اور خوشی و مسرت نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی اور وہاں کے مکین ہر  لمحے کرب و اذیت کے بحرِ نا پید اکنار میں ڈوبے ہوںگے۔ جنت اور جہنم—اِن دونوں ٹھکانوں کے برخلاف دنیا وہ جگہ ہے جہاں انسان  خوشی و غم؛ سکون و بے اطمینانی؛ آرام و تکلیف؛ آسانی و تنگی دونوں قسم کے حالات و کیفیات سے دو چار ہوتا ہے۔ اِس پس منظر میں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دنیا امتحان گاہ ہے اور جنت و جہنم نتیجہ گاہ۔ 
اِ س تمہید کی تفصیل یہ ہے کہ اگر انسان آخرت کی کامیابی یعنی جنت چاہتا ہے تو اُس کو دنیا میں اپنا مقصد ِ اصلی ہر حال میں یاد رکھنا ہوگا اور وہ مقصد ِ اصلی رضائے الٰہی کی طلب اور اُس کا حصول ہے۔ اِس طلب میں صادق ہونے کا معیار احکاماتِ خداوندی پر عمل ہے جو کبھی مختلف عبادتوں کی شکل میں سامنے آتا ہے اور کبھی کسی  اچھے عمل کے کرنے اور بُرے عمل سے بچنے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس تعلق سے  ہماری رہنمائی کے لئے قرآن مجید میں ارشادفرمایا ہے:’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘ (سورہ البقرہ:۲۱)یہ آیتِ کریمہ اس اعتبار سے زیر ِ بحث موضوع کو جامع ہے کہ جہاں اِس میں اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لئے عبادت کا حکم ہے وہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے گناہ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 
یہاں  اِس نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عام حالات میں تو احکاماتِ خداوندی کی  بجا آوری آسان ہے لیکن معاملہ اُس وقت پیچیدہ ہوجاتا ہے جب حالات ناگفتہ بہ ہوں۔ چونکہ ہم اُس دنیا میں رہتے ہیں جہاں خوشی اچانک غم میں تبدیل ہوجاتی ہے؛ امن کی جگہ بد امنی کا سامنا  ہوتا ہے؛ قہقہے سسکیوں میں بدل جاتے ہیں۔اِس طرح کی تبدیلیوں کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے:  ’’تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون اچھا عمل کرتا ہے۔‘‘(سورہ ہود :۷) اِ س آیت کی تشریح یہ ہے کہ اللہ سے تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ جب اللہ اپنی نعمتوں سے نوازیں تو بندہ اللہ کا شکر ادا کرے، اگر اللہ اِن نعمتوں کو لے  لیں، تو اللہ سے شکوہ نہ کرے اور نہ نا امیدہو، پھر جب آزمائش دور ہوجائے تو اُس میں اور زیادہ فرمانبرداری اور شکر گزاری کا جذبہ کروٹ لینے لگے، آزمائش کے وقت نااُمیدی اور نا شکری اور آزمائش ختم ہونے کے بعد کبرو غرور ، یہ تعلق مع اللہ کے نہ ہونے کا یا کم ہونے کا نتیجہ ہے۔ 
اب ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسان دنیا میں دو  ہی قسم کے حالات سے دو چار ہوسکتا ہے –یا تو وہ خوشی کی حالت میں ہوگا یا غم کی حالت میں۔ ہم پر  اللہ تبارک و تعالیٰ  کا یہ عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ بتلا دیا ہے کہ دونوں حالتوں میں ہمارا انداز کیا ہو۔ چنانچہ وہ تمام حالات جو خوشی کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں اُن پر شکر گزاری کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر تم شکر ادا کروگے تو اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری نعمتوں میں اضافہ فرمائے گا ۔ وہ تمام عوامل جو غم کی وجہ بنتے ہیں اُن پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
 یاد رکھئے! حالات پر صبر کرنا اُس وقت ہمارے لئے انتہائی آسان ہوجائے گا جب ہم عقلی طور پر ثابت شدہ ایک اُصول پر غور کریں گے کہ ہر وہ انسان جو کسی کورس کے مکمل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اُس کے دعوے کی صداقت کو پرکھنے کے لئے اُس کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے؛ بعیٖنہ ہم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کیا ہے تو پھریہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے دعوے کو پرکھنے کے لئے ہمارا ٹیسٹ نہ ہو۔ غرضیکہ مختلف حالات جن سے ہم دوچار ہوتے ہیں وہ ہمارے لئے ٹیسٹ کی مانند ہیں جس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامنا نا ہمارے لئے ناگزیر ہے۔
  اوپر مذکور تین ٹھکانوں میں سے دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے جہاں نہ کوئی ہمیشہ رہا ہے اور نہ رہے گا؛جہاں تک جہنم کا سوال ہے تو جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل کا تھوڑا حصہ بھی استعمال کرے گا وہ وہاں کبھی نہیں جانا چاہے گا۔جنت میں  ہمیشہ ہمیش کے واسطے اپنی جگہ بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا میں پیش آنے والے خوشی و غم کے صرف مثبت پہلو ؤں پر ہی غورو فکر کریں اور منفی سوچ کو اپنے قریب بھی نہ آنے دیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK