ہمارے معاشرے میں اکثر نوجوان مستقل مزاجی سے کسی کام کو انجام نہیں دیتے۔ حالانکہ اسلام کے ابتدائی دنوں کا مطالعہ کیجئے یا ماضی قریب کا، کامیابی تک پہنچنے والی ہر تحریک یا مشن کے پیچھے اس کے قائدین کی مستقل مزاجی اور ان تھک حوصلہ ہی نظر آتا ہے۔
نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جتنا اہم مشن اور جتنا بڑا وژن ہوگا اس کے لئے اتنی ہی محنت لگن کی ضرورت ہوگی۔ : آئی این این
کامیابی کی بنیادی اور اہم کلید مشن سے لگاؤ، مستقل مزاجی اور محنت ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ جو شخص جتنا ٹوٹ کر اپنے مشن سے وابستگی رکھے گا وہ اس میں اتنا ہی زیادہ کامیاب ہوگا۔ عام طور سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر کسی کا مشن چھوٹا ہو تو اس پر زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہلکی پھلکی لگن سے ہی وہ کامیاب ہوجائے گا۔ یہ تصور ناقص ہے۔ لہٰذا یاد رکھئے کہ مشن بذات خود چھوٹا یا بڑا، اہم یا غیر اہم نہیں ہوتا بلکہ اس کو بڑا یا چھوٹا ، اہم یا غیر اہم بنانا ہمارے اوپر ہے ۔ جتنا بڑا وژن ہمارا کسی تحریک کے متعلق ہوگا وہ تحریک اپنے مقاصد و اہداف میں اتنی ہی بڑی ہوگی۔ برعکس اس کے اگر اس کی بابت ہمارا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے اور اس کے متعلق وژن محدود ہے تو یقین جانئے وہ مشن یا تحریک وسیع ترین نہیں ہوسکتی۔
اسلام نے جو تعلیمات پیش کی ہیں ان میں مستقل مزاجی اور صبر و تحمل کو بڑا دخل ہے۔ تحریک و مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں متعدد مثالیں ملتی ہیں جو آج کی دنیا کے لئے نمونۂ عمل ہیں اور وہ یقیناً غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ مشن سے محبت کی واضح مثال کتب سیرت میں ہمیں یہ ملتی ہے کہ ایک مرتبہ رؤساء مکہ کا وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپؐ سے کہا کہ آپؐ جس دین کی تبلیغ و ترویج کررہے ہیں اس سے رک جائیے آپؐ کو ہم مکہ کا سردار تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں، اگر آپؐ کو دماغی طور پر کوئی شکایت (نعوذباللہ) ہے تو بڑے سے بڑے حکیم کو بلا کر علاج کرانے کے لئے تیار ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر جو جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشن سے محبت اور اس سے لگاؤ کی اہمیت و افادیت کیا ہوتی ہے ۔ رؤساء مکہ کے اس وفد کو حضور ؐ نے جواب دیا کہ ایک ہاتھ پر سورج اور ایک ہاتھ پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس مشن سے باز نہیں آؤں گا جس کی تبلیغ و اشاعت کیلئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ۲۳؍سال کے عرصہ میں آپ ؐ کا یہ مشن پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ یہی نہیں بلکہ مذہب اسلام کے روحانی و فکری اثرات عرب کے اس ان پڑھ سماج میں جہاں ظلم و تعدی ، فساد اور جنگ و جدل ، زنا، چوری ، لوٹ کھسوٹ جیسے جرائم عام تھے، اس طرح ثبت ہوئے کہ وہ معاشرہ امن و امان کا مرکز، انسانیت اور اتحاد و یکجہتی کا گہوارہ بن گیا ۔
افسوس کہ آج ہمارے باہمی اختلافات، محدود مفادات یا خود ساختہ مصلحتوں نے اسلام جیسے آفاقی ، مذہب کو محدود کردیا ہے ۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اس رویے پر بھی سوچنا ہوگا کہ جس مشن تعلیم و تبلیغ کے لئے مذہب اسلام آیا تھا کیا ہم اس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں یا محض اپنے ذاتی حصار میں رہ کر مذہب اسلام کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
بنی نوع انسانی کو ایک ایسی کتاب ہدایت عطا کی گئی ہے جس کی عظمت و جلالت اور معنویت کے اثرات ہر دور میں محسوس کئے گئے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کی تعبیر و تشریح بھی ہم اپنے وضع کردہ افکار کے مطابق کردیتے ہیں اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے دیگر چیزوں کو اپنا رہنما تسلیم کررہے ہیں۔
جب ہم انیسویں اور بیسویں صدی پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسی کئی تحریکیں وجود میں آئیں اور محض اسلئے کامیاب و کامران ہوئیں کہ ان سے وابستہ افراد نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس مشن کی تکمیل کیلئے صرف کردیا تھا ۔ اس تناظر میں تحریک جنگ آزادی کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ یہ تحریک انیسویں اور بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر چلائی جو برطانیہ کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ بنی اور آخرکار ۱۹۴۷ء میں ہندوستان آزاد ہوا۔
تحریک سر سید بھی نمایاں اور ممتاز ہے ۔ سرسید جس مشن اور تحریک کو لے کر چلے وہ نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ اس کی فکری و نظریاتی اور علمی شاخیں دنیا کے بیشتر ممالک میں پہنچ چکی ہیں ۔ سرسید احمد خاں نے بنیادی طور پر تعلیمی تحریک کو اس وقت کی جملہ تحریکوں سے ممتاز اس لئے بنایا کہ یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی نظم و ضبط تھا ۔ ان کی تحریک اور مشن کامیابی کے آخری پائدان پر اس لئے پہنچا کہ انہوں نے شعوری طور پر انتھک کوشش کی جس میں مستقل مزاجی ، استقامت ، صبر و تحمل اور برداشت کا خاص طور پر عمل دخل ہے۔
آج جہاں نظریاتی اور فکری طور پر امت مسلمہ کو بہت سارے مسائل درپیش ہیں وہیں سماج میں انتشار بھی عروج پر ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کے حقیقی مسائل بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔
بالائی سطور میں پیش کی گئی تین مثالیں، ایک عہد رسالت کے مکی دور کی ، دوسری تحریک جنگ آزادی کی اور تیسری ماضی قریب کی یعنی سر سید احمد خاں کی تعلیمی تحریک ، یا ان جیسی دیگر مثالیں آج کے نوجوانوں اور عالم انسانیت خصوصاً ان افراد کے لئے مشعل راہ ہیں جو مشن و تحریک سے جڑے ہوئے ہیں ۔ انہیں چاہئے کہ اگر تحریک و مشن کو کامیاب کرنا ہے تو بنیادی طور پر مشن سے بے لوث لگاؤ اور مستقل مزاجی پیدا کرنی ہوگی ۔ آج کا نوجوان تسلسل کے ساتھ کچھ کرنے کو تیار نہیں البتہ جو لوگ مستقل کسی کام میں لگ جاتے ہیں وہ کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں ۔ کبھی ذہن میں آیا تو کچھ کرلیا اور ایک کام سے طبیعت بھر گئی تو دوسرا کام کرلیا ،پھر کچھ دن بعد کچھ اور کرنے لگے، تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح سے نہ کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے اور نہ ایسے افراد کے کارناموں کو یاد رکھا جاتا ہے ۔ نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جتنا اہم مشن اور جتنا بڑا وژن ہوگا اس کے لئے اتنی ہی محنت لگن کی ضرورت ہوگی۔ دنیا میں جتنی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں ان کے پس پردہ محنت و لگن کا بنیادی کردار و عمل نظر آتا ہے۔