اسلام نے انسانی زندگی کے ہر گوشے کےلئے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں، وہ دراصل محض پابندیاں نہیں بلکہ زندگی کے توازن، اعتدال اور حسنِ نظم کی ضمانت ہیں۔
اسلام نے گفتگو میں نرمی اور توازن کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ تصویر: آئی این این
اسلام نے انسانی زندگی کے ہر گوشے کےلئے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں، وہ دراصل محض پابندیاں نہیں بلکہ زندگی کے توازن، اعتدال اور حسنِ نظم کی ضمانت ہیں۔ انسان جب اپنی خواہشات، جذبات اور افکار کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے تو وہ خود اپنی تباہی کا سامان تیار کرتا ہے، لیکن جب وہ ان کو الٰہی ضابطوں کے تحت لاتا ہے تو اس کی زندگی ایک حسین نظم میں ڈھل جاتی ہے، جہاں عدل، امن اور سکون کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اس اعتبار سےاسلامی حدود، انسانی آزادی کو ختم نہیں کرتیں بلکہ اسے سمت عطا کرتی ہیں تاکہ انسان محض حیوانی سطح پر نہ جئے بلکہ اپنی روحانی و اخلاقی عظمت کو پہچانے۔ یہی وہ فلسفہ ٔ حیات ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے ،جو نہ افراط میں گم ہے نہ تفریط میں بلکہ فطرت اور وحی کے حسین امتزاج سے مزین ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم اسلام کی عظیم تعلیم آدابِ اختلاف کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اسلام نے انسان میں موجود تنوع اور فکری اختلاف کو فطری عمل قرار دیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید نے ہمیں یہ سکھایا کہ اختلاف رائے کے باوجود گفت و شنید کا دامن شائستگی، منطق اور خیرخواہی سے بھرپور ہونا چاہئے۔ اس اعتبار سے اسلام نے بحث و مباحثہ کو دشمنی کا میدان نہیں بلکہ حق کے اظہار اور فہم ِ حقیقت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن ہمیں حکم دیتا ہے:
’’اور ان سے بحث ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔‘‘ (سورۃ النحل:۱۲۵)یہ آیت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ دلائل کی جنگ میں بھی زبان کا وقار، نیت کی پاکیزگی اور طرزِ بیان کی نرمی برقرار رہنی چاہئے۔ اسلام کا یہی جمالیاتی و منطقی پہلو اسے محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل اخلاقی فلسفہ ٔ حیات بناتا ہے۔
ایک طرف اسلام کی یہ روشن اور متوازن تعلیمات ہیں جو آدابِ اختلاف میں حسنِ گفتار، نرمی اور دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی دعوت دیتی ہیں، دوسری طرف افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ آج خود اسلام کے نام لیوا ان تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اختلافِ رائے برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہوتا جا رہا ہے اور گفتگو کے میدان میں جذبات، تعصب اور الزام تراشی نے استدلال و شائستگی کی جگہ لے لی ہے۔ اس وقت خاص طور پر بہار اسمبلی انتخابات میں سیاسی گفتگو کے دوران اس کا عملی مظاہرہ صاف نظر آ رہا ہے، جہاں باہمی احترام اور سنجیدگی کے بجائے نفرت آمیز جملوں اور غیر محتاط بیانات نے فضا کو مکدر کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال نہ صرف فکری زوال کی علامت ہے بلکہ اسلامی آدابِ گفتگو اور اخلاقی وقار کے بھی صریح منافی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی یا فکری اختلاف کے دوران جب ہم اپنے مدّ مقابل سے سخت اور ترش لہجے میں گفتگو کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ اختلاف عارضی ہوتا ہے مگر معاشرتی زندگی کا سلسلہ بعد میں بھی قائم رہتا ہےاور ہم انہی چہروں کے درمیان رہتے ہیں جن سے آج ہم تلخ کلامی کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مکافاتِ عمل صرف اس دنیا تک محدود نہیں، بلکہ آخرت میں بھی ہر لفظ اور ہر رویّے کا حساب لیا جائے گا، کیونکہ یہ معاملہ حقوق العباد سے متعلق ہے، جسے اللہ تعالیٰ بھی بغیر معافی کے معاف نہیں فرماتا۔ لہٰذا زبان کا نرم ہونا، دل کا وسیع ہونا، اور اختلاف میں عدل و اخلاق کا دامن تھامے رکھنا ایمان اور انسانیت، دونوں کی پہچان ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی تعلقات اور گفتگو کے آداب میں سب سے بنیادی اصول یہی سکھایا ہے کہ زبان کو سنبھال کر استعمال کیا جائے، کیونکہ ایک لفظ بھی انسان کے اعمال نامے کو بھاری یا ہلکا کر سکتا ہے۔ اس تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یا تو اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔‘‘ (بخاری) یہ جامع تعلیم دراصل اس بات کا درس دیتی ہے کہ مؤمن کی زبان ہمیشہ خیر، اصلاح اور نرمی کی نمائندہ ہو۔ اگر انسان کے الفاظ کسی کو دکھ دینے یا فساد پیدا کرنے کا سبب بنیں تو خاموشی اختیار کرنا ہی عین حکمت اور ایمان کی علامت ہے۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسلام کی یہ تعلیمات صرف زبانی گفتگو یا مناظرانہ بحث تک محدود نہیں، بلکہ آج کے دور میں سوشل میڈیا پر ہونے والی گفتگو پر بھی پوری طرح منطبق ہوتی ہیں۔ زبان کی طرح تحریر بھی انسان کے اخلاق اور تربیت کی آئینہ دار ہے۔ اس لئے جب سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے، تو یہ دراصل اسی آدابِ گفتگو کی خلاف ورزی ہے جس سے قرآن و سنت نے منع فرمایا ہے۔ الفاظ چاہے زبان سے نکلیں یا انگلیوں سے،ان کا وزن، اثر اور جوابدہی یکساں ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہم ڈیجیٹل دنیا میں بھی وہی سنجیدگی، شائستگی اور اخلاقی ذمہ داری اختیار کریں جو ایک مہذب اور باایمان انسان کی شان ہے۔
اس بحث کا ایک نہایت لطیف اور باریک نکتہ یہ بھی ہے کہ کبھی الفاظ نہیں بلکہ لہجے کی سختی اور آواز کی بلندی ہی گستاخی بن جاتی ہے۔ انسان کے لہجے کا اتار چڑھاؤ اس کے باطن کی کیفیت کا مظہر ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے گفتگو میں نرمی اور توازن کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ قرآنِ مجید نے اس پہلو پر بھی بڑی گہرائی سے روشنی ڈالی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے اس طرح زور سے بات کرو جیسے تم آپس میں کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ (سورۃ الحجرات:۲) یہ آیت صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ اس ابدی اصول کو اجاگر کرتی ہے کہ گفتگو میں لہجے کی نرمی، دل کے خشوع و خضوع کی علامت ہے اور آواز کی بلندی، تکبر اور بےادبی کے زوال انگیز اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اعتدال، وقار اور توازن کا پیکر بنانے کے لئے جو تعلیمات دی ہیں ان میں آدابِ گفتگو اور آدابِ اختلاف کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس تعلق سے مذکورہ اخلاقی و روحانی توازن اسلامی فلسفۂ حیات کی اصل روح ہے جو انسان کو گفتگو میں بھی عبادت کا شعور عطا کرتی ہے۔