قیام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ۱۰۵؍ سال:
آج، محدود وسائل کے ساتھ شروع کئے گئے اس ادارہ کی حیثیت ملک کی اہم مرکزی یونیورسٹی کی ہے۔ یہ تمغہ یوں ہی نہیں مل گیاہے۔
جامعہنے ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۵ء کو اپنے قیام کا جشن منایا۔ جشن کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ایک سو پانچ سال تک آتے آتے کتنی زندگیاں روشن اور روپوش ہوئیں ، روپوشی دراصل روشنی کی ایک صورت ہے۔ اب جبکہ جامعہ ملک کی اہم ترین مرکزی یونیورسٹیوں میں شامل ہے اور عالمی سطح پر بھی ہے، اس نے اہم مقام حاصل کیا ہے۔ہمیں جامعہ کے بنیاد گزاروں کو یاد کرنا چاہیے۔ بانیان جامعہ اور معماران جامعہ یہ دو ترکیبیں عام طور پر استعمال کی جاتی ہیں ۔ انہیں سنتے اور پڑھتے ہوئے چند چہرے اور زندگیاں نگاہ کے سامنے روشن ہو جاتی ہیں ۔ ایک وہ وقت تھا جب وسائل کی بہت کمی تھی بلکہ ایک معنی میں وسائل تھے ہی نہیں ، اگر کچھ تھا تو وہ عزم اور حوصلہ تھا۔ تاریخی اعتبار سے جامعہ کی کہانی ایک مسافرانہ زندگی کی کہانی ہے۔مسافرانہ بے کسی کا مطلب اصل میں مشقت سے بھری زندگی ہے جو اپنے وسائل کے ساتھ زندگی کو سنوارنا چاہتی ہے۔ جس ادارے کی بنیاد مسجد میں رکھی گئی اور وہ باہر خیموں میں آ کر اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے، اس کی اخلاقی اور روحانی قدر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔کھلے میدان میں اسکول کے لئے جو شامیانہ تھا وہ بظاہر کتنا چھوٹا اور محدود تھا۔ تاریخ کو بھی اس کا علم نہیں تھا کہ یہ شامیانہ وقت کے ساتھ اتنا بڑا ہو جائے گا کہ ایک دنیا اس کے سائے تلے آ جائے گی۔
جامعہ کی ابتدائی زندگی دراصل خیموں کی زندگی ہے اور یہ زندگی زمینی ہونے کے باوجود کتنی تخیلاتی ہے۔ خیال تعلیم و ترقی کا تھا اور دوسری طرف تحریک آزادی اس مشن کا حصہ تھی۔ قدرت نے جامعہ کی تعمیر کا جو وقت مقرر کیا تھا، وہ بھی جامعہ کو دوسرے اداروں سے ممتاز کرتا ہے۔ تحریک آزادی اور قیام جامعہ۔ وقت کتنا مشکل تھا اور کتنا حوصلہ افزا۔ گاندھی جی کی قیادت میں ملک سرگرم عمل تھا اور جامعہ کی زندگی گویا گاندھی جی کے ساتھ تاریخی رول ادا کرنے کے لیے موجود تھی۔یہ زندگی گاندھی جی کی بھی زندگی تھی۔
جامعہ دراصل تعلیمی زندگی ہے اور دھیرے دھیرے اس تعلیمی زندگی میں اپنے وقت کی بہت سی سچائیاں شامل ہو گئیں ۔ جامعہ کی زندگی اصل میں ایک ایثار کی زندگی ہے جس نے کم سے کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ حصولیابی کی مثال قائم کی۔ آج وسائل کے بارے میں بہت گفتگو ہوتی ہے لیکن جامعہ کی تاریخ کہتی ہے کہ وسائل کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ ہے مگر ہماری تاریخ کم سے کم وسائل میں تعلیم و ترقی کا معیار بھی قائم کرنا ہے اور نمونہ بھی۔
مجھے یہاں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جامعہ کی تاریخ ہمہ وقت ایثار کی کہانی سنا رہی ہے۔ اور یہ بھی کہتی ہے کہ زبان پر حرف شکوہ کا لانا ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ ہمیں کرنا چاہیے۔ کتنی کم تنخواہ تھی لیکن یہاں کے اساتذہ نے کتنی زندگیوں کو روشن کر دیا۔ شفیق الرحمان قدوائی اپنے والد کو ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’میرا ارادہ دسمبر کی تعطیلات میں گھر آنے کا تھا، لیکن اس مرتبہ تعطیلات کے زمانے میں جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ کے وفود مختلف مقامات پر فراہمی ٔ سرمایہ کے لئے نیز جامعہ کے تعلیمی مقاصد کی اشاعت کے لئے بھیجے جا رہے ہیں اور مجھے صوبہ متوسط اور بہار کے لئے کہا گیا ہے۔چونکہ اس مرتبہ میں گھر بھی ہو آیا ہوں ، اس لئے میرے لئے انکار کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور پھر یہ خیال بھی ہے کہ اگر حسب امید یہ معقول رقم فراہم ہوئی تو جامعہ کے بہت سے کام جو روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے رکے پڑے ہیں وہ چلے جائیں گے۔‘‘ (جامعہ ملیہ اسلامیہ، قرول باغ دہلی،سات دسمبر ۱۹۲۷)
تاریخ اور مقام پر نگاہ کیجیے تو آج کی جامعہ اپنی مسافرانہ اور مشقت سے بھری زندگی کو یاد کرنے کی ترغیب دے گی۔ اس کی روایت دراصل جہد عمل کی روایت ہے۔ شفیق الرحمان قدوائی، جو جامعہ کے بنیاد گزاروں میں ہیں ، اور جن کے نام پر یہاں کی دو عمارتیں بھی ہیں ، ان کے خطوط کا مطالعہ کیجئے تو جامعہ کی کہانی گاندھی جی اور تحریک آزادی کے ساتھ دکھائی دے گی۔ شفیق الرحمان قدوائی دوسرے خط میں لکھتے ہیں :
’’فی الحال جامعہ کی جو مالی حالت ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا ارادہ نہیں ہے کہ ابھی اپنے لئے کوئی تنخواہ مقرر کراؤں ۔ قیام و طعام کے صرف ضروری اخراجات ابھی میرے لئے کافی ہیں ۔‘‘ (جامعہ ملیہ اسلامیہ، قرول باغ، دہلی، ۳؍ اگست ۱۹۲۵ء)
اس طرح جامعہ بنی اور آگے بڑھی۔ تنخواہ کتنی کم تھی بلکہ نہیں تھی۔ تنخواہ اب کتنی زیادہ ہے۔ یہ زیادتی ہمیں ذمہ داریوں کا شدید احساس دلا سکتی ہے۔ نیا وقت پرانے وقت کے ساتھ خوبصورت بنتا ہے۔ وقت کا یہی تصور قمقموں کی روشنی کو چراغ کی روشنی کے ساتھ دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ آج جامعہ کی شام کتنی روشن ہے۔ میں اپنے شعبےمیں بیٹھ کر جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو ہر طرف سے آوازیں آرہی ہیں ۔ ان آوازوں میں کتنی وسعت اور وحدت ہے۔ کل اس وقت کل ہند مشاعرہ میں شعراء اپنا کلام سنا رہے تھے۔ مشاعرے کو کلیم عاجز سے منسوب کیا گیا۔ بڑے شامیانوں کے ساتھ چھوٹے شامیانے بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کرجامعہ کے تاریخی خیموں کا خیال آتا ہے۔
جامعہ کی ایک سو پانچ سالہ تقریب منعقد ہوئی تو افتتاحی اجلاس میں اقلیتی فلاح و بہبود کے مرکزی وزیر کرن رجیجونے اردو کو دنیا کی سب سے خوبصورت زبان بتایا۔جامعہ کے تعلق سے ان کا خیال تھا کہ یہ ایک تاریخی ادارہ ہے جس سے تحریک آزادی کو تقویت ملی۔ جامعہ سے یہ پیغام جانا چاہیے کہ ہمارا ملک کثرت میں وحدت کی ایک بڑی اور خوبصورت مثال ہے۔ مرکزی وزیر کے خیالات جامعہ کی تاریخ اور تہذیب سے نہ صرف ہم آہنگ تھے، بلکہ یہ احساس بھی ہوا کہ ملک اور قوم کے لیے جو لوگ قربانیاں پیش کرتے ہیں ، انہیں دیکھنے کا زاویہ قومی اور تہذیبی ہونا چاہیے۔قربانیوں کی تعبیر اور تفہیم کا مطلب بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرنا ہے۔ n