پولس افسر نے کہا : بات چیت بہت سارے مسئلوں کا حل ہے جیسا کہ ابھی ہوا۔ بہت سارے ایسے پہلو ہمارے سامنے آئے جو میرے ذہن و دماغ میں دور دور تک نہیں تھے۔
EPAPER
Updated: September 22, 2023, 12:18 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
پولس افسر نے کہا : بات چیت بہت سارے مسئلوں کا حل ہے جیسا کہ ابھی ہوا۔ بہت سارے ایسے پہلو ہمارے سامنے آئے جو میرے ذہن و دماغ میں دور دور تک نہیں تھے۔
برادران وطن کی اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو بہت سارے معاملات میں مسلمانوں کے تئیں غلط فہمی کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برادران وطن اور مسلمانوں کے درمیان حالیہ دنوں میں دوریاں بڑھی ہیں۔ اس کا احساس تمام سنجیدہ لوگوں کو پہلے سے ہی ہے لیکن مجھے اس معاملے کی گہرائی کا مزید احساس اس وقت ہوا جب میں گزشتہ دنوں بذریعہ ٹرین دہلی کا سفر کر رہا تھا۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ جس ڈبے میں مَیں سفر کر رہا تھا،پولیس کے تین اعلیٰ افسران بھی اسی میں سفر کر رہے تھے۔اتفاق سے ان تینوں کی سیٹ میری سیٹ کے سامنے تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان تینوں پولیس افسران میں سے ایک نے مجھ سے کہا : مولانا صاحب میرے ذہن میں کچھ باتیں ہیں اگر اجازت ہو تو مَیں پوچھوں؟ مَیں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ مدرسوں میں فرقہ پرستی اور نفرت کی تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟ پھر انہوں نے پوچھا کہ کعبے کو بند کیوں رکھا جاتا ہے اور اخیر میں انہوں نے پوچھا کہ بیت اللہ میں غیر مسلموں کو داخل ہونے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
راقم نے انہیں عقلی دلائل کی روشنی میں یہ جوابات دیئے:
سب سے پہلے سوال کے جواب میں مَیں نے یہ پوچھا کہ آپ کو اس بات کا علم کہاں سے ہوا کہ مدرسے میں فرقہ پرستی اور نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے؟ پولس افسر نے جواب دیا یہ تو بہت مشہور ہے اور سب جانتے ہیں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے مدرسے کے نظام کوخود سے دیکھا ہے اور آپ کو اس کا کوئی عملی تجربہ ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، میں نے یہ باتیں کئی لوگوں سے سنی ہیں۔ قبل اس کے کہ میں ان کو اس سوال کا جواب دیتا میں نے ان سے کہا کہ ہر سنی سنائی بات پر ہم کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں؟ پھر میں نے ان سے یہ کہنے کے بعد کہ آپ کسی بھی مدرسے میں جاکر خود جائزہ لے لیں، تفصیل سے مدرسے کے تعلیمی نظام کو سمجھایا اور بتایا کہ مدرسے میں قرآن و حدیث کی تعلیم ہوتی ہے۔ان دونوں چیزوں میں بنیادی طور پر یہ بات بتائی گئی ہے کہ انسان کامیابی کیسے حاصل کرے اور ناکامی سے کیسے بچے اور اس میں یہ بات بھی سکھائی گئی ہے کہ ہم تمام لوگوں کے ساتھ کس طرح امن و شانتی کے ساتھ رہیں اور کس طرح ایک دوسرے کے کام آئیں۔ پھر میں نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سنایا کہ ’’ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لئے نفع بخش ہو۔‘‘ اسی ضمن میں یہ حدیث بھی سنائی کہ ’’ جب تک انسان اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی مدد کرتے ہیں۔‘‘ فرقہ پرستی والی غلط فہمی دور کرنے کے لئے میں نے بطور خاص انہیں بتایا کہ مدرسے میں تو پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ: ’’تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں۔‘‘
میں نے اس سوال پر اپنی بات ختم کرتے ہوئے یہ کہا کہ مدارس میں اس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے اس لئے فرقہ پرستی اور نفرت کی تعلیم کی بات کہاں تک درست ہو سکتی ہے اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں!
اس کے بعد دوسرے سوال یعنی خانہ کعبہ کیوں بند رکھا جاتا ہے پر تفصیلی بات کی ابتداء کرتے ہوئے میں نے ان سے کہا کہ یہ بھی آپ نے خود سے نہیں دیکھا بلکہ سنی سنائی باتوں کے سبب اپنے دماغ میں ایک تصور قائم کر لیا ہے۔ اس درمیان ایک دوسرے پولس افسر نے مجھ سے یہ پوچھا کہ مکہ میں جو ڈھانچہ ہے اس کی تاریخ کیا ہے۔ میں نے اس حوالے سے حضرت ابرہیم علیہ السلام کے زمانے سے انہیں خانہ کعبہ کی تاریخ بتلائی اور حضرت ابرہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے ذریعے خانہ کعبہ کی تعمیر کا پورا واقعہ سنایا۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ کالے غلاف میں ڈھکا جو حصہ ہے، ایسا نہیں کہ وہ بالکل بند ہے بلکہ اسے کبھی کبھی کھولا بھی جاتا ہے اور اس کی تصویر دنیا کے سامنے آتی ہے اور یہ بات صاف ہوتی ہے کہ اس کے اندر ایسا کچھ نہیں ہے جس پر شک و شبہ کیا جائے۔ میں نے عقلی طور پر بات سمجھانے کیلئے ان سے یہ کہا کہ وہاں تو آج سے نہیں ہزاروں سال سے مسلمانوں کی حکومت ہے،اگر کسی دوسرے مذہب کی کوئی چیز وہاں ہوتی (جیسا کہ ذہنوں کو مسموم کرنے کیلئے کہا جاتا ہے) تو ان لوگوں کے لئے اُس چیز کو ہٹانا مشکل کام نہیں تھا۔میں نے ان سے مزید کہا کہ اس طرح کی باتیں آپ حضرات پچھلے کچھ سالوں سے ہی کہہ رہے ہیں، اگر اس میں سچائی ہوتی تو آپ کی مقدس کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ ہوتا اور آپ کے آباء و اجداد سے بھی اس طرح کی بات آتی لیکن نہ ہی آپ کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ہے اور نہ ہی آپ کے آباء و اجداد نے ایسی کوئی بات کہی ہے۔
اس کے بعد تیسرے سوال یعنی حرم میں غیر مسلموں کو داخل ہونے کی اجازت کیوں نہیں ہے کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ ہر وہ جگہ جو اہمیت کی حامل ہو وہاں کے پروٹوکول ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر کوئی پارلیمنٹ جانا چاہے تو اس کو متعدد شرائط پوری کرنی ہوںگی اس کے بعد وہ پارلیمنٹ میں داخل ہو سکے گا۔ اسی طرح حدود حرم میں داخل ہونے کی کچھ شرائط ہیں، ان میں سے اہم شرط یہ ہے کہ انسان پاک و صاف ہو۔ پھر میں نے وضاحت کرتے ہوئے بتلایا کہ اسلام میں پاک و صاف ہونے کا مطلب یوں ہی منہ ہاتھ دھو لینا یا غسل کر لینا نہیں ہے بلکہ اس کے طریقے اور آداب ہیں، اس کے مطابق ہی اگر کوئی پاکی حاصل کر ے گا تو وہ پاک صاف کہلائے گا۔ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ غیر مسلموں کو ظاہری و باطنی پاکی حاصل کرنے کا اسلامی طریقہ معلوم نہیں ہوتا، اس لئے انہیں وہاں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی وہ پاکی حاصل کر لے جو اسلام چاہتا ہے تو اسےحدود حرم میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ راقم نے اخیر میں کہا کہ وہاں ذات پات کی بنیاد پر داخل ہونے سے نہیں روکا جاتا جیسا کہ ہمارے ملک میں طبقاتی نظام کے زیر اثر کیا جاتا ہے۔ وہاں داخلے کی شرط اسلام میں مطلوب پاکی ہے۔
میری باتوں کو سنجیدگی سے سننے کے بعد پولس افسر نے کہا کہ بات چیت بہت سارے مسئلوں کا حل ہے جیسا کہ ابھی ہوا۔ بہت سارے ایسے پہلو ہمارے سامنے آئے جو میرے ذہن و دماغ میں دور دور تک نہیں تھے۔