Inquilab Logo

کیا ’سدرشن‘ جیسے چینلوں کو کچھ نصیحت ملی؟

Updated: September 17, 2020, 8:00 AM IST | Editorial

سدرشن ٹی وی کے خصوصی پروگرام ’’نوکر شاہی جہاد‘‘ کے پیچھے نیت کیا تھی، اس کا اظہار پروگرام کے نام بالخصوص لفظ ’جہاد‘ کے استعمال ہی سے ہوتا ہے۔

Suresh Chavhanke
سریش سدرشن ٹی وی

سدرشن ٹی وی کے خصوصی پروگرام ’’نوکر شاہی جہاد‘‘ کے پیچھے نیت کیا تھی، اس کا اظہار پروگرام کے نام بالخصوص لفظ ’جہاد‘ کے استعمال ہی سے ہوتا ہے۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ اس کے نشریہ کو روکنا مناسب نہیں سمجھا تھا، شاید اِس لئے کہ اُس وقت تک پروگرام کے مشمولات سامنے نہیں آئے تھے چنانچہ آزادیٔ اظہارِ رائے اور آزادیٔ صحافت کے پیش نظر، نیت پر شبہ نہ کرنے بلکہ شک کا فائدہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے روکا نہیں گیا تھا مگر نو (۹) ایپی سوڈ کے اس خصوصی نشریہ کے چار (۴) ایپی سوڈ منظر عام پر آنے کے بعد ثابت ہوگیا کہ یہ پروگرام سراسر بدنیتی پر مبنی ہے اسلئے سپریم کورٹ نے اسے روکنا ضروری سمجھا۔ یہ فیصلہ اپنے آپ میں تاریخی تو ہے ہی، سماعت کے دوران ججوں کے خیالات، مشاہدات اور آئین کی تشریح بھی قابل ستائش اور اُمید افزا ہے۔ 
 معزز عدالت نے جن نکات پر خاص طور پر اصرار کیا اُن میں کوئی بھی کم اہم نہیں ہے اس کے باوجود جس نکتے کو سرفہرست رکھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی ٹی وی پروگرام یا میڈیا رپورٹ میں کسی خاص فرقہ کے لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا، دروغ گوئی اور بہتان طرازی کے ذریعہ تو بالکل نہیں۔ اس کا اطلاق جتنا ’’نوکر شاہی جہاد‘‘ کے نشریہ پر ہوتا ہے اُتنا ہی تبلیغی جماعت کے معاملہ میں بھی ہوتا ہے، اس لئے اُمید کی جاسکتی ہے کہ جب تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کی شرانگیزی کا معاملہ زیر سماعت آئیگا، سدرشن ٹی وی سے متعلق سپریم کورٹ کے زیر بحث فیصلے سے کافی مدد ملے گی۔ دوسرا اہم نکتہ نفرت پر مبنی تقریروں (یا بیانات یا پروگرام) سے متعلق ہے جن پر سپریم کورٹ کی سہ رُکنی بنچ نے کہا کہ ایسے ملک میں جو مختلف تہذیبوں، مذہبوں اور زبانوں کا خوبصورت گہوارہ ہے اور جس کا جوہر ِخاص کثرت میں وحدت ہے، اُس میں کسی ایک فرقہ کو بدنیتی سے ہدف بنانے کی کوشش برداشت نہیں کی جاسکتی۔ تیسرا اہم نکتہ اُن متعلقہ اداروں کی گرفت ہے جو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہیں۔ عدالت نے متعلقہ اداروں سے بھی سوال کیا جو غافل نہ رہتے اور ضابطوں پر عمل آوری کو یقینی بناتے تو ٹی وی چینلز صحافتی آزادی کا ناجائز فائدہ نہ اُٹھاتے۔ 
 معزز عدالت نے میڈیا اداروں کے ذریعہ ’’متوازی تعزیری تفتیش‘‘ کے طریق کار (تازہ مثال: سوشانت کیس) کو بھی ہدف تنقید بنایا اور ٹی وی شوز کے اینکروں کے طرز عمل کی بھی گرفت کی جو کسی شو کے پینل میں شامل بعض افراد کا  اس وقت مائیکروفون بند (میوٹ) کردیتے ہیں جب ان کی رائے ٹی وی اینکر کی رائے سے مختلف ہوتی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ سخت نا انصافی ہے کہ آپ کسی کی رائے کو اس طرح دبانے کی کوشش کریں۔ اس بحث کے دوران ٹی وی چینلوں کی مالیات پر بھی عدالت نے رائے زنی کی اور ٹی آر پی کے مسئلہ سے بحث کرتے ہوئے یہ دیکھنا ضروری قرار دیا کہ کہیں چند ادارو ںکو زیادہ اور باقی کو کم سرکاری اشتہارات تو نہیں ملتے ہیں؟
  یہ تمام مشاہدات اور آراء دور رس نتائج کی حامل ہیںاو ران کی بنیاد پر سدرشن ٹی وی کے مذکورہ پروگرام کی پانچ قسطوں کا روک دیا جانا ازحد اہم ہے۔ اس سے پروگرام مرتب کرنے والوں کو نصیحت ملے گی، آئندہ کے پروگراموں کے نشریہ  پر روک لگنے کی اُمید بڑھے گی اور اگر ان کے خلاف معاملات عدالت میں گئے تو سپریم کورٹ کا زیر بحث فیصلہ ایک اہم نظیر اور حوالے کے طور پر کام آئیگا۔
 قانون اور آئین کی روح نیز ملک کے کثیر مذہبی و تہذیبی تانے بانے کو پیش نظر رکھ کر کئے گئے اس فیصلے سے عدلیہ کا وقار بلند ہوا اور نظام ِ عدالت پر عوامی  اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ سدرشن معاملے کی اگلی سماعت میں، جو آج ہے، مزید گرہیں کھلیں گی اور ٹی وی چینل متنبہ ہوسکیں گے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK