Inquilab Logo

کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے یہ کلمہ ڈر سے کہا ہے؟

Updated: March 17, 2023, 10:52 AM IST | Maulana Nadeem Al-Wajdi | Mumbai

سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں مختلف سرایا کا تذکرہ جاری ہے جن میں کامیابی بھی ملی اور مالِ غنیمت بھی ہاتھ آیا۔ آج کی قسط میں وہ واقعہ ملاحظہ کیجئے جب ایک شخص کے کلمہ پڑھ لینے کے باوجود قتل پر آپؐ نے ناراضگی ظاہر فرمائی تھی

Pilgrims in the courtyard of the Prophet`s Mosque. This is the place that every Muslim aspires to reach
زائرین حرم مسجد نبویؐ کے صحن میں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچنا ہر مسلمان کی اولین دلی خواہش ہوتی ہے


سریہ غالب بن عبد اللہ کلبیؓ
 (گزشتہ سے پیوستہ) اسی دوران حضرت اسامہ بن زیدؓ نے ایک مشرک کو گھیر لیا، اس کا نام مِرْدَاس بن نُہَیْک تھا، اس نے اپنے سر کے اوپر تلوار چمکتے ہوئے دیکھی تو وہ زور زور سے کلمہ پڑھنے لگا، لیکن حضرت اُسامہ نے یہ سمجھ کر اسے قتل کر ڈالا کہ اس نے دل سے نہیں بلکہ موت کے خوف سے کلمہ پڑھاہے۔ جنگ ختم ہوگئی، مسلمانوں نے قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا، ان کے اونٹ اور بکریاں ہنکا کر مدینے لے آئے، تمام مجاہدین کے حصے میں دس بکریاں یا ان کے مساوی اونٹ آئے، لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت اُسامہؓ کے واقعے کی خبر دی، آپؐ کو یہ بات نہایت گراں گزری کہ حضرت اسامہؓ نے ایک ایسے شخص کو جو کلمہ پڑھ رہا تھا قتل کردیا۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے کلمہ پڑھنے کے باوجود اسے قتل کردیا؟ حضرت اُسامہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس نے دل سے کلمہ نہیں پڑھا تھا بلکہ موت سے بچنے کے لئے پڑھا تھا، آپؐ نے فرمایا:  ’’کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ تمہیں یہ معلوم ہوتا کہ اس نے یہ کلمہ ڈر سے کہا ہے یا نہیں‘‘ یہ ابوداؤد کی روایت کے الفاظ ہیں، جس کے حضرت اسامہؓ خود راوی بھی ہیں، بخاری کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اسامہ! کیا تم نے کلمۂ لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی اسے قتل کردیا؟‘‘ اس کے راوی بھی حضرت اسامہ ہیں، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ بار بار دہرایا، میں (گھبرا کر) یہ تمنا کرنے لگا کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا۔ صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح ہے کہ واپسی کے بعد مجھے اپنے کئے پر خود تردّد ہوا، میں نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! نہیک بن مرداس کے ساتھ یہ قصہ پیش آیا، میری یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد دکھ ہوا، آپؐ نے مجھ سے فرمایا: اے اسامہ! تم قیامت کے روز لا الہ الا اللہ کا کیا جواب دو گے، آپؐ یہ فقرہ بار بار دہراتے رہے، حتی کہ میں یہ تمنا کرنے لگا کہ کاش آج سے پہلے میں اسلام نہ لایا ہوتا۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج کے بعد میں کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کروں گا جو لا الہ الا اللہ پڑھ لے گا، آپؐ نے فرمایا: میرے بعد بھی، میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپؐ کے بعد بھی۔ (صحیح البخاری: ۹/۴، رقم الحدیث: ۷۲۶۸، صحیح مسلم: ۱/۹۷، رقم الحدیث: ۹۶، زاد المعاد: ۳/۲۶۲)
شارحین حدیث لکھتے ہیں کہ حضرت اسامہ نے جو یہ تمنا کی کہ کاش! میں آج ہی اسلام لایا ہوتا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نعوذ باللہ کفر کی تمنا کررہے تھے، بلکہ اس جملے سے اپنی سنگین غلطی کے تدارک کا راستہ یہی تھا کہ وہ آج ہی مسلمان ہوتے تو بہتر تھا، کیوں کہ ان کے پیش نظر رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی تھا: الاسلام یہدم ما کان قبلہ  یعنی اسلام ماقبل کے گناہ ختم کردیتا ہے۔ اگر وہ آج مسلمان ہوئے ہوتے تو جو غلطی ان سے سرزد ہوئی ہے وہ معاف ہوجاتی۔
غالب بن عبد اللہؓ کی زیر قیادت ایک اور سریہ
یہ سریہ بنی الملوح کی طرف بھیجا گیا، یہ قبیلہ کَدِیْد میں رہتا تھا، اسے قدید بھی کہا جاتا ہے۔ ایک صحابی جن کا اسم گرامی جندب بن مکیث الجہنی ہے اور جو اس دستے میں شامل تھے کہتے ہیں جب ہمارا دستہ قدید پہنچا تو حارث بن مالک لیثی ہمیں وہاں ملا۔ ہم نے اس کو گرفتار کرلیا، وہ کہنے لگا کہ میں تو مسلمان ہونے کے لئے یہاں آیا ہوں، ہمارے سپہ سالار غالب بن عبد اللہؓ نے اس سے کہا کہ اگر تو مسلمان ہونے کے لئے آیا ہے تو ایک شب وروز کی اس قید سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے، اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو ہمارا یہ اقدام حق بہ جانب ہوگا۔ بہر حال ہم لوگ اس کے ہاتھ پیر باندھ کر وہیں چھوڑ گئے، اور ایک چھوٹے سے سیاہ فام شخص کو اس کی نگرانی پر مامور کرگئے، غالب بن عبد اللہ نے اس سے کہہ دیا تھا کہ ہماری واپسی تک اس کی چوکسی کرنا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم وادیِ قدید میں عصر کے بعد پہنچے، میرے ساتھیوں نے مجھے قبیلے والوں کی خبریں لینے کے لئے بھیجا، میں ان کی آبادی سے دور ایک ٹیلے پر چڑھا اور ان کی بستی کا جائزہ لینے لگا، اسی دوران ایک شخص نے مجھے ٹیلے پر لیٹے ہوئے دیکھ لیا، وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ مجھے اس ٹیلے پر کچھ سیاہی سی نظر آرہی ہے، صبح کے وقت تو یہاں کچھ نہ تھا، دیکھنا کوئی کتا تمہارے برتن وغیرہ لے کر تو نہیں گیا، اس کی بیوی نے کہا واللہ! سب برتن موجود ہیں، تب اس شخص نے مجھ پر دو تیر پھینکے، ایک میرے پہلو میں لگا، میں نے آہستگی سے اسے نکال دیا، اور اس طرح نکالا کہ میرے بدن میں کوئی حرکت نہیں ہوئی، دوسرا تیر میرے مونڈھے پر لگا، یہ تیر بھی میں نے نکال کر پھینک دیا، اور اسی طرح بے حس وحرکت لیٹا رہا، وہ شخص اپنی بیوی سے کہنے لگا، خدا کی قسم! میں نے اپنے تیر بلاوجہ ضائع کردیئے، اگر کوئی جان دار ہوتا تو وہ ضرور حرکت کرتا، صبح جاکر دونوں تیر اٹھا لانا۔کچھ ہی دیر بعد قبیلے والوں نے اپنے جانوروں کا دودھ دوہا، اندھیرا چھا گیا اور ہر طرف خاموشی پسر گئی، جب رات زیادہ ہوگئی تو ہم نے قبیلے پر حملہ کردیا، جنہیں قتل کرنا تھا انہیں قتل کیا، اور ان کے جانور ہانک کر چل دیئے، انہوں نے قوم کو آوازیں لگانی شروع کیں، مگر ہم تیزی کے ساتھ آگے بڑھے، حارث کو اور جو ہمارے آدمی وہاں تھے انہیں ساتھ لیا، وہ لوگ بھی ہمارے پیچھے پیچھے آرہے تھے، ہم ان کی آوازیں سن رہے تھے، ہمارے اور ان کے درمیان وادیِ قدید حائل تھی، اس سے پہلے کہ وہ یہ وادی عبور کرکے ہم تک پہنچتے اچانک کسی طرف سے سیلاب کے پانی کا زبردست ریلا آگیا، حالاں کہ پہلے سے بارش کے آثار نہیں تھے، ہم انہیں دیکھ رہے تھے اور وہ ہمیں، مگر ان میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ پانی کو عبور کرکے ہم تک پہنچتے، ہم تیز رفتاری سے چلتے ہوئے مدینے پہنچ گئے۔ (سیرت ابن ہشام: ۲/۶۲۹، زاد المعاد: ۳/۲۶۲، ۲۶۳)
سریہ بشیر بن سعد
ایک صحابی ہیں حُسَیْل بن خارجہ بن نُوَیرہ اشجعیؓ، خیبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستوں کی نشان دہی کے لئے ان کو ساتھ رکھا تھا۔ ایک دن وہ وادیٔ قری اور خیبر کے درمیان واقع الخباب سے حاضر خدمت ہوئے، آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا: وہاں کے کیا حالات ہیں؟ عرض کیا: یمن، غطفان اور حیان کے لوگ جمع ہیں، عیینہ کے ساتھ مل کر یہ قبائل مدینے پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ سے مشورہ فرمایا۔ ان دونوں حضرات نے عرض کیا کہ آپؐ بشیر بن سعدؓ کو وہاں بھیجئے۔ آپؐ نے تین سو صحابہ پر مشتمل ایک فوجی دستے کا قائد بنا کر حضرت بشیر بن سعدؓ کو اس ہدایت کے ساتھ روانہ فرمایا کہ وہ رات کو چلیں اور دن کو روپوش ہوجائیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا مگر جب مطلوبہ جگہ پر پہنچے تو وہاں کوئی نہ تھا، سب فرار ہوچکے تھے، اونٹ، بکریاں وغیرہ جانور موجود تھے۔ یہ حضرات ان کو ہنکا کر مدینہ لے آئے۔ راستے میں عیینہ کا ایک مخبر پکڑا گیا اوراس شخص کے دو اور آدمی بھی گرفتار ہوئے جن کو مدینے لایا گیا۔(زاد المعاد: ۳/۲۶۳، ۲۶۴، الطبقات الکبری:۳/۵۳۲ )
سیریہ أبی حدرد اسلمیؓ
حضرت ابو حدرد اسلمیؓ کہتے ہیں کہ میری نئی نئی شادی ہوئی تھی اور میرا نکاح دو سو درہم مہر پر ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کچھ مالی مدد کی درخواست کی، آپ نے فرمایا: میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے میں تمہاری مدد کرسکوں، کچھ دن کے بعد اچانک ایک سریہ پیش آگیا، اس میں مجھے اتنے اونٹ ملے کہ میں مالا مال ہوگیا۔ اس سریہ کا قصہ وہ خود اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جشم بن معاویہ کا ایک آدمی جس کا نام رفاعہ بن قیس یا قیس بن رفاعہ تھا، ایک بھاری جمعیت کے ساتھ قبیلۂ قیس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کیلئے آیا۔ یہ شخص قبیلہ  ٔ جشم کے معززین میں شمار ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپؐ نے مجھے اور دو اور لوگوں کو بلایا اور فرمایا کہ تم تینوں اس شخص کو جاکر دیکھو اور کوئی خبر لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سفر کے لئے ایک اونٹنی بھی عطا فرمائی جو انتہائی لاغر تھی، اسے کھڑا کرنے کے لئے بھی پیچھے سے سہارا لگانا پڑتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا تم لوگ اس اونٹنی پر پہنچ جاؤگے۔ ہمارے ساتھ ہمارے تیر اور تلواریں بھی تھیں، حکم کے مطابق ہم دشمن کی طرف روانہ ہوئے، غروب آفتاب کے وقت ہم منزل پر پہنچے، میں نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ میں اِدھر چھپ جاتا ہوں، تم دونوں اُدھر چھپ جاؤ، اور جب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگاؤں تم بھی نعرہ لگانا، منصوبے کے مطابق ہم لوگ چھپ گئے اور صبح کا انتظار کرنے لگے تاکہ کچھ روشنی پھیلے تو ہم کوئی کاروائی کریں۔
اتفاق ایسا ہوا کہ اس دن ان کا چرواہا جانور لے کر شام تک واپس نہیں پہنچا، انہیں خیال ہوا کہ شاید وہ پکڑا گیا ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہے، رفاعہ بن قیس نے ہتھیار سنبھالے اور چرواہے کی تحقیق حال کے لئے چلنے لگا، لوگوں نے کہا ہم بھی ساتھ چلتے ہیں، آپ تنہا ہرگز نہ جائیں، مگر اس نے سختی سے منع کردیا کہنے لگا خدا کی قسم میں تنہا جاؤں گا، تم میں سے کوئی بھی میرے ساتھ نہیںجائے گا۔ چنانچہ وہ شخص روانہ ہوا، جب وہ میرے قریب سے گزرا میں نے اس کے سینے پر تیر چلا دیا، جس کے نتیجے میں وہ آواز نکالے بغیر ڈھیر ہوگیا۔ پھر میں نے زور سے نعرۂ تکبیر کہا جواب میں میرے ساتھیوں نے بھی نعرہ لگایا، قبیلے میں سراسیمگی پھیل گئی، سب لوگ اپنے بیوی بچوں کو لے کر نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے ہلکا پھلکا سامان بھی ساتھ لے لیا اور جس کا جدھر سینگ سمایا ادھر چلا گیا، ہم لوگوں کو کافی مال غنیمت ملا، جسے لے کر ہم مدینے آگئے، ہمارے ساتھ رفاعہ کا سر بھی تھا، آپؐ نے مجھے مال غنیمت میں سے تیرہ اونٹ عنایت فرمائے جس سے میں مال دار ہوگیا۔ (سیرۃ ابن ہشام: ۲/۶۳۰) (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK