Inquilab Logo

قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کی راہ میں حائل دشواریاں

Updated: October 01, 2023, 1:15 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai

اِس وقت بیشتر اعلیٰ تعلیمی اداروں کی جو صورتحال ہے اس میں اس طرز کی سہولتیں در اصل نئی دشواریوں کی راہ کھولنے کے مترادف ثابت ہوسکتی ہیں۔

Efforts should be made to raise the standard of education before implementing the new education policy. Photo: INN
نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے پہلے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ تصویر:آئی این این

پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین ریزرویشن کے اس مثالی بل کو مرکزی حیثیت حاصل رہی جس کو عملی شکل دینے کیلئے ابھی کئی برسوں کا مرحلہ طے کرنا پڑے گا۔ اس بل کے علاوہ جس دوسرے موضوع کو میڈیا،عوام اورسیاستدانوں کی توجہ حاصل ہوئی وہ مسلمانوں سے انتہائی نفرت کا اظہار کرنے والے رمیش بدھوڑی کے وہ الفاظ تھے جنھیں اگر چہ ایوان کی کارروائی سے خارج کر دیا گیا لیکن عوام کے ذہنوں سے ان کے الفاظ اور تیور کو مٹانا آسان نہ ہوگا۔ ان سب کے علاوہ اس خصوصی اجلاس میں قومی پالیسی برائے تعلیم ۲۰۲۰ء سے متعلق بعض ایسے حقائق بھی پیش کئے گئے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک گیر سطح پر اس پالیسی کے کامیاب نفاذ میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان دشواریوں میں ایک بڑی دشواری جس کی جانب بی جے پی ایم پی وویک ٹھاکر کی سربراہی والی پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی نے خاص توجہ دلائی وہ اس پالیسی میں بیان کردہ تعلیمی نظام میں وہ لچک پیدا کرنا ہے جو طلبہ کو اس کی سہولت اور خواہش کے مطابق تعلیم فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو سکے۔ اس دشواری کا تعلق براہ راست اعلیٰ تعلیمی نظام سے ہے۔ اس نظام کے تحت اعلیٰ تعلیم کے موجودہ ڈھانچے کو اس حد تک طلبہ مرکوز بنانا ہے کہ اگر کوئی طالب علم گریجویشن کی ایک سال کی پڑھائی کے بعد پڑھائی چھوڑ دے تو اسے سرٹیفکٹ اگر یہ صورتحال دوسرے سال میں ہو تو ڈپلوما اور تیسرے سال میں گریجویشن کی ڈگری دی جائے گی ۔اس نظام میں مزید یہ سہولت بھی فراہم کی جائے گی کہ طالب علم دوبارہ پڑھائی شروع کرنے کیلئے اسی ادارے میں داخلہ لینے کو مجبور نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی دوسرے ادارے میں داخلہ لے سکتا ہے۔ اس کیلئے نئی تعلیمی پالیسی میں کریڈٹ ٹرانسفر کا نظم کیا گیا ہے۔ یہ دونوں مجوزہ دفعات بادی النظر میں بہت انقلابی اقدام کے طور پر نظر آتی ہیں اور یہ خوشگوار تاثر پیدا کرتی ہیں کہ طلبہ کو ان سہولیات سے خاطرخواہ فائدہ ہوگا۔
  قومی تعلیمی پالیسی کا گن گان کرنے والے بھی مسلسل یہی تاثر قائم کرنے میں کوشاں ہیں کہ اس پالیسی کے مکمل نفاذ سے ملک کا تعلیمی نظام اس قدر مفید اور کار آمد ہو جائے گا کہ طلبہ کو اپنے مستقبل کیلئے اس طرح فکرمند نہیں رہنا پڑے گا جیسا کہ آج وہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک مدت اس فکر میں مبتلا رہتے ہیں ۔اس سے انکار نہیں کہ قومی تعلیمی پالیسی اصول اور تصوراتی سطح پر ایسی پالیسی ہے جو تعلیم کو ہمہ گیر ، مربوط ، دلچسپ اور جاذب بناتی ہے لیکن جب عملی سطح پر اس کے نفاذ کی بات آتی ہے تو تعلیم سے وابستہ ان تصورات کی تعمیل میں کئی ایسے دشوار گزار مراحل پیش آ سکتے ہیں جو اس کی کامیابی کو مشکوک بناتے ہیں ۔ انہی ممکنہ دشواریوں میں ایک بڑی دشواری اعلیٰ تعلیمی سطح پر مختلف برسوں کی پڑھائی میں طلبہ کی خواہش اور سہولت کے مطابق تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھنے یا پڑھائی ترک کر دینے پر اسناد تفویض کرنے نیز اپنے منتخب کردہ تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کی سہولت فراہم کرنے سے عبارت ہے جس کیلئے قومی تعلیمی پالیسی کے پالیسی ڈاکیومنٹ میں Multiple Entry Multiple Exit کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس مجوزہ سہولت کے متعلق پارلیمانی اسٹینڈنگ کمینی نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا ہے کہ اسے روبہ عمل لانے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ ابھی حکومت کو اس پر مزید غور کرنا چاہئے اور اس عمل میں ان تمام کی شراکت کو یقینی بنانا چاہئے جو تعلیمی نظام سے کسی نہ کسی صورت میں وابستہ ہوتے ہیں ۔اس کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اعلیٰ تعلیمی ادارے اس نظم کو اختیار کرتے ہیں تو اس سے طلبہ اور اساتذہ کے تناسب پر اثر پڑے گا اور یہ پیش گوئی کرنا بھی مشکل ہوگا کہ کتنے طلبہ درمیان سے پڑھائی چھوڑدیں گے اور کتنے طلبہ تعلیمی سال کے درمیانی وقفہ میں داخلہ لیں گے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف مغرب کی نقالی کے طور پر کسی نظام کو تبدیل کرنا مناسب نہیں ہے ۔رپورٹ کا یہ فقرہ یہ ثابت کرتا ہے کہ جس طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں مغرب کی نقالی اجتماعی نفسیات کا جزو ہے اسی طرح تعلیمی نظام کی مقتدر شخصیات بھی اسی نفسیات کا شکار ہیں۔
اگر اعلیٰ تعلیمی نظام میں کوئی کار آمد اور نتیجہ خیز پہل مقصود ہے تو سب سے پہلے ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس معیار پر لانا ہوگا جہاں اس طرز کے التزام سے خاطرخواہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔فی الوقت ملک کے بیشتر اعلیٰ تعلیمی اداروں کی جو صورتحال ہے اس میں اس طرز کی مبینہ سہولتیں در حقیقت نئی دشواریوں کی راہ کھولنے کے مترادف ثابت ہو سکتی ہیں ۔ملک کی چند ایک یونیورسٹیوں کے علاوہ کسی بھی یونیورسٹی میں وہ وسائل موجود نہیں ہیں جو اس طرز کے التزام کو عملی سطح پر کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیجا سیاسی مداخلت کے سبب بیشتر اعلیٰ تعلیمی ادارے ناکارہ افراد کا مرکز بنتی جا رہی ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں انتظامی امور سے وابستہ مقتدر شخصیات نے اس پالیسی کے نفاذ میں جس عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اس پالیسی کے نفاذ کے سلسلے میں اب بھی بعض یونیورسٹیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہوڑ میں لگی ہیں ۔ اس ہوڑ میں اس پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا کہ پالیسی کے نفاذ میں جو وسائل اور افرادی قوت درکار ہے اس کا معقول انتظام کئے بغیر پالیسی کی کامیابی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس صورتحال کا خمیازہ طلبہ ہی کو بیشتر بھگتنا پڑتا ہے۔ بعض ریاستوں میں اعلیٰ سیاسی عہدوں پر فائز شخصیات کی مداخلت اعلیٰ تعلیم میں اس حد تک ہو گئی ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کو درکنار کر صرف اپنی واہ واہ کے خبط کا نزلہ پورے نظام پر گرانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے۔ایسی صورت میں یہ بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس پالیسی کے متعدد نکات ابھی غور و فکر کے مرحلے میں ہیں ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے؟
 نظام تعلیم میں تبدیلی کوئی معیوب عمل نہیں ہے لیکن اس عمل سے گزرتے وقت ان حقائق کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو اس تبدیلی کو کارگر بنانے میں رخنہ پیدا کر سکتے ہیں ۔ جب تک اس پہلو پر غور کر کے ان رکاوٹوں کو ختم نہ کر لیا جائے تب تک صرف جزوی طور پر پالیسی کی تعمیل اس سے وابستہ ان فائدوں کو بروئے کارلانے سے قاصر رہے گی جن فائدوں کے حوالے سے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے دعوے کئے جارہے ہیں ۔ اب تک اس پالیسی کے متعلق جو تاثرات سامنے آئے ہیں ان میں عموماً یہی کہا گیا ہے کہ اس پالیسی کے ذریعہ تعلیمی نظام میں جن اصلاحات کو ناگزیر بتایا جارہا ہے وہ اصلاحات تصوراتی سطح پر بہت سود مند نظر آتی ہیں لیکن عملی سطح پر اس سے بڑا ممکنہ نقصان یہ ہوگا کہ طلبہ حصول تعلیم کے بعد دانشمندی کی اس سطح پر پہنچنے سے قاصر ہوں گے جو انھیں نئے فکری جہات سے روشناس کرا سکے۔ اس پالیسی کے تحت جس طرز کی تعلیم کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ طالب علم کو ایک ایسا کاریگر تو بنا سکتی ہے جو تکنیکی اور بعض پیشہ ورانہ مہارتوں میں کسی حد تک درک بھی حاصل کر لے لیکن فکر و شعور کے معاملے میں اس کی صلاحیت اوسط درجے سے زیاد ہ نہیں ہوگی۔ 
 یہ صورتحال تعلیم کے اس بنیادی مقصد کے عین برعکس ہے جس میں تعلیم کو شخصیت کی ہمہ گیر ترقی کا موثر وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پالیسی کے نفاذ کیلئے جن وسائل اور جس مقدار میں افرادی قوت کی ضرورت کو لازمی بتایا گیا ہے اس کا بھی خاطرخواہ بندوبست ہونا چاہئے۔ ان پہلوؤں پر غور کئے بغیر جزوی طور پر پالیسی کے نفاذ سے طلبہ کو وہ فائدہ نہیں مل سکتا جس فائدے کے پیش نظر تعلیمی نظام میں اس پالیسی کو متعارف کیا گیا ہے۔بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ وویک ٹھاکر کی سربراہی والی اسٹینڈنگ کمیٹی نے پالیسی کے جس پہلو کو مزید غور و فکر کو ضروری بتایا گیا ہے اسی طرح مزید کئی نکات اس پالیسی میں ایسے ہیں جنھیں رو بہ عمل لانے سے قبل ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ غور و فکر کے اس عمل میں عجلت پسندی سے کا غذی طور پر پالیسی کانفاذ تو ممکن ہو جائے گا لیکن اس نفاذ سے بہرحال طلبہ کو فائدہ بہت کم پہنچے گا ۔ مزید یہ کہ اس طرز عمل سے مجموعی تعلیمی نظام میں ایسی پیچیدگی پیدا ہونے کا خدشہ قوی ہو جائے گا جو پالیسی کو ناکام بنا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK