دین ایک بہت وسیع لفظ ہے، اس سے مراد زندگی گزارنے کا طریقہ، دنیا میں رہنے کا سلیقہ اور معاش و معاد اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ہر شعبہ میں انبیائے کرام کی لائی ہوئی ہدایات و تعلیمات کو دل و جان سے قبول کرنا اور اس پر مکمل طور پر عمل کرنا ہے۔
EPAPER
Updated: December 05, 2025, 4:00 PM IST | Maulana Syed Muhammad Al-Hasani | Mumbai
دین ایک بہت وسیع لفظ ہے، اس سے مراد زندگی گزارنے کا طریقہ، دنیا میں رہنے کا سلیقہ اور معاش و معاد اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ہر شعبہ میں انبیائے کرام کی لائی ہوئی ہدایات و تعلیمات کو دل و جان سے قبول کرنا اور اس پر مکمل طور پر عمل کرنا ہے۔
دین ایک بہت وسیع لفظ ہے، اس سے مراد زندگی گزارنے کا طریقہ، دنیا میں رہنے کا سلیقہ اور معاش و معاد اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ہر شعبہ میں انبیائے کرام کی لائی ہوئی ہدایات و تعلیمات کو دل و جان سے قبول کرنا اور اس پر مکمل طور پر عمل کرنا ہے۔
دین کا یہ وہ تصور ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں، ہر مکتب فکر اورہر ادارہ اور ہر جماعت اور ہر طبقہ کے لوگ اس کے قائل ہیں، اس کے باوجود مسلمانوں کی عملی زندگی میں ہمیں آج بڑی تقسیم اور تفریق نظرآتی ہے، انہوں نے زندگی کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا ہے۔ کچھ شعبوں کے متعلق انہوں نے طے کر دیا ہے کہ یہ دینی شعبے ہیں اور کچھ کے متعلق یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ یہ خالص دین کے دائرہ میں نہیں آتے، مثلاً مسجد کے پہلو میں اس سے بڑی مسجد تعمیر کرنا، حج پر حج کرتے چلے جانا، بعض اوقات عقیقہ ، قربانی اور شادی پر پانی کی طرح بے دردی سے روپیہ بہا دینا تو ان کے نزدیک دین ہے، لیکن دین کے احیاء ، دین کی حفاظت و نصرت اور دین کی بقا و تحفظ کے لئے اگر کوئی اجتماعی کام کیا جائے تو وہ اس میں اپنا وقت اپنی محنت اور اپنا روپیہ صرف کرنا تقریباً بے سود سمجھتے ہیں، دینی مدارس اور دینی ادارے تبلیغی اور اشاعتی پروگرام کی بات تو ان کی سمجھ میںآ جاتی ہے، بمشکل ہی سہی، لیکن اگر کوئی ان کے سامنے مسلمانوں کی تنظیم اور ان کے سیاسی استحکام کی بات کرنے لگے اور اس کے طریقہ اور و سائل ان کے سامنے رکھے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ باتیں دین کے دائرہ میں نہیں آتیں اور ان کا دل و دماغ اس کو قبول نہیں کرتا کہ وہ اپنا تعاون، وقت اور کوشش اور روپیہ پیسہ اس پر اس مد میں لگائیں۔ یہ اُن کے نزدیک اپنے وسائل کو ضائع کرنا ہے۔
دین کا صحیح تصور، دوسرے الفاظ میں صحیح دینی مزاج اس کے مقابلہ میں یہ ہے کہ دین کی جو ضرورت اس وقت پیش آئے، اس کو پورا کیا جائے اور اس میں افتراق و انتشار کے بجائے اس اجتماعیت، عملی وحدت ،نظم و ضبط اور اطاعت کا مظاہرہ کیا جائے جو صحابہ کرامؓ کا امتیاز اور سچے مسلمانوں کا طریقہ ہے اور جس کو سعد بن معاذ ؓنے حضورؐ کے سامنے اس جملہ میں ادا کیا تھا:
’’خدا کی قسم اگر آپؐ ہم کو برک غمدان (ایک دور کا مقام ) تک بھی لے جائیں گے، تو ہم آپؐ کے ساتھ ہی چلیں گے اور خدا کی قسم! اگر ہم کو سمندر میں بھی لے جائیں گے تو ہم آپؐ کے ساتھ اس میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘
مسجد سے بڑھ کر مقدس اور حج سے زیادہ بابرکت چیز اور کیا ہو سکتی ہے، لیکن اگر کوئی شخص مسجد ہوتے ہوئے بلاضرورت ایک اور مسجد تعمیر کر دے یا سارے فرائض ترک کر کے اپنی ساری دولت حج پر خرچ کرنے لگے تو اس کو دینی کام نہ کہا جائے گا، خواہ اس کی صورت سو فیصد دینی ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دین ایک کل ہے اور نظام پر قائم ہے۔ ہمارے بچے دین سے بے بہرہ ہوتے چلے جائیں ، ان کی دینی شخصیت کو ختم کرنے اور مسخ کرنے اور ان کو نا کارہ، بے ضرر، مفلوج ، خوشامدی اور بے ضمیر بنانے کی بھر پور سازشیں ہر طرف کی جا رہی ہوں، تو اس وقت اپنی دولت کا مظاہرہ کرنے سے نہ ہمارے دین کا بھلا ہوگا نہ دنیا کا۔ بلا ضرورت شاندار مسجدیں بنوانا اور فرائض چھوڑ کر نفلی حج کرنا عین دینی جذبہ اور ثواب کی نیت کے ساتھ بھی غلط ہے، چہ جائیکہ وہ رویہ جو ہم نے اپنا رکھا ہے۔ کیا یہی وہ قرض حسنہ ہے، جس کا خدا نے قرآن مجید میں مسلمانوں سے بار بار مطالبہ کیا ہے؟ دینی اور ملی اور سیاسی و اجتماعی امور کے ساتھ جو ہمارا معاملہ ہے اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم (نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ کو رشوت دے کر اپنا کام نکالنا چاہتے ہیں، یہ رشوت نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک مسجد بنوا دی، بس سارے اگلے پچھلے گناہ معاف، ایک مدرسہ کھول دیا اور ایک مولوی صاحب کو کہیں سے پکڑ کر اس میں رکھ دیا، بس فرصت، کسی مدرسہ کو دو چار روپیہ دے دیے، وہ بھی مدرسہ کے سفیر یا محصل کو بہت پریشان کرنے ، دوڑانے اور بعض وقت ذلیل کرنے کے بعد، اب نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے، نہ سوچنے سمجھنے کی، نہ مسلمانوں کے کسی دینی اور تعلیمی مسئلہ کو حل کرنے کی۔
لیکن ٹیکس سے بچنے، لائسنس اور پرمٹ حاصل کرنے اور کاروبار کی توسیع میں سہولتوں کی فراہمی اور سازگار فضا کے حصول کے لئے اور جن لوگوں سے مستقبل بعید میں بھی کسی رعایت، سہولت یا مالی فائدہ کی توقع ہے، ان کو خوش رکھنے کیلئے ہماری جیب بھی حاضر ہے اور تجوری بھی، نگاہیں بھی فرش راہ ہیں اور دل بھی۔
وقت اور حالات بدلتے رہتے ہیں، لیکن دین کے معاملہ میں اور اپنی اجتماعی اور ملی مسائل پر قابو پانے کے لئے ہم کبھی یہ سوچنے تک کی زحمت نہیں کرتے کہ ملت کو اس وقت کسی چیز کی ضرورت ہے، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری کوشش، ہمارا روپیہ اور ہماری عقل و ذہانت اور قوت و صلاحیت بے جگہ صرف اور ضائع ہورہی ہو یا محض سمت ٹھیک نہ ہونے اورضرورت کا صحیح احساس نہ کرنے کی وجہ سے اُلٹا نقصان پہنچا رہی ہو؟
اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہم اگر سردی سے بچنے کیلئے شام کو لحاف یا کمبل اوڑھ لیتے ہیں توصبح کو فوراً اتار پھینکتے ہیں، اس لئے کہ حالات اور موسم کا یہی تقاضا ہوتا ہے، لیکن اپنی سیاسی اور اجتماعی زندگی میں ہم نے ایک ایسا کمبل اوڑھ رکھا ہے جو نہ ہمیں چھوڑتا نہ ہم اسے چھوڑ پاتے ہیں ۔ رات کی سردی ہو یا دو پہر کی گرمی ، ہم اس لبادہ کو اتارنے کی ضرورت نہیں سمجھتے اور اگر کوئی اس کی دعوت دیتا ہے تو برا مانتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان مسائل میں بھی جو روز روشن کی طرح صاف اور واضح ہیں اور ان کھلی ہوئی حقیقتوں میں بھی جن میں کسی سچے اور مخلص انسان کو کوئی شک یا اختلاف نہ ہونا چاہئے، یہ کمبل یا لبادہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ تا یا ہم اس کو نہیں چھوڑتے، ہم دین کی کسی سند کے بغیر اپنے بنائے اور تراشے ہوئے خانوں میں خود ہی قید ہیں اور ان خانوں سے باہر اگر کسی چیز کی دعوت ہمیں دی جاتی ہے، کوئی آواز ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہے، تو وہ ہمیں بہت نامانوس، اجنبی اور بعض وقت مشکوک اور مشتبہ اور کبھی کبھی مضر اور مہلک معلوم ہوتی ہے، ہم میں سے جو اپنے طلسم میں جتنا گرفتار ہے، حالات کے ادراک ، بروقت اور صحیح فیصلہ کی صلاحیت اور اخلاقی جرأت سے اسی قدر دور اور محروم ہے۔
ہم نے شاید اپنے لئے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم دین کو اپنا تابع بنا رکھیں گے اور اس کی آواز پراسی وقت تک لبیک کہیں گے، جس وقت تک وہ ہمارے مزاج کا ساتھ دے گا۔ شاید ہم نے اپنے لئے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم کو اس طرز زندگی پر ہمیشہ قائم رہنا ہے، جو گزشتہ برسوں سے مسلمانوں کا شعار ہے، یعنی بد سے بدتر حالت اور ہر نوع کی ذلت کے ساتھ مستقل مفاہمت یا ’’ بقائے باہم‘‘ تاکہ ہماری روزی، ہماری جیب، ہمارا معدہ اور شکم، ہمارا بزنس اور کاروبار اور ہمارے شخصی یا زیادہ سے زیادہ گروہی مفادات محفوظ رہیں، لیکن کیا دین کو اپنا تابع بنا کر ہم خدا کو راضی رکھنے کی توقع رکھتے ہیں اور کیا کاروبار اور معیار زندگی کی حفاظت اور ضمانت کیلئے یہ طرز زندگی ہماری کچھ بھی مدد کر سکے گا، جو قرآن مجید کی رو سے قابل مذمت اور دنیا والوں کی نظر میں بھی حقیر اور بے قیمت ہے؟