• Fri, 05 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

وطن سے محبت اور وفاداری اسلامی تعلیم کاجز ہے اور ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے

Updated: December 05, 2025, 4:04 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

(۲۱؍تا ۲۳؍نومبر کو المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں ’’بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا حصہ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سمینار میں پڑھا گیا کلیدی خطبہ)

Muslims have always considered this country as their motherland and loved it like a mother, devoting their best talents to its construction and development. Picture: INN
مسلمانوں نے ہمیشہ اس ملک کو اپنا مادر وطن سمجھا اور ایک ماں کی طرح اس سے محبت کی ، اس کی تعمیر وترقی میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں۔ تصویر:آئی این این

اسلام نے ہمیں جن چیزوں کی محبت کا سبق دیا ہے،  ان میں سے ایک اپنا وطن بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب تک مکہ مکرمہ میں رہے، ٹوٹ کر اپنے شہر سے محبت فرمائی ، جب آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تومجھے بہت عزیز تھا، میں تجھ کو چھوڑنے کا روادار نہیں تھا؛ مگر تیرے باشندوں نے مجھے یہاں رہنے نہیں دیا۔‘‘ (سنن ترمذی : حدیث نمبر۳۹۲۵،ابن ماجہ:۳۱۰۸)
جب آپ ﷺمدینہ کے قریب پہنچے تواس دو راہے پر جہاں سے مکہ کا راستہ نکلتا تھا،  آپؐنے حسرت بھری نگاہ ڈالی، اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کو تسلی دی اور فرمایا: ’’جلد ہی آپؐ  کا پروردگار آپ کو آپ کے و طن کی طرف لوٹائے گا ۔‘‘ (القصص : ۸۵ ) چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ فتح مکہ کی شکل میں پورا ہوا۔ آپ ؐکے رفقاء عالی مقام کا مکہ مکرمہ سے محبت کا حال یہ تھاکہ مدینہ میں ان کی طبیعت خراب ہوگئی، وہ بیماری کی شدت میں مکہ کی ایک ایک چیز کو یاد کرتے تھے، یہاں تک کہ مکہ کے پہاڑوں کا،  گھاس اور جڑی بوٹیوں کا بھی ذکر کرتے تھے  (صحیح بخاری، حدیث نمبر:۱۷۹۰) لیکن اس وجہ سے کوئی مدینہ چھوڑ کر نہیں گیا ۔
پھر جب آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کو اپنے قیام کا شرف بخشا  تو آپؐ نے اس نئے وطن سے بھی بھرپور محبت فرمائی، جب آپؐ کہیں سفر پر جاتے اور واپس ہوتے ہوئے اُحد پہاڑ پر نظر پڑتی توآپؐ کا چہرہ ٔ انور کھل اُٹھتا اور شدت اشتیاق میں آپؐ کی سواری کی رفتار تیز ہوجاتی ۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:۱۷۰۸) یہ مسلمانوں کیلئے ایک سبق تھا کہ وہ جہاں جائیں، جہاں قیام کریں، جس خطہ کو اپنا مسکن بنائیں اور جن فضائوں میں اپنی زندگی گزاریں، ان سے انس اورمحبت ہونی چاہئے؛ اس لئے  مسلمان دنیا کے جس خطہ میں گئے اور جہاں بس گئے، اس کو اپنے محبوب وطن کی نظرسے دیکھا اور دل کی گہرائیوں سے اس سے محبت کی۔
بھارت خود اس کی ایک واضح مثال ہے ، یہاں مشہور فاتح سکندر بھی آیا، یوروپ کی مختلف قومیں آئیں، انگریز بھی آئے، پرتگالی بھی آئے؛  مگر انہوں نے اپنا طریقہ یہ رکھا کہ یہاں کی دولت سمیٹتے، اورلے کر اپنے ملک چلے جاتے، مگر،  مسلمان جب اس ملک میں آئے تو یہیں کے ہوکر رہ گئے ، انہوں نے یہیں جینے اورمرنے کا فیصلہ کیا اور اس ملک کے دکھ اورسکھ میں برابر کے شریک رہے ، اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لیا اور اس کے لیے عظیم تر قربانیاں دیں ۔
اِس وقت اس سیمینار کا اصل محرک یہی ہے کہ دنیا پر یہ بات واضح کردی جائے کہ ہم اس نبیؐ کی اُمت ہیں، جنہوں نے اپنے وطن سے محبت کرنا سکھایا ہے اور جس نے ہمیشہ وطن عزیز کی خدمت کی ہے، اوراس کا نام ہمیشہ اونچاکرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ملک میں اسلام دوطرف سے آیاہے۔ ایک طرف مالابار کے ساحل سے، یہ عرب تاجروں کا قافلہ تھا جو جنوبی ہند کے ساحلوں سے لے کر سری لنکا تک پھیل گئے تھے ۔ بظاہر اس کا مقصد تجارت اور خریدوفروخت تھی؛ مگر انہوں نے دل کی غذا اوردوابھی لوگوں میں تقسیم کی، لوگوں نے ان کونفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا؛ بلکہ ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر محبت کی نگاہوں سے ان کا استقبال کیا ۔ یہاں تک کہ ظلم وجور اورنابرابری کی جس فضا میں یہاں کے لوگ زندگی گزارنے پرمجبور تھے ، اور ذات پات کا جو نظام (اب بھی ہے مگر اُس وقت جو شدت تھی) قائم تھا، س میں ان کو یہ فرشتۂ رحمت معلوم ہوئے ، جنوبی ہند کے علاقوں میں اونچی ذات کے لوگ  نیچی ذات والے لوگوں کو بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، یہاں تک کہ اگرنیچی ذات کے کسی آدمی کا ہاتھ اونچی ذات کے کسی آدمی کو لگ گیا، یااس کا سایہ اس پر پڑگیا توجب تک اونچی ذات کا آدمی غسل کرکے اپنا کپڑا بدل نہیں لیتا، اپنے آپ کو ناپاک سمجھتا اور یہ ایک ایسا جرم تھا کہ حکومت کی جانب سے اس پر سزا دی جاتی۔ نچلی ذات ’’پولپو‘‘ کہلاتی تھی، جب یہ لوگ  راستہ سے گزرتے تو ’پولو ، پولو‘ کی آواز نکالتے ہوئے گزرتے تاکہ اگر اونچی ذات کا کوئی شخص آرہاہو تو وہ متنبہ  ہوجائے اور اس پر اس کا سایہ نہ پڑے۔ (آئینۂ تاریخ جلد : ۱) ان عرب تاجروں کی آمد سے جنوبی ہند کے بہت سے قبائل مسلمان ہوگئے اور موجودہ سری لنکا تک اسلام پھیل گیا ۔
ہندوستان میں اسلام کی آمد کا دوسرا راستہ مغربی ہند کی ریاست سندھ ہے۔ ولید بن عبدالملک (۱۵-۷۰۵ء) کے زمانے میں فارس تک مسلمان فوجیں پہنچ چکی تھیں، عراق کے حاکم حجاج بن یوسف (متوفی:۹۵ھ) نے محمد بن قاسم کو ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں سندھ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا، اور بڑی آسانی سے سندھ کا علاقہ فتح ہوگیا، محمد بن قاسم نے مقامی سرداروں، امراء،  راجائوں اور برہمنوں کی بڑی عزت افزائی کی۔
یہاں بھی صورت حال یہ تھی کہ برہمن دوسرے لوگوں کے ساتھ بڑی زیادتی کرتے تھے،  راجا داہر جس سے محمد بن قاسم کا مقابلہ ہوا ، اس کا حال یہ تھاکہ اس کی سلطنت میں عام رعایا کو گھوڑے پر سواری کی اجازت نہیں تھی، نچلی ذات تصور کئے جانے والے قبائل کی عورتوں کو اپنا سینہ  ڈھانپنے کے اہتمام کی اجازت نہیں تھی، اگر وہ ایسا کرتیں تو ان کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا ( بجوالہ: کاسٹ اینڈ فیمیل بوڈی ان ٹراونکور: اے ہسٹوریکل ریڈنگ) جور و جفا اور ظالمانہ نابرابری کے اس ماحول میں محمد بن قاسم کے کریمانہ سلوک اورعفو عام نے سندھ کی زمین کے ساتھ ساتھ اہل سندھ کے قلوب کو بھی فتح کرلیا، یہاں تک کہ بعض مورخین کے مطابق جب محمد بن قاسم کی وفات ہوئی تو اس خطہ کے لوگ  غمزدہ ہوئے اور بطور یادگار اس کا مجسمہ بنا کر نصب کیا ۔ (اسلامی ہند کی عظمت رفتہ ، ص :۱۲۰ ، قاضی اطہر مبارکپوری)
مسلمانوں نے ہمیشہ اس ملک کو مادر وطن سمجھا اور ایک ماں کی طرح اس سے محبت کی، اس کی تعمیر و ترقی میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں ، ان حکمرانوں کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہوگاکہ یہ سب کے سب بہت ہی خداتر س اور منصف مزاج حکمراں تھے ، ان میں دونوں قسم کے لوگ تھے ؛ لیکن عام طورپر اپنی رعایا کے ساتھ ان کا سلوک بہت اچھا تھا، انہوں نے اس ملک کو تاج محل کا حسن، قطب مینار کی بلندی، دہلی کی جامع مسجد اور حیدرآباد کی کی مکہ مسجد کا تقدس،  شالیمار اور نشاط جیسے خوبصورت باغات، چارمینار اور فتح پور سیکری جیسی یادگار نشانیاں عطا کیں، اور آج سے صدیوں پہلے پندرہ سو کوس طویل، کشادہ اور مضبوط سڑک بنائی جس نے موجودہ بنگلہ دیش کے سنارگائوں سے لے کر افغانستان تک کا مرحلۂ سفر آسان کردیا، ہزاروں سرائے اور لنگر خانے بنائے، بے شمار اسپتال اور تعلیم گاہوں کو وجود بخشا اور خدمت خلق کے اتنے غیر معمولی کام کیے، جن کی مثال دنیا کے کسی خطہ میں ملنی مشکل ہے۔  انہوں نے زرعی ترقی پر بھرپور توجہ دی اور وسط ایشیا میں جو بہترین پھل اور پھول ہوا کرتے تھے،  انہیں ہندوستان لے آئے اور پروان چڑھایا، انہوں نے علم کی ترقی کے لئے بڑے بڑے کتب خانے تعمیر کیے، آج کل تو حکومتیںبہت پہلے سے بنے بنائے اوربسے بسائے شہروں کانام بدل کر خود اپنے ہاتھوں اپنی پیٹھ ٹھوکتی ہیں؛ لیکن مسلم حکمرانوں نے بنگال کی مشرقی حدود سے لے کر موجودہ افغانستان تک پچاسوں شہر تعمیر کیے۔ بہت اہم کتاب ’’ہندوستان کے مسلم عہد کے تمدنی کارنامے ‘‘ میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ۔
انہوںنے اپنے سیاسی حریفوں کو تو ضرور زک پہنچائی، جو ہر طاقتور فرماں روا کا طریقہ ہوتا ہے اور جو آج بھی ہے؛ مگر انہوں نےکبھی اپنی رعایاکے ساتھ سوائے اِکا دُکا واقعات کے ظلم و زیادتی کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اوریہ واقعات بھی بمقابلہ دوسرے ظالم حکمرانوں کے آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ انہوں نے ملک کی حفاظت اور اس کو غلامی کے داغ سے بچانے کے لئے اپنی جان و مال اور گھر بار کی قربانی دی، پہلی جنگ آزادی ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ نے لڑی، پھر ۱۷۹۹ء میں سلطان ٹیپو شہید نے جنگ آزادی کا علم اُٹھایا ، پھر ۱۸۵۷ء میں ہندوستان کی تمام قوموں کی شمولیت کے ساتھ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں جنگ لڑی گئی، آخر ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا،  جنگ آزادی میں ملک کی قیادت کرنے والی تنظیم کانگریس پارٹی کے متعدد صدور مسلمان تھے ۔
مسلمانوں کو منظم طورپر ملازمت سے محروم کرنے اور تجارت سے دُور رکھنے کی کوشش کے باوجود ملک کی معاشی اور صنعتی ترقی میں مسلمانوں نے جو کردار ادا کیا  وہ بہت ہی اہم ہے۔ مسلمانوں کی صف میں ہمیں عظیم پریم جی (مالک وپرو کمپنی)، میڈیسن کی مشہور کمپنی سپلا کے مالک یوسف خواجہ، روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا کرنے والے لولو گروپ کے مالک ایم اے یوسف علی، اسپتال اور ریسرچ ادارے قائم کرنے والی ممتاز شخصیت ڈاکٹر حبیب کھورا کے نام ملتے ہیں۔ ان ہی میں ایس عبدالرحمٰن یونیورسٹی کے بانی عبدالرحمٰن کا نام ملتا ہے اور نہ جانے کتنے تجار اور صنعت کار ہیں جو اس ملک کی معاشی ترقی کی سعی میں لگے ہوئے ہیں۔ آج  ہم بجاطورپر آکاش،  ترشول اور ناگ جیسے میزائلوں پر فخر کرتے ہیں  اوران کی وجہ سے ہمیں اپنے تحفظ کا احساس ہوتا ہے، اس کو معرض وجود میں لانے والا بھی وطن عزیز کا ایک مسلمان فرزند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ہی تھا۔ سائنس کے مختلف میدانوں میں مسلمانوں نے جو خدمات انجام دی ہیں ، وہ اس کے علاوہ ہیں  
دوسری اہم تبدیلی جو مسلمانوں کے اس ملک میں آنے سے ہوئی، وہ خواتین کے حقوق کی بازیافت ہے، اگرچہ ہندو مذہب میں مختلف دیویوں کانام ملتاہے : سرسوتی ، دیوی ، لکشمی دیوی ، درگادیوی وغیرہ ؛ لیکن ان کو بت کدے تک محدود رکھاگیا ۔ عورت پر تعلیم کا دروازہ بھی بند تھا ، اس کو قربانی اور عبادت کی اجازت نہیں تھی ، اگروہ بدقسمتی سے بیوہ ہوگئی تو منو سمرتی کا حکم تھا کہ وہ دوسرے شوہر کا نام بھی نہ لے ‘‘ (منوسمرتی ، باب: ۵۷؍۵) ایک نہایت وحشیانہ طریقہ جو اس ملک میں رائج تھا ، وہ’’ستی‘‘ کا  تھا کہ شوہر کے انتقال کے بعد اس کی لاش کے ساتھ اس کی بیوی کو نذرآتش کردیا جاتا تھا۔ مغلوں نے ہندئووں کے رسم و رواج میں دخل دیئے بغیر اس کو روکنے کی بالواسطہ کوشش کی اور فرمان جاری کیا کہ کوئی عورت صوبیدار کی اجازت کے بغیر ستی نہیں کرسکتی، اور صوبیدار عورت کو اس کی اجازت نہیں دیتا تھا ۔

مسلمانوں سے پہلے ہندوستان میں بڑے پیمانہ پر توہم پرستی کا تصور ملتاہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کا اثر آج بھی موجود ہے۔ رشتہ کا انتخاب ہو، یاشادی کی تاریخ مقرر کرنی ہو، یا کاروبار شروع کرنا ہو، ہرجگہ فال نکالنا، پجاریوں اور پنڈتوں سے فال نکلوالنا آج بھی عام بات ہے۔ اسلام کے عقیدۂ توحید کے تصور نے ’’توہم پرستی‘‘ کی زنجیر کو ٹکرے ٹکرے کردیا، اور لولوگوں کے سامنے ان اوہام و خرافات کے خلاف سائنسی سوچ کا پختہ نمونہ پیش کیا ۔
اگر ملک کے موجودہ دستور کا تقابل قرآنی تعلیمات سے کیا جائے تو واضح طورپر اس میں قرآن کی جھلک نظرآئے گی  اوریہ بات بھی محسوس ہوگی کہ مختلف ایسی دفعات رکھی گئی ہیں ، جن سے منوسمرتی اور قدیم ہندو تصورات کا رد ہوتا ہے ۔
افسوس کہ اس وقت سنگھ پریوار کے لوگ گزشتہ صدیوں میں اس ملک میں انجام دی جانے والی خدمات پر سیاہی پھیرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو ظالم اور ستمگر ثابت کرنے کی مہم چلا رہے ہیں ، جھوٹی تاریخ مرتب کی جارہی ہے، میڈیا کو جھوٹ پھیلانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے،  نصاب تعلیم سے پورے مسلم دور کو حذف کر دیا گیا ہے، توہمات کو قدیم سائنسی تحقیق کا نام دیا جا رہا  ہے۔ ان حالات کے پس منظر میں المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد نے جس کامقصد تعلیم اور تحقیق کو فروغ دینا ہے ، اس سیمینار کا فیصلہ کیا ، اس کامقصد کسی گروہ کو نیچا دکھانا نہیں ہے بلکہ اس ملک سے متعلق مسلمانوں کی خدمات کو مثبت انداز میں پیش کرنا اور اُس جھوٹ کا پردہ فاش کرنا ہے جو آر ایس ایس کی طرف سے پھیلایا جارہا ہے ، بحمداللہ یہاں اہل علم کا جو مجمع ہے، اُمید ہے کہ ان کی علمی کاوشیں اس مقصد کو پورا کریں گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK