گزشتہ نو ساڑھے نو سال کے دوران چند اصطلاحات کو کافی شہرت ملی ہے۔ مثال کے طور پر مشہور صحافی رویش کمار کی وضع کردہ ’’گودی میڈیا‘‘۔ یہ اصطلاح نہ صرف رائج ہوئی بلکہ زبان زد خاص و عام ہوگئی۔
EPAPER
Updated: September 18, 2023, 1:19 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
گزشتہ نو ساڑھے نو سال کے دوران چند اصطلاحات کو کافی شہرت ملی ہے۔ مثال کے طور پر مشہور صحافی رویش کمار کی وضع کردہ ’’گودی میڈیا‘‘۔ یہ اصطلاح نہ صرف رائج ہوئی بلکہ زبان زد خاص و عام ہوگئی۔
گزشتہ نو ساڑھے نو سال کے دوران چند اصطلاحات کو کافی شہرت ملی ہے۔ مثال کے طور پر مشہور صحافی رویش کمار کی وضع کردہ ’’گودی میڈیا‘‘۔ یہ اصطلاح نہ صرف رائج ہوئی بلکہ زبان زد خاص و عام ہوگئی۔ حالانکہ اسے ’’چرن چمبک میڈیا‘‘ اور ’’نت مستک میڈیا‘‘ اور ’’درباری میڈیا‘‘ بھی کہا گیا مگر رویش نے عوامی زبان کا استعمال کرتے ہوئے ’گودی میڈیا‘ کہہ کر ذرائع ابلاغ کے حکومت نواز حلقوں کی جس طرح عزت افزائی کی، اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
رویش کی صحافت اور اینکرنگ کی زیریں لہروں میں طنز کی جو کاٹ ہے وہ خبریہ چینلوں اور یو ٹیوب چینلوں کے کسی بھی صحافی کے ہاں نہیں ہے۔ اسی لئے رویش موجودہ عہد کی برقی صحافت کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔ ان کی صحافت اور شخصیت پر حال ہی میں ایک دستاویزی فلم منظر عام پر آئی ہے۔ یوٹیوب پر موجود یہ فلم، جس کا دورانیہ ایک گھنٹہ بائیس منٹ ہے، اپنی طوالت کے باوجود مقبول ہورہی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سخت مخالف حالات اور ماحول میں بھی رویش نے اپنی صحافت کو عوام کیلئے کارآمد بنانے اور نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی جدوجہد میں غیرمعمولی جرأت اور حوصلے سے کام لیا۔ فلم دیکھ کر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب دور دور تک برقی ذرائع ابلاغ کے بیشتر صحافی اپنا فرض منصبی بھول کر حکومت نوازی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے کوشاں تھے اور ایک خاص فرقہ کو تختہ مشق بنانے، کانگریس کو رسوا اور بدنام کرنے، اپوزیشن کو بیکار ِمحض ثابت کرنے اور اصل موضوعات سے بھٹکانے کی مہم کا حصہ تھے تب برقی صحافت میں رویش تنہا بڑے اینکر تھے جنہوں نے رکنا پسند کیا نہ جھکنا گوارا کیا۔ یہ گمان تو پہلے سے تھا کہ رویش کو بہت دھمکیاں ملتی ہونگی مگر فلم دیکھ کر اندازہ ہوا کہ رویش کو ایسی ویسی دھمکیاں نہیں ملیں ۔ اس سے زیادہ قابل ذکر یہ ہے کہ رویش نے دھمکیوں کا جواب اپنی مخصوص طنزیہ ہنسی سے دیا اور ان کا کچھ اثر نہ لیا۔ ان دھمکیوں کے باوجود ’’نمسکار، میں رویش کمار‘‘ سے شروع ہونے والے پرائم ٹائم کا نہ تو ناغہ ہوا نہ ہی رویش کے لہجے میں نرمی آئی، نہ تو موضوعات بدلے نہ ہی ان کا اندازِ پیشکش بدلا۔
انٹرویوزاور تقاریر میں رویش کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ پرائم ٹائم کیلئے بہت محنت کرتے تھے۔ سچ پوچھئے تو یہی محنت اُن کیلئے سب سے بڑی ڈھال بنی ورنہ اُن کے مخالفین اُن کے آگے اتنے بے بس نہ ہوجاتے۔ محنت اور اس کے نتیجے میں نہایت جاندار صحافت ہی نے ان کی ٹی آر پی کو فطری اضافہ سے ہمکنار کیا اور پرائم ٹائم این ڈی ٹی وی کا سب سے مقبول شو قرار پایا، یہ الگ بات ہے کہ رویش آج بھی خود کو زیرو ٹی آر پی اینکر کہتے ہیں مگر اُن کی روز افزوں شہرت ومقبولیت اوراس کےنتیجے میں ملنے والا میگاسیسے ایوارڈ اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے ناظرین بھلے ہی کھل کر اُن کا سپورٹ نہیں کررہے تھے مگر خاموش حمایت نہ صرف یہ کہ جاری تھی بلکہ اس نے رویش کو جرأت اور حوصلے کا کوہ ہمالیہ بنا دیا۔
ہندوستانی زبان میں یہ فلم (وہائل وی واچڈ) طوالت کےباوجود تشنہ ہے۔ یہ احساس شاید اسلئے ہےکہ رویش اور اُن کے مداح اُن کے بارے میں مزید جاننے کی ہمہ وقت تمنا کرتے ہیں ،وہ ’’ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اُن اَنکِلوں ‘‘ کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں جنہیں آڑے ہاتھوں لینے کا کوئی موقع رویش کبھی نہیں گنواتے۔