Inquilab Logo

کیادنیا کو ہماری جمہوریت خطرے میں لگتی ہے؟

Updated: November 04, 2020, 11:05 AM IST | Parvez Hafiz

امرتیہ سین نوبیل انعام یافتہ ہیں۔ ان کے ارشادات کو ساری دنیا میں احترام کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ اگر انہیں یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہندوستان جنت نشان جمہوریت کے راستے سے بھٹک گیا ہے تو یہ واقعی تشویش کی بات ہے۔

Indian Democracy - Pic : INN
بھارت جہوریت ۔ تصویر : آئی این این

  پچھلے ہفتے گارجین میں امرتیہ سین کا ایک عمدہ تجزیاتی مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے’’ہندوستان مطلق العنانیت کی جانب بھٹک گیا ہے۔‘‘ سین کے مطابق آزادی کے بعدکئی دہائیوں تک ہندوستان کی سیکولر ڈیموکریسی ہونے کی ایک شاندارتاریخ رہی ہے جب شہریوں کو شخصی آزادی حاصل تھی۔ تاہم حالیہ برسوں میں موجودہ حکومت ایک ایسے مختلف معاشرے کی تشکیل کررہی ہے جہاں آزادی کی چمک ماند پڑ رہی ہے۔سین کا دعویٰ ہے کہ جس طرح ’’حکومت کی مخالفت‘‘ کو’’ قوم کی مخالفت‘‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے یہ تانا شاہی نظام کی علامت ہے۔پر امن احتجاج کرنے والوں پر غداری کا مقدمہ درج کرنے کے اقدام کو سین نے حکومت کا ’’ استبدادی رویہ‘‘ قرار دیا ہے۔جو لوگ گاندھی کے اہنسا ئی طریقے سے احتجاج کررہے ہیں ان کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر جس طرح یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے اس پر انہوں نے تنقید کی ہے لیکن یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ  ’’ سیکولر پرامن احتجاج‘‘ جس میں عمر خالد جیسے اسٹوڈنٹ شامل ہیں، ریاستی جبر کے خلاف مضبوط مزاحمت کا سب سے عمدہ طریقہ ہے۔
  امرتیہ سین نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ہونے کے علاوہ فلسفی اور انسانی ترقی کے علمبردار بھی ہیں۔ ان کے ارشادات کو ساری دنیا میں احترام کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ اگر انہیں یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہندوستان جنت نشان جمہوریت کے راستے سے بھٹک گیا ہے تو یہ واقعی تشویش کی بات ہے۔ حالیہ مہینوں میں دی اکنامسٹ، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، گارجین، خلیج  ٹائمز، فارن پالیسی اور دیگر بین الاقوامی جریدوں اور سی این این، بی بی سی اور الجزیرہ جیسے ٹی وی چینلز نے بھی ہندوستان میں جمہوریت کے مسلسل انحطاط پر سخت تنقید کی ہے۔ ان سب نے جمہوریت کی بیخ کنی کے لئے مودی سرکار کی پالیسیوں اور حکمراں بی جے پی کی نظریاتی شدت پسندی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔   Foreign Policy میگزین میں
``  India’s Democracy Is Under Threat "
کے عنوان سے جو مضمون شائع ہوا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ اختلاف اور احتجاج کو کچلنے کیلئے مودی سرکار کے ذریعہ جاری کریک ڈاؤن آزادیٔ اظہار رائے اور کریمنل جسٹس کے پورے نظام کے لئے خطرہ ہے۔ یہ مضمون سمیت گنگولی کا تحریر کردہ ہے جو امریکہ کی کئی مشہور یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں اور فارن پالیسی کے مستقل کالم نگار ہیں۔ گنگولی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ مودی حکومت سیاسی حزب اختلاف اور اپنے نظریاتی ناقدین کو دہشت زدہ کرنے کے لئے ریاستی طاقت کا غلط استعمال کررہی ہے۔  پروفیسر گنگولی کا الزام ہے کہ بھیما کورے گاؤں معاملہ میں واوارا راؤ، ارون فریرا، سدھا بھاردواج اور گوتم نو لکھا جیسے باعزت شہری صرف اس لئے جیلوں میں بندہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ سماج کے دبے کچلے طبقے کے حقوق کی حمایت اور ریاستی  جبر کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اب جے این یو کے اسٹوڈنٹس، پروفیسرز اور سیاسی مخالفین کو جن میں سیتارام یچوری، یوگیندر یادو، جیتی گھوش اور راہل رائے جیسے شہریوں پر دہلی میں مذہبی فساد برپا کرنے کی سازش کا الزام لگایا جارہا ہے۔ گنگولی کے مطابق اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ ہندو بھیڑ نے جن میں بی جے پی کے کارکن بھی شامل تھے، خلفشار کے پردے میں کمزور مسلم اقلیتوں کو نشانہ بنایا۔’’ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ دہلی پولیس نے جو وزارت داخلہ کے کنٹرول میں ہے، یا تو بلوائیوں کا ساتھ دیا یا خاموش تماشائی بنی رہی۔‘‘
  پچھلے سال اگست میں کشمیر کی خودمختاری ختم کردینا، طویل عرصے تک لاکھوں کشمیری باشندوں کو گھروں میں محصور رکھنا، سی اے اے جیسے متعصبانہ قانون بنانا، دلتوں اور کمزور طبقات کے خلاف امتیازی سلوک کرنا اور اراکین اسمبلی کی ہارس ٹریڈنگ کرکے متعدد صوبوں میں منتخب اپوزیشن حکومتوں کو گرادینا جیسے واقعات در اصل جمہوریت کو کھوکھلا کردینے والے اقدام ہیں۔ایمنسٹی کے ڈائرکٹر اویناش کمارنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حقوق انسانی کے اداروں کے ساتھ غیر قانونی تنظیموں جیسا اور اختلاف رائے رکھنے والے شہریوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک اور وہ بھی کسی ثبوت کے بغیر دراصل حکومت ہند کی خوف کا ماحول پیدا کرنے اور تنقیدی آوازوں کو کچل دینے کی ایک سوچی سمجھی کو شش ہے۔
 ایمنسٹی انٹر نیشنل صرف عالمی شہرت اور اہمیت کی حامل انسانی حقوق کی محافظ ہی نہیں ہے بلکہ متحرک اور باعمل جمہوریت کی روشن علامت بھی ہے۔ اگر ایسی تنظیم کو ہندوتوا وادی سرکار نشانہ بناتی ہے تو دنیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتی ہے کہ ہندوستان میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی بڑے پیمانے پر پاما لی ہورہی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک تبصرہ میں تو یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ ایمنسٹی کے خلاف محاذ آرائی’’ ہندوستان کو فسطائی ریاست میں تبدیل کرنے کی سلسلے وار کوشش کا حصہ ہے۔‘‘ایمنسٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے مودی سرکار کے عتاب کا نشانہ اس لئے بننا پڑا کیونکہ تنظیم نے دہلی کے دنگوں پر حال میں ایک مربوط رپورٹ شائع کی جس نے بے گناہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے میں حکمراں جماعت کے کارکنوں اور پولیس کی ملی بھگت کا کچا چٹھا فاش کردیا۔علاوہ ازیں جموں اور کشمیر کی خودمختاری کی تنسیخ کے ایک سال بعد بھی وادی کے باشندوں کی شہری آزادیوں پر جاری پابندیوں پر بھی ایمنسٹی کی ایک سخت تنقیدی رپورٹ نے بھی ریاستی جبر کو دنیا کے سامنے عیاں کردیا تھا۔معروف صحافی کرن تھاپر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایمنسٹی جو آواز بلند کرتی تھی وہ حکومت کے کانوں پر گراں گزرتی تھی۔’’ تاہم ہمیں یہ احساس دلانے کیلئے کہ ہم کس تواتر سے اپنی اقدار سے نیچے گر رہے ہیں اس آواز کی موجودگی ضروری بھی تھی کیونکہ یہ آواز اس بات کا ثبوت تھی کہ ہماری جمہوریت آگے رواں دواں ہے۔‘‘ہندوستان تنزلی اور انحطاط کی اسی پر راہ پر گامزن ہے کہ وہ جمہوریت کا اپنامرتبہ تقریباً کھو چکا ہے۔اس  کی خاص وجہ یہ ہے کہ مودی کے دور اقتدار میں ملک میں میڈیا، سول سوسائٹی اور حزب اختلاف کے لئے زمین تنگ ہوچکی ہے۔یہ تشویش ناک خیالات Institute V-Dem کے ہیں جو سویڈن میں واقع ایک معتبر اور آزاد ریسرچ کا ادارہ ہے۔    
Democracy Index نام کی جمہوریت پر نگاہ رکھنے والی ایک اور عالمی پیمانے پر ہندوستان ایک سال میں دس پائیدان نیچے گرگیا۔ قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ۲۰۱۴ء میں اس فہرست میں ہندوستان کی پوزیشن ۲۷؍ ویں تھی جو اب گر کر ۵۱؍ ویں ہوگئی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK