Inquilab Logo

چاند رات (لیلۃ الجائزہ ) کو ضائع نہ کیجئے!

Updated: April 09, 2024, 2:05 PM IST | Dr. Muhammad Hussain Mashahid Rizvi | Mumbai

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آ سمانوں پر لیلۃ الجائزہ (یعنی انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آ سمانوں پر لیلۃ الجائزہ (یعنی انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عیدکی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے وہ زمین پر اترکر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آ واز سے جس کو جنات اور انسان کے علاوہ ہرمخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والاہے اور بڑے سے بڑے قصورکو معاف کرنے والاہے۔ 
 ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، یہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سِروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت اس رب کریم کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے۔ 
. پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرما تا ہے: کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو، وہ عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے تو اللہ رب العزت ارشاد فرما تا ہے کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اوربندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا۔ دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا ( ان کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں ) کے سامنے رسوا اور تمہاری فضیحت نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ. تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا، پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عید کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ (رواہ ابوالشیخ ابن حبان فی کتاب الثواب )۔ 
 لیکن ذرا غور کیجئے! ذرا تصور کیجئے !ایک شخص اپنی پوری زندگی کی پونجی ایک عالیشان مکان اورمحل بنانے پر صرف کردے اور جب خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے بننے والا اس کاخوبصورت محل تیار ہوجائے تویکایک وہ شخص اپنے ہی ہاتھوں بنائے ہوئے اس محل کوگرانے پرکمربستہ ہوجائے ... کیا ایسے شخص کو ہوشمندوعاقل سمجھاجائے گا؟ کیا اسے پاگل اور مجنون نہیں سمجھاجائے گا؟ ایک طالب علم سال بھرامتحان کی تیاری کرے، `دن رات کاآرام `چین نیند اورسکون اپنے اوپر حرام کرے `بالآخر اللہ اللہ کرکے وہ کمر ۂ امتحان میں داخل ہو، `بڑی تندہی، `محنت او ر کامیابی سے وہ اپناپرچہ حل کرے لیکن اچانک وہ اپناساراحل شدہ پرچہ پھاڑ کرکمر ۂ امتحان سے باہر نکل آئے اور بلاوجہ، بے لگام اچھلنا کودنا `ناچناگانا اورہنگامہ کرنا شروع کردے تو ایسے طالب علم کوکیاکہاجائے گا؟ کیااسے بے وقوف اور دیوانہ نہیں کہاجائے گا کہ اس نے تمام سال کی مشقت اور خون جگرکی محنت پریکلخت پانی پھیردیا؟ کیا دنیا میں ایسے انسانوں اور `ایسے طالب علموں کا تصورکیاجا سکتا ہے؟ 
جی ہاں ! ہمارا تجربہ اورمشاہدہ بتاتاہے کہ دنیا میں ایسے انسان موجودہیں البتہ یہ کہاجاسکتاہے کہ ایسے انسان دنیامیں بہت کم ہوتے ہیں۔ 
 لیکن یہ کیا؟ یہاں تو معاملہ بالکل الٹا ہے، ایسی مجنونانہ حرکتیں کرنے والوں کی اتنی زیادہ تعداد؟ ذرا اپنے اردگرد دیکھئے یہ کیاہورہاہے؟ ایک ہنگامہ برپاہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے، ایک ہجوم ہے، انسانوں کاسمندر ہے، چکاچوند روشنیاں ہیں، آنکھوں کوشرم سے پانی پانی کردینے والے مناظر ہیں، یہ کون ہے؟ حو ا کی بیٹی ہے، اسلام کی بیٹی ہے، ارے بھئی! ابھی کچھ وقت پہلے ہی کی بات ہے `یہ شرم وحیاء کی پتلی تھی، ایمان میں سرتاپا ڈوبی تھی، صوم وصلوٰ ۃ کے زیور سے لدی تھی، نظریں شرم سے جھکی تھیں، پردہ و حجاب میں لپٹی اور سمٹی تھی، لیکن آج اسے کیا ہوا؟ یہ چاند نکلتے ہی اس پر کیا جنون چھا گیا، کیا اس کاایمان ہی رخصت ہوگیا؟ اس کا پردہ اور حجاب کہاں گیا؟ 
اورہاں ! ذرا ان مسلم نوجوانوں کو بھی دیکھئے! مہینہ بھر صوم وصلوٰۃ کے پابندرہنے والے، پانچوں وقت مسجدوں کو آباد کرنے والے، ایک ماہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے والے، اعتکاف کرنے والے، چاند رات آتے ہی یوں شتر بے مہار ہوگئے جیسے ایمان ان کوچھوکر بھی نہیں گیاتھا، کہیں عورتوں پر ٹکٹکی بندھی ہوئی ہے توکہیں ان پر آوازے کسے جا رہے ہیں، کہیں شیطان کی آواز موسیقی کی دھنوں پر بڑے بڑے ڈیک لگاکر ناچ کود رہے ہیں، `شریفوں اور مریضوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہیں، بہت سے وہ ہیں جو فلم اور ڈرامہ میں مست ہیں یا سگریٹ کے مرغولے بنارہے ہیں۔ 
 کیا یہ سب اپنی محنت کو اپنے ہاتھوں برباد کرنے کے مترادف نہیں ؟ کیا یہ جنون اور حماقت نہیں ؟ خدارا کچھ سوچیں ! ہم رمضان میں بنی ہوئی ایمان کی یہ عمارت عید کی ایک ہی رات میں کیوں زمین بوس کرنا چاہتے ہیں ؟
اس کے برعکس ہمارے اکابر اور بزرگوں کا طرز عمل تو یہ تھا : حضرت عامر ابن قیس کے بارے میں مروی ہے کہ وہ اختتام رمضان پر رونے لگے، تو لوگوں نے کہا آپ کیوں رورہے ہیں ؟ فرمایا قسم بخدا متاع دنیا کے ضائع ہونے پر نہیں رورہا ہوں، میں تو روزے میں پیاس کی شدت پر اور ٹھنڈی رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہونے کی مشقت کے ہاتھوں سے چلے جانے پر رورہا ہوں۔ 
  حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی تو آپ فرماتے، ہائے کاش مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے وہ شخص جس کی رمضان المبارک کی عبادت قبول ہوگئی، تو میں اسے مبارکباد دیتا، اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے، جس کی عبادت قبول نہ ہو سکی اور وہ محروم رہا تو مَیں اس کی تعزیت کرتا۔ 
 اس پس منظر میں ضروری ہے کہ ہم انعام کی اس رات کو اس طرح گزاریں کہ انعام دینے والا ہم سے خوش ہو۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کیلئے) جاگے، اس کیلئے جنت واجب ہوجائیگی۔ لیلۃ الترویہ (۸؍ ذی الحجہ کی رات )، لیلۃ العرفہ (۹؍ذی الحجہ کی رات)، لیلۃ النحر (۱۰؍ ذی الحجہ کی رات)، شب برأت (۱۵؍ شعبان المعظم کی رات) اور عید الفطر کی رات۔ n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK