سیرتِ رسول پاکؐ کی اس خصوصی سیریز میں غزوۂ طائف کا تذکرہ جاری ہے۔ حنین کی جنگ میں جو اموال غنیمت حاصل ہوئے تھے وہ سب جعرانہ میں محفوظ کردیئے گئے تھے، طائف سے واپسی پر آپؐ نے اموال غنائم کی تقسیم فرمائی۔کچھ انصار صحابہ تقسیم کی حکمت سمجھ نہیں سکے اور اس پر اعتراض کیا۔ زیر نظر سطور میں پڑھئے کہ آپؐ نے کس طرح انصار کو جمع کرکے ان کی دلدہی فرمائی۔
ارض مکہ کو خدا نے حرم بنا دیا، وہی عدل تھا، اس کو علیٰ حالہ حرم کردیا، یہی عدل تھا، عدل تو وہی ہے جو خدا اور خدا کے رسول کے حکم کے مطابق ہو۔۔ تصویر:آئی این این
بعض انصار کا اعتراض
تقسیم غنائم پر بعض لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا ہوئے، خاص طور پر انصار کو یہ بات کچھ عجیب لگی کہ جو لوگ ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں انہیں سو سو اونٹ دے دیئے جائیں، اور جن کی تلواروں سے ابھی تک دشمنانِ اسلام کا خون ٹپک رہا ہے انہیں چار چار یا بارہ بارہ اونٹ دیئے جائیں۔ ایک انصاری ،ذوالحویصرہ تمیمی تھا۔ وہ تقسیم غنائم کا منظر دیکھ رہا تھا، جب یہ عمل مکمل ہوچکا تو وہ کھڑا ہوا اور گستاخانہ لہجے میں کہنے لگا کہ اے محمدؐ! آپؐ نے آج کے دن انصاف سے کام نہیں لیا۔ یہ سن کر آپؐ کا چہرۂ مبارک غصے سے سرخ ہوگیا فرمایا: اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو دوسرا کون انصاف کرپائے گا۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے اس کی گردن اڑانے کی اجازت دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اس کی نسل سے سچے پکے مسلمان پیدا ہوں گے۔ ایک اور انصاری نے کہا کہ آپؐ کی یہ تقسیم اللہ کی خوشنودی کے لئے نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ان کو ہم سے زیادہ تکلیف دی گئی ہے۔ بعض انصار صحابہؓ نے دبے لفظوں میں یہ بھی کہا کہ جب مصیبت آتی ہے تو انصار کو پکارا جاتا ہے، اور جب مال غنیمت کی تقسیم کا وقت آتا ہے تو اپنی قوم کے لوگوں کو دیا جاتا ہے۔
انصار میں جب اس طرح کی چہ میگوئیاں شروع ہوئیں تو حضرت عبادۃ بن الصامتؓ نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا کہ مال غنیمت کی تقسیم سے انصار صحابہؓ ناخوش ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آپؐ نے قریش کے لوگوں کو بہت زیادہ مال دے دیا ہے، اور ہمیں بہت کم دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے نا انصافی وغیرہ کی بات کہی تھی جیسے ذوالحویصرہ وغیرہ یہ لوگ نو مسلم تھے اور ابھی ان کے دلوں میں اسلام پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا، البتہ بعض مخلص صحابہؓ کے دلوں میں بھی یہ خیال ضرور پیدا ہوا کہ جن لوگوں نے غزوۂ حنین میں سر دھڑکی بازی لگا دی انہیں بہت کم دیا گیا اور جو فتح مکہ تک اسلام کے مخالف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے انہیں خوب نوازا گیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ باتیں سنیں تو حضرت عبادہ بن الصامتؓ سے فرمایا کہ تمام انصار کو ایک جگہ جمع کرو، وہاں انصار کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہ ہو۔ جب تمام انصار ایک جگہ جمع ہوگئے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا کہ اے انصار! کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم ہم سے ناخوش ہو، انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم میں سے جو لوگ سمجھ دار ہیں انہوں نے کچھ نہیں کہا، البتہ عام لوگ ایسا ایسا کہہ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد وثنا کے بعد ارشاد فرمایا: اے گروہ انصار! کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے، اللہ نے تمہیں میرے ذریعے ہدایت دی، کیا تم تنگ دست اور محتاج نہیں تھے، اللہ نے تمہیں میرے ذریعے مال دار بنایا، اور کیا تم منتشرا ور بکھرے ہوئے نہیں تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے ذریعے متحد کیا؟ انصار صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے جواب میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جب آپؐ کو سب نے جھٹلایا ہم نے تصدیق کی، جب آپؐ کو سب نے رسوا کرنا چاہا ہم نے آپؐ کی عزت کی، جب سب نے آپ کو وطن سے نکالا ہم نے آپ کو اپنے گھر میں پناہ دی، جب آپؐ ضرورت مند تھے ہم نے آپؐ کی مدد کی!
’’اے گروہ انصار! کیا تم ناپائیدار دنیا اور باقی نہ رہنے والے مال ومتاع کے لئے مجھ سے ناراض ہوئے؟ یہ مال میں نے صرف ان لوگوں کو دیا ہے جو ابھی مسلمان ہوئے ہیں اور جن کے دلوں میں ابھی اسلام کی محبت پوری طرح راسخ نہیں ہوئی ہے، اس سے میرا مقصد ان کو اسلام کی طرف لانا اور اس دین سے ان کو مانوس کرنا ہے، تاکہ وہ اسلام کی دشمنی سے باز آجائیں اور خدا کے اس دین کی تائید کریں۔ اے گروہ انصار! کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ وہ لوگ مال اور اونٹ لے جائیں اور تم لوگ اپنے ساتھ رسولؐ اللہ کو لے جاؤ؟ خدا کی قسم! کوئی کسی بھی راستے پر چلے، میرا راستہ انصار کا راستہ ہے، میں ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوں اور میری موت وزندگی تمہارے ساتھ ہے۔ اے انصار! تم ہمارا شعار ہو (یعنی بدن سے چپکا ہوا کپڑا ہو،) اور سب لوگ دِثار ہیں( دِثار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو لباس کے اوپر پہن لیا جاتا ہے)، تمہاری حیثیت میرے نزدیک راز داروں، خصوصی لوگوں اور مجھ سے قربت رکھنے والوں کی ہے، دوسرے لوگوں کی حیثیت عام لوگوں کی ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تقریر سن کر تمام انصار صحابہؓ رونے لگے، ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں، اور سب نے ایک زبان ہوکر کہا: یارسولؐ اللہ! ہم اس تقسیم پر راضی ہیں، ہم خدا اور اس کے رسولؐ کے فیصلے پر خوش ہیں۔ (صحیح البخاری: ۵/۱۶۰، رقم الحدیث: ۴۳۳۷) صحیح مسلم: ۲/۷۳۵، رقم الحدیث: ۱۰۵۸، زاد المعاد:۳/۳۴۳ )
مسئلے کی حقیقت
اصح السیر کے مصنف مولانا حکیم ابوالبرکات عبد الرؤف داناپوریؒ نے یہ تمام تفصیلات لکھنے کے بعد ’’مسئلے کی حقیقت‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے، اس عنوان کے تحت وہ لکھتے ہیں:
’’کسی روایت میں یہ تشریح نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤلفۃ القلوب کو جو اموال جعرانہ میں عطا فرمائے وہ مجموعہ غنائم میں سے تھے، یا خمس میں سے۔ علماء کی رائے اس میں مختلف ہے۔ امام شافعی اور امام مالک رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ خمس میں سے بلکہ خمس الخمس میں سے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص حصہ تھا، عطا فرمائے، اور بظاہر یہی قول قوی ہے اِس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عطا کے وقت غانمین سے اجازت نہیں لی، اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ نہ تھا کہ اموال صحابہ یا اُن کے حقوق کو بغیر اُن کی اجازت کے کسی کو دے دیں۔ اِسی قصہ میں ہے کہ آپؐ کی رائے تھی کہ ہوازن کے سبایا کو واپس کردیا جائے، گو آپؐ کی یہ رائے تھی مگر آپؐ نے صحابہ سے صرف سفارش کی، نہ خود اُن کے حصہ کو واپس کیا، نہ اُن کو حکم دیا کہ واپس کردو، سفارش کے بعد بھی جن لوکوں نے واپس کرنے سے انکار کیا، اُن سے بدلہ دینے کا آپؐ نے وعدہ فرمایا۔
خمس خدا کا مال ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تصرف کا کامل اختیار ہے، وہ ایسے ہی مصالح کے لئے جدا کیا گیا ہے، اِس سے بہتر مصرف اس کے خرچ کا اور کیا ہوگا کہ سرداران قریش اور رؤساء قبائل جن کی خوشی وناخوشی پر قبائل کی خوشی وناخوشی کا مدار تھا، اُن کو ساکت کیا جائے، جن کی دشمنی اور عداوت سے اب تک مسلمانوں کو بڑے بڑے صدمات پہنچ چکے تھے اُن کی دشمنی کو روکا جائے، اسلام کی اشاعت کی راہ میں جو لوگ سدّ راہ بنے ہوئے تھے اُن کو ہٹایا جائے اور اس عطا وبخشش کی وجہ سے بلاشبہ یہ تمام فوائد حاصل ہوئے، بعض تو اُن میں سے مسلمان ہوگئے بعض نے اقرار کیا کہ اس کے قبل ہماری نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی بُرا نہ تھا، اور اِس کے بعد میری نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی محبوب نہ رہا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انصار کا اعتراض یہ نہ تھا کہ میرا حق دوسرے کو دے دیا گیا، بلکہ اعتراض کا منشا یہ تھا کہ حق کے علاوہ انعام واکرام کے مستحق بھی ہم تھے، قریش نہ تھے نہ سرداران قبیلہ جن کی عداوتیں بھی اب تک سرد نہ ہوئی تھیں۔ لیکن یہ غلط فہمی تھی۔ یہ تمام مال سب کا سب انصار کو دے دیا جاتا تو خود اُن کے لئے اور اسلام کے لئے اتنا مفید نہ ہوتا جتنا مؤلفۃ القلوب کے دینے سے ہوا، مؤلفۃ القلوب کے دینے میں جو حکمۃ غامضہ اور مصالح عظیمہ پوشیدہ تھے اُس کے فوائد اس کے بعد ہی ظاہر ہوگئے۔
اس کو یہ سمجھنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کا خیال کیا سخت نادانی ہے۔ آپؐ نے اپنے اہل بیت میں سے کسی کو کچھ نہیں دیا، اُن مہاجرین کو کچھ نہیں دیا جو آپؐ کی محبت اور اسلام کی صداقت کے لئے اپنا گھر، اپنا وطن اور اپنے اقربا ء کو چھوڑ کر آپ کے ساتھ تھے، اور اسلام کے لئے شروع سے اب تک سخت سے سخت مصیبتیں برداشت کرچکے تھے، یہ بھی قریش ہی تھے مگر معلوم تھا کہ مزخرفات (جھوٹی اور بناوٹی باتیں) دنیاوی کی وجہ سے اُن کی صداقت ایمانی میں کوئی تزلزل واقع نہیں ہوسکتا۔ مؤمنین صادقین کو مالی ترغیب کی کوئی ضرورت نہ تھی، مہاجر ہوں یا انصار اہل بیت ہوں یا غیر اہل بیت، مالی ترغیب کی انہیں کے لئے ضرورت تھی جن کے نزدیک اب تک سب کچھ مال ہی تھا۔
میں نے یہ سب کچھ اِس بنا پر لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤلفۃ القلوب کو جو کچھ دیا وہ خمس میں سے دیا، مگر سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ایسے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کل مال میں سے بھی صرف کرسکتے تھے یا نہیں۔ جواب ظاہر ہے کہ تمام اموال میں حکم خداوندی نافذ ہے اور آپؐ جو کچھ کرتے تھے وہ بحکم خداوندی کرتے تھے، جس خدا نے مال غنیمت کو مسلمانوں کے لئے جائز کیا وہ آپؐ کو کسی خاص مصرف میں صرف کرنے کا اختیار بھی دے سکتا ہے، نہ وہ عدل کے خلاف ہوگا نہ مصلحت کے۔ مکہ کے غنائم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو روک دیا وہ عین عدل تھا، ارض مکہ کو خدا نے حرم بنا دیا، وہی عدل تھا، ایک روز حرم میں خونریزی جائز کردی، یہی عدل تھا، پھر اس کو علیٰ حالہ حرم کردیا، یہی عدل تھا، عدل تو وہی ہے جو خدا اور خدا کے رسول کے حکم کے مطابق ہو، یہ عدل نہیں ہے کہ مصالحہ عامّہ پر احباب اور اشخاص کے فوائد کو ترجیح دی جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال پر تو وہی شخص اعتراض کرسکتا ہے جو خدا او رسول سے واقف نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایسی ضرورت پیش آجائے تو امام اور امیر اسلام بھی ایسا کرسکتا ہے یا نہیں، خمس میں تو بالکل ظاہر ہے اس کو تو بلا تامل مصالحہ عامّہ پر صرف کرسکتا ہے لیکن غیر خمس میں بھی اگر ضرورت شدید داعی ہو تو اس کو بھی کیا جاسکتا ہے، مصالحہ عامّہ اسلامیہ بہر حال فوائد شخصیہ پر مقدم ہیں۔ ایسا کرنا عدل کے خلاف نہیں، بلکہ عین عدل ہے لیکن تقسیم کے قبل یا اموال کو دار الاسلام میں لانے سے پہلے یہ کام کیا جائے تقسیم کے بعد نہیں، واللہ اعلم۔‘‘(اصح السیر ص:۳۰۱-۳۰۳)