Inquilab Logo

ملک کی درجنوں پارٹیاں اور بی جے پی

Updated: March 12, 2023, 10:19 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

رواں سال میں ۹؍ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور پھر آئندہ سال لوک سبھا کا الیکشن ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس ۲۰۲۴ء سے پہلے ۲۰۲۳ء کی کسوٹی ہے۔ اگر وہ اس پر پورا اترتی ہیں تو ۲۰۲۴ء آسان ہوجائے گا۔

Opposition parties
اپوزیشن پارٹیاں

بی جے پی کے طرز فکر و عمل سے سب واقف ہیں۔ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر رائے دہندگان اسے ووٹ نہ دینا چاہیں تو ان کے پاس متبادل ہے۔ متبادل کے طور پر وہ جن پارٹیوں کو ووٹ دے سکتے ہی، مثال کے طور پر تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور انا ڈی ایم کے، کیرل میں لیفٹ پارٹیاں اور کرناٹک میں دیوے گوڑا کی جنتا دل سیکولر۔ اس کے علاوہ کانگریس سے علاحدہ ہونے والی پارٹیاں ہیں جنہوں نے خود کو الگ تو کرلیا مگر اپنے نام میں لفظ کانگریس باقی رکھا ہے، مثلاً ترنمول کانگریس، مہاراشٹر میں راشٹر وادی کانگریس اور آندھرا میں وائی ایس آر کانگریس۔ یہ پارٹیاں کانگریس سے بالکل جدا ہیں مگر انہوں نے اپنے نام میں کانگریس باقی رکھا ہے کیونکہ قومی سیاست میں کانگریس کی جو ساکھ ہے اس کا فائدہ ملتا رہے اور رائے دہندگان کو یہ سمجھایا جاسکے کہ انہوں نے کانگریس کے بنیادی نظریہ کو ترک نہیں کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی پارٹیاں ہیں جو اپنی اپنی جگہ پر متبادل کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سب کے علاوہ آل انڈیا کانگریس پارٹی ہے جو پورے ملک میں موجود ہے۔
 ان متبادلات میں مزید متبادلات بھی ہیں، مثال کے طور پر کشمیر میں آپ پی ڈی پی کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں اور نیشنل کانفرنس کو بھی۔ اس کے علاوہ دہلی میں عام آدمی پارٹی ہے، تلنگانہ میں ٹی آر ایس ہے، جہاں تہاں ایم آئی ایم بھی ہے اور مسلم لیگ بھی۔ یہ پارٹیاں دیگر متبادل پارٹیوں کی طرح سب کو ساتھ لے کر چلنے کا دعویٰ کرتی ہیں مگر ان پارٹیوں کا دامن بھی صاف نہیں رہا ہے۔ ان کے اقتدار میں بھی مسلمانوں کو تنگ کیا گیا اور ان پر ہونے والی زیادتیوں کو روکا نہیں گیا۔ مگر بی جے پی کا انداز سیاست بالکل مختلف ہے۔ کسی اور پارٹی نے کبھی وہ فیصلے اور کارروائیاں نہیں کیں جو بی جے پی کی شناخت بن چکی ہیں۔ بی جے پی نے شہریت ترمیمی قانون کو راہ دی، تین طلاق بل پر اصرار کیا، غذا یعنی کھان پان کو موضوع بنایا اور سماج کو منقسم کرنے کی سیاست کو پختہ کیا۔ بالخصوص ۲۰۱۹ء کے بعد۔ کوئی دوسری پارٹی مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی سیاست کو اتنی شدومد کے ساتھ جاری نہیں رکھتی جتنا کہ بی جے پی۔ اس کا ثبوت آپ سب کے سامنے ہے۔ لوک سبھا کے ۳۰۳؍ اراکین اور راجیہ سبھا کے ۹۲ ؍اراکین، جن‌کا بی جے پی سے تعلق ہے، ان میں ایک بھی مسلم نہیں ہے۔ اراکین اسمبلی کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ کم و بیش ایک ہزار۔ ان میں بھی مسلم کتنے ہیں یہ سب جانتے ہیں۔ اسے سماج کو بانٹنے کی منظم کوشش کا نام نہ دیا جائے تو پھر کیا کہا جائے۔ کوئی اور پارٹی ایسا نہیں کرتی خواہ اسے محسوس ہوتا ہو کہ ایسا کرنے میں فائدہ ہے۔ 
 اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی دیگر پارٹیاں اس بات کو اچھی طرح سے ہیں کہ یہ سیکولر ملک ہے جس کا اپنا آئین ہے اور جس کی بنیاد کثرت میں وحدت کے نظریہ پر رکھی ہوئی ہے۔ اقلیتوں کو حاشیے پر لانے اور انہیں یکہ و تنہا کرنے کی یہ روش مسلم اکثریتی ملکوں میں بھی ‌نہیں اپنائی جاتی۔ اس کی مثال بنگلہ دیش سے دی جاسکتی ہے جس نے اقلیتی نمائندگی کا خیال رکھا اور سدھن چندر مجمدار کو کابینہ میں جگہ دی ہے۔ البتہ پاکستان کو بطور مثال پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اس ملک میں بھی اقلیتوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا۔ اس ملک میں اقلیتوں کی آبادی صرف تین فیصد ہے۔   اتنی مختصر آبادی والی اقلیتوں کے لئے بہت کچھ کیا جانا چاہئے مگر انصاف ہنوز دور ہے۔ 
 ۲۰۱۴ء کے بعد سے ہندوستان جس قسم کے حالات سے گزر رہا ہے ان میں اقلیتوں کی شمولیت کو یقینی نہ بنا کر ہم کوئی اچھی مثال قائم نہیں کررہے ہیں۔ ہمارے معاشی دعوے زیادہ تر زبانی ہیں ۔ اس ضمن میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشی نمو ایک حد تک ہی منقسمانہ سیاست کے ساتھ چل سکتی ہے، زیادہ دور تک نہیں۔ جدید ملکوں نے اپنے ہی عوام کو ہدف بنانے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اور اُن کے مستقل استحصال کا جو طریقہ اپنایا ہے اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ، نہ معاشی نمو کا اور نہ ہی سماجی امن و سکون کا۔ ہرچند کہ بی جے پی کو اپنے انداز کی سیاست کا فائدہ ہوا ہے مگر جیسا کہ عرض کیا گیا کہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اِس نوع کی سیاست کا بی جے پی کو فائدہ ملا۔ لیکن دیگر سیاسی جماعتیں اس قسم کی سیاست کو اپنانے کے لئے خود کو آمادہ نہیں کرسکیں۔ یہ دیگر جماعتیں منقسمانہ سیاست کو پھلتاپھولتا دیکھنے کے باوجود اگر اس سے دور ہیں تواس کا مطلب وہ جانتی ہیں کہ حاصل ہونے والا فائدہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا۔ آج نہیں تو کل اس کے سحر کو ٹوٹنا ہے۔ 
 اس وقت جو صورت ِ حال ہے اس میں تمام سیاسی جماعتیں خواہ وہ بی جے پی ہو یا غیربی جے پی  ہو یا کوئی اور، سب اپنے قلعوں کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ غیربی جے پی پارٹیوں کا واضح ہدف یہ کہ وہ بی جے پی کے سحر کو توڑیں۔ اس کی بہت آسان سی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ اپوزیشن متحد ہو مگر اس کے امکانات سب کے سامنے ہیں۔ یہ پارٹیاں  سیکولر سیاست کو فروغ دیتی ہوئیں اپنا راستہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ سماجی حالات ، معاشی حالات اور وہ تمام جو سرخیوں میں ہیں ، مثلاً ہنڈن برگ کی رپورٹ اور اس کے انکشافات، اپوزیشن کے لئے خوشگوار فضا تیار کررہے ہیں اور دن بہ دن اس کے انتخابی امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں مگر کوئی واضح حکمت ِ عملی اور عوام کو قائل کرکے اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کتنی کامیاب  ہوسکتی ہے ، یہ وقت ہی بتائے گا۔ رواں سال میں ۹؍ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور پھر آئندہ سال لوک سبھا کا الیکشن  ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس ۲۰۲۴ء سے پہلے ۲۰۲۳ء کی کسوٹی ہے۔ اگر وہ اس پر پورا اترتی ہیں تو ۲۰۲۴ء آسان ہوجائے گا۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK