Inquilab Logo Happiest Places to Work

تعلیم اور تربیت، دو الگ الگ مگریکساں اہمیت کے حامل الفاظ ہیں

Updated: August 23, 2024, 2:45 PM IST | Mrs. Misbah Usman | Mumbai

جب بچوں کی تعلیم و تربیت کی بات کی جائے تو اس سے فقط یہ مراد لینا کہ وہ کتنا تعلیم یافتہ ہے، کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاق و آداب کا رنگ بھی اس کی شخصیت میں نظر آنا چاہئے۔

Teaching children to pray for ablution is education while teaching them to perform ablution in practice is training. Photo: INN
بچوں کو وضو کی دعا سکھانا تعلیم جبکہ انہیں عملی طور پر وضو کرنا سکھانا تربیت ہے۔ تصویر : آئی این این

تربیت ِ اولاد بظاہر دو الفاظ کا مرکب ہے تاہم معنوی افادیت کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بالعموم والدین اس امر کو تعلیم کے ساتھ ہی منسلک کردیتے ہیں اور کسی اچھے اسکول یا ادارے کا انتخاب انہیں اپنی ذاتی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیتا ہے وہ بزعمِ خویش اس خیال میں بچوں کی زندگی کا قیمتی وقت گزار دیتے ہیں کہ ہمارے منتخب کردہ تعلیمی ادارے سے بچہ تعلیم یافتہ،  مہذب اور اخلاق و آداب سے مزین ہو کر نکلے گا۔ جب کہ اس حقیقت کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ تعلیم اور تربیت دو الگ الفاظ اور اہمیت کے لحاظ سے خاص مرتبہ کے حامل ہیں۔ دونوں بچے کی شخصیت کو خوبصورت بنانے کے لئے اس قدر لازم و ملزوم ہیں کہ اگر کوئی ایک پہلو بھی نظر انداز ہو جائے تو بچے کی شخصیت نامکمل اور ناتمام رہتی ہے اور وہ معاشرے کا مفید اور کارآمد شہری بننے سے محروم رہ جاتا ہے۔ 
تعلیم کا لفظ معلومات کے حصول اور حقیقت کے ادراک سے متعلق ہے جب کہ تربیت کا لفظ وسیع المعنی ہےجو بچے کی مناسب پرورش،  مہذب نگہداشت،  اچھے اخلاق و آداب اپنانے کی ترغیب اور رذائل سے بچاؤ کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ لہٰذا جب بچوں کی تعلیم و تربیت کی بات کی جائے گی تو اس سے فقط یہ مراد لینا کہ وہ کتنا تعلیم یافتہ اور علوم میں مہارت رکھنے والا ہےکافی نہ ہو گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان اخلاق و آداب کا رنگ بھی اس کی شخصیت میں نظر آنا چاہئے کہ وہ کس قدرمہذب،  باکردار،  اچھے اخلاق اور نیک اوصاف کا حامل ہے۔ اگر یہ دونوں پہلو اس کی شخصیت میں متوزان نظر آئیں تو اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے وہ اچھی تعلیم و تربیت کا مالک ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:ملک کے موجودہ حالات میں ہمیں آپ اپنی حفاظت کی فکر کرنی چاہئے

معزز قارئین! بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور بیش قدر سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان طفلانِ ملّت کے لئے اعلیٰ تربیت،  عمدہ تعلیم،  مناسب پرورش،  مہذب نگہداشت اور خصوصی دیکھ بھال والدین اور اساتذہ کی اوّلین ذمہ داری ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ماں کی آغوش کو پہلی درس گاہ قرار دے کر اس پر صداقت کی سند ثبت کر دی ہے۔ بچے کو اس عمر میں کسی کتاب یا دیگر علمی ذخیرے کے بغیر براہِ راست علمی نور حاصل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے والدین،  خصوصاً والدہ کی اوّلین ذمہ داری اِسلامی تعلیمات اور بچوں کی نفسیات کے مطابق اُن کی تربیت کرنا اور انہیں تعلیم دینا ہے۔ 
ذیل میں سیرتِ نبوی ﷺ کے آئینے میں چند خاص امور پیشِ نظر ہیں جن کو اپنا کر والدین اپنے بچوں کی احسن انداز میں تربیت کر سکتے ہیں۔ 
بچے میں قوتِ گویائی آنے کے بعد سب سے پہلا عمل
والدین کا فرض ہے کہ جب بچے میں قوت گویائی آجائے اور زبان سے کلمات ادا کرنے لگے تو سب سے پہلے اسے کلمہ طیبہ سکھائیں اور اس کے ننھے منھے دماغ میں اس کا مطلب بھی راسخ کر دیں کہ کلمہ ہی اسلام کی بنیاد ہے۔ احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے تلقین فرمائی کہ بچہ جب بولنے لگے تو اسے کلمہ طیبہ سکھایا جائے۔ 
حضرت عمرو بن شعیب ؓ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو ان کو لا الٰہ الا اللہ سکھاؤ پھر ان کی موت آنے تک فکر مت کرو (یعنی شروع میں جب عقیدہ ٹھیک کر دیا اور اسلام کا عقیدہ اس کو سکھا دیا تو اب کوئی ڈر نہیں۔ ایمان کی پختگی اسے ایمان ہی پر زندہ رہنے دے گی اور اسی پر ان شاء اللہ اس کی موت آئے گی)۔ ‘‘
(ابن السني،  عمل الیوم واللیلة)
 آداب سکھانے کی ترغیب
والدین بچوں کی اچھی تربیت کر کے اور انہیں اچھے آداب و تہذیب سکھا کر برائی سے بچا سکتے ہیں۔ اگر بچے کو والدین کی توجہ و نگہداشت،  ان کی سرپرستی و راہنمائی حاصل نہ ہو تو بچے کا بگڑ جانا یقینی بات ہے،  ایسا بچہ کیونکر نیک اور اچھا انسان بن سکتا ہے۔ والدین کو تربیتی ذمہ داریوں کی ترغیب حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔ 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کی عزت افزائی کیا کرو اور اُنہیں اچھے آداب سکھایا کرو۔ ‘‘ (ابن ماجه، کتاب الادب )
لہٰذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کو معمولی تصور نہ کریں بلکہ اس سلسلے میں اپنے فرائض خلوص و لگن کے ساتھ سر انجام دیں۔ ان کے اندر اچھے آداب و صفات پروان چڑھائیں،  ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا بخشیں ان میں کجی اور سطحیت پیدا نہ ہونے دیں۔ ان کے اندر وسعت قلبی،  صداقت و دیانت،  صبر و استقامت،  ایثار و قربانی،  ہمدردی و غم گساری،  تواضع و انکساری اور مہمان نوازی و فیاضی کی صفات پیدا کریں۔ 
طہارت اور وضو سکھانے کا حکم
بچوں کوصاف ستھرا رہنے اور طہارت و پاکیزگی اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے۔ انہیں قضائے حاجت کے آداب سکھائے جائیں۔ 
عملی مشقیں : قضائے حاجت کے وقت بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت بایاں پاؤں پہلے اندر داخل کیا جائے پھر دایاں اور جب باہر آئیں تو پہلے دایاں پاؤں باہر رکھا جائے۔ قضائے حاجت کے بعد ہاتھوں کو اچھی طرح دھو کر پاک کیا جائے۔ 
وضو اور غسل کے آداب سکھائے جائیں۔ والدین کوشش کریں کہ عملی طور پر وضو کر کے بچوں کو وضو کا طریقہ سیکھائیں کیونکہ عملی صورت میں بچے جلدی سیکھ سکتے ہیں۔ جب والد مسجد جائیں تو کوشش کریں کہ بچوں کو ساتھ لے کر جائیں ۔ 
دائیں ہاتھ سے امورِ خیر کے آغاز کی ترغیب
حضور نبی اکرم ﷺ نے دائیں ہاتھ سے کام کرنے کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اس کا حکم بھی دیا ہے اس لئے بچوں کو کھانے،  پینے،  لکھنے،  کوئی چیز لینے اور بھلائی کے ہر کام میں دائیں ہاتھ سے کام کرنے کی تلقین کرنی چاہئے۔ 
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: حضور نبی اکرم ﷺ دائیں ہاتھ کے استعمال کو پسند فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ دائیں ہاتھ کے ساتھ پکڑتے اور دائیں ہاتھ کے ساتھ دیتے اور آپؐ اپنے تمام کاموں میں دائیں ہاتھ کا استعمال ہی پسند فرماتے تھے۔ 
(نسائی،  السنن الکبری)
سو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہر کام میں دائیں ہاتھ کا استعمال فرماتے تھے۔ یہی آپ ﷺ کی سنت اور یہی آپؐ کا حکم ہے،  لہٰذا بچوں کو بھی دائیں ہاتھ کے استعمال کی ترغیب دینی چاہئے اور اس بات کا پابند بنانا چاہئے کہ روزمرہ کے کاموں اور معاملات میں اپنے دائیں ہاتھ کا استعمال کریں۔ 

یہ بھی پڑھئے:ابلیس کو شکست دینا آسان نہیں مگر اتنا مشکل بھی نہیں ہے!

بچے کی شخصیت کی تعمیر میں کھانے پینے کی ابتدائی تربیت کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس لئے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کھانے پینے کے آداب سے روشناس کروائیں۔ کھانا کھانے کے دوران بچہ اگر ناشائستہ طریقہ اختیار کرے تو اسے نہایت محبت اور پیار سے سمجھائیں۔ بچوں کو کھانا کھانے کے درج ذیل آداب سکھائے جائیں :
کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھویا جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے۔ ‘‘ (احمد بن حنبل، المسند)
دو زانو یا چار زانو بیٹھ کر کھانا کھایا جائے۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جائے۔ کھانا دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہئے۔ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں لڑکپن میں حضور نبیؐ اکرم کے زیرکفالت تھا (آپؐ کے ساتھ کھانا کھاتے وقت) میرا ہاتھ پیالے میں ہر طرف چلتا رہتا تھا۔ (ایک مرتبہ جب میں آپؐ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا تھا تو آپ ؐ نے (مجھے سمجھاتے ہوئے) فرمایا: بیٹے! (پہلے) بسم اللہ پڑھو، پھر دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد ہمیشہ میں اسی طریقہ سے کھاتا ہوں۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمة، باب التسمیة علی الطعام والأکل بالیمین)
کھانا کھانے کے دوران ٹیک لگانے سے اجتناب کیا جائے۔ کھڑے ہو کر کھانے پینے سے اجتناب کیا جائے۔ پانی تین سانسوں میں پینا چاہئے اورپانی پینے کے بعد الحمد للہ کہنا چاہئے۔ یہ ساری باتیں بچوں کو تاکیداً سکھائی جانی چاہئیں اور اگر وہ عمل نہ کریں تو اُنہیں ٹوکا جائے۔ 
سونے کے آداب 
تعلیماتِ نبویؐ کے مطابق دائیں کروٹ پر دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر سویا جائے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور نبیؐ اکرم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں کروٹ پر سوتے تھے۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب النوم علی الشق الایمن)
سونے سے قبل مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی ؐ کریم رات کے وقت جب خواب گاہ میں جاتے تو اپنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیتے پھر کہتے: اے اللہ! میں تیرے نام کے ساتھ سوتا اور جاگتا ہوں۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخد الیمنی)
 عموماً چھوٹی عمر میں والدین بچوں کے سونے کے طریقے کو معمولی سمجھتے ہیں اور ان کے الٹے، سیدھے یا نازیبا طریقے سے سونے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جب کہ یہی چھوٹی عمر ہی وہ اسٹیج ہے جہاں بچوں کو آداب سکھائے جاتے ہیں اور ان پر مسلسل عمل اس عادت کو ان کی فطرتِ ثانیہ بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ سونے کے آداب بھی سیرتِ نبویؐ کے آئینے میں بچوں کو سکھائے جائیں ۔ 
چھینک اور جماہی کے آداب
 بچوں کو چھینک اور جماہی کے آداب سکھائے جائیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اس کے بارے میں دین کے احکامات کیا ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
 بیشک اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند اور جماہی کو نا پسند فرماتا ہے۔ پس جب کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمدللہ کہے اور ہر مسلمان پر حق ہے کہ جو اسے سنے تو یرحمک اللہ کہے۔ جماہی شیطان کی طرف سے ہے، لہٰذا جہاں تک ہو سکے اسے روکنا چاہئے، کیونکہ جماہی لینے والا جب ’ہا‘ کہتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الادب، باب ما یستحب من عطاس وما یکره من التثاؤب)
آداب مجلس سے شناسائی
 بچوں کو آدابِ مجلس سے روشناس کروانا والدین کا فرض ہے تاکہ ان کے بچے جس مجلس میں بھی جائیں وہاں ادب کا مظاہرہ کریں نہ کہ نادانی کی وجہ سے مجلس میں کسی نازیبا حرکت کے مرتکب ہوں اور بے ادبی نیز رُسوائی کا سبب بنیں۔ حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: جب ہم حضور نبی اکرمؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو جہاں مجلس ختم ہو رہی ہوتی وہیں بیٹھ جاتے۔ (احمد بن حنبل، المسند)
 جب کسی مجلس میں دو آدمی بیٹھے ہوں تو بلا اجازت ان کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا:دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو۔ (أبو داؤد، السنن، کتاب الادب)
بڑوں کے ادب و احترام کی تلقین
 بچوں کی تربیت میں بڑوں کا ادب و احترام کرنے کی تعلیم کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ اُنہیں سکھایا جائے کہ جب وہ بڑوں کے ساتھ چلیں تو ان کے آگے نہ چلیں۔ جب وہ بڑوں کے ہمراہ ہوں تو بڑوں سے پہلے گھر میں داخل نہ ہوں۔ بڑوں سے مراد صرف گھر کے بڑے افراد اور والدین نہیں بلکہ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو عمر میں بچے سے بڑا ہو۔ والدین تو لائقِ تعظیم ہوتے ہیں ان کا احترام کرنا، ان کا ادب کرنا اور ان کا حکم ماننا تو بچوں کا فرض ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی بھی بڑا بزرگ ہو اس کا بھی ادب و احترام بچوں کو سکھانا چاہئے۔ 
 حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: جو ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ (احمد بن حنبل، المسند(
اولاد کو رسول اللہ ﷺ اور آلِ رسول سے محبت کی تلقین
 حب ِ رسولؐ کامل ایمان کی علامت ہے اور بچوں میں آپؐ کی محبت اور اطاعت پیدا کرنا والدین کا شرعی فریضہ ہے اور یہ حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ: اپنے نبیؐ کی محبت، نبیؐ کے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت اور قرآن کی تلاوت۔ (سیوطی، الجامع الصغیر) 
 لہٰذا ضروری ہے کہ والدین جس طرح دیگر امور بچوں کو سکھانے کے متمنی اور خواہش مند ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اہتمام اور شوق کے ساتھ بچوں میں ِ رسولؐ کی محبت اور جذبۂ اطاعت پیدا کرنے کا ماحول اور مؤثر طریقے بچوں کو فراہم کریں۔ مثلاً بچوں کو آپؐ کے احترام، ادب اور عزت و توقیر کی ترغیب دیں۔ انہیں سیرتِ رسولؐ کے واقعات سنائے جائیں اور اس میں موجود حکمت کے جواہر پاروں سے آگاہ کریں۔ 
حاصلِ کلام
 مذکورہ بالا بحث سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں تربیت ِ اولاد کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ بچوں کی چھوٹی عمر کو عموماًنظر انداز کر دیاجاتا ہے اور اس طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں :
 ابھی وہ چھوٹے ہیں جب بڑے ہوں گے تو خود سیکھ جائیں گے۔ 
 ابھی ناسمجھ ہیں بڑے ہو کر نماز پڑھ لیں گے۔ 
 ابھی ساری عمر پڑی ہے بچیوں کے سر پر دوپٹہ اوڑھنے اور لباس کی درستگی کے لئے۔ اور
 ابھی چھوٹے ہیں بڑے ہو کر ادب و احترام سیکھ لیں گے، وغیرہ۔ 
  بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین کا یہ طرزِ عمل انتہائی خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ جو والدین بچپن میں تربیتی پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں وہ بڑا ہونے کے بعد اُن کی عادات و اطوار کو تبدیل کروا دیں اس کا امکان کم کم ہی باقی رہتا ہے۔ تب ان کے پاس ساری زندگی سوائے افسوس اور پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ والدین اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں بچپن سے ہی ان کے اخلاق و عادات سنوارنے کی کوشش کریں تاکہ ان کی بقیہ زندگی اسی تربیت کے سائے میں بسر ہو سکے۔ اس کا فائدہ اُنہیں تو حاصل ہوگا ہی، آپ کے حق میں صدقۂ جاریہ ہوگا، ان شاء اللہ۔ دُعا ہے کہ اللہ ہمیں اس کی توفیق نصیب فرمائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK