• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ملک کے موجودہ حالات میں ہمیں آپ اپنی حفاظت کی فکر کرنی چاہئے

Updated: August 09, 2024, 5:17 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

قرآنی آیات اور رسولؐ اللہ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی حفاظت کے ساتھ جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ بھی طاقت بھر ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، جہاں ان مقاصد کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو، وہاں پہلے سے احتیاط ضروری ہے۔

Islam has guided Muslims in all aspects of social, political and economic life. Photo: INN
اسلام نے مسلمانوں کی سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی کے بھی تمام پہلوؤں پر رہنمائی کی ہے۔ تصویر : آئی این این

شریعت کے عملی احکام کو چار حصوں میں بانٹا گیا ہے، اول عبادات یعنی وہ افعال جن کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے تعلق کا اظہار کرتا ہے، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور قربانی۔ دوسرے: معاشرت یعنی خاندانی اور سماجی زندگی سے متعلق قوانین جیسے والدین اور اولاد کے ایک دوسرے پر حقوق اور ذمہ داریاں، بھائی بہنوں کے حقوق، پڑوسیوں اور ہمسایوں کے حقوق وغیرہ، تیسری قسم معاملات کی ہے، یعنی مالی معاملات کی بنیاد پر دو افراد کے درمیان جو رابطہ پیدا ہوتا ہے، اس کے بارے میں شرعی رہنمائی، جیسے: تاجر اور گاہک کا تعلق، مالک اور کرایہ دار کا تعلق، کمپنی اور ملازم کا تعلق وغیرہ، ان میں کس کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی اور کن کے کیا حقوق ہوں گے؟ رہنمائی کی چوتھی قسم اجتماعی احکام کی ہے، جس میں سیاست، ملکی نظم ونسق، امن عامہ، عدلیہ، مجرمین پر سزاؤں کی تنفیذ وغیرہ شامل ہیں۔ اس چوتھے قسم کے احکام کا تعلق مسلم حکومت سے ہے، بقیہ تینوں قسم کے احکام کے مخاطب پوری دنیا کے مسلمان ہیں، اور طاقت بھر اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:خدا کی مدد کا مستحق بننے کی شرط کیا ہے؟

شریعت کا مقصد پانچ باتیں 
 یہ تمام احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم اور دانا ہے، اس کا کوئی فیصلہ حکمت اور مصلحت کے خلاف نہیں ہو سکتا؛ اس لئے شریعت اسلامی کے ماہرین نے اُن مقاصد و مصالح کو متعین کرنے کی کوشش کی، جن کے گرد شریعت کے احکام گھومتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ مقاصد پانچ ہیں، اور جتنے احکام شریعت میں پائے جاتے ہیں وہ بحیثیت مجموعی ان ہی پانچ میں سے کسی میں شامل ہیں۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ مخلوق سے شریعت کا مقصد پانچ باتیں ہیں : دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، عقل کی حفاظت، نسل اور عزت و آبرو کی حفاظت اور مال کی حفاظت۔ جس عمل سے یہ مقاصد حاصل ہوں، وہ اسلام کی نظر میں مصلحت ہے، اور جن باتوں سے ان مقاصد کو نقصان پہنچے، وہ فساد ہے۔ (المستصفیٰ:۲؍۴۸۲) شریعت اسلامی کے ایک بڑے فلسفی اور اسلام کے اصول قانون کے صاحب نظر تجزیہ نگار علامہ ابو اسحاق شاطبیؒ نے لکھا ہے کہ ان مقاصد کے مطلوب ہونے پر پوری امت مسلمہ بلکہ تمام امتوں کا اتفاق ہے، اور اس سے واقف ہونا ضروری ہے۔  (الموافقات: ۱؍۸۳) 
جان و مال کی حفاظت 
 ان پانچوں مقاصد پر کئی قرآنی آیات اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات موجود ہیں اور اسی پر پورے فقہ اسلامی کی اساس ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دین کی حفاظت تو ضروری ہے ہی لیکن جان ومال اور عزت وآبرو کا تحفظ بھی طاقت بھر ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ جہاں ان مقاصد کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو، وہاں پہلے سے احتیاط ضروری ہے۔ اگر کوئی جان ومال، عزت وآبرو کے درپے ہو جائے، دینی مقدسات پر حملہ آور ہو تو بچاؤ اور روکنے کی کوشش کرنا یہ بھی بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے، اگر اس بات میں کسی کی جان چلی جائے تو اس کے لئے شہادت کا اجر ہے، اور کسی کا مال چلا جائے تو یہ بہترین صدقہ اور اعلیٰ درجہ کی قربانی قرار پائے گی، ان شاء اللہ۔ لیکن ملک کے موجودہ حالات میں بہت زیادہ پیشگی احتیاط والی تدبیروں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس طرح ہم فساد کی بہت سی شکلوں کو ٹال سکتے ہیں، جان ومال کے نقصان کو روک سکتے ہیں، اور امن وامان کو قائم رکھ سکتے ہیں، اسی سلسلے میں حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بعض تدابیر ذکر کی جاتی ہیں :
(۱) مسجدوں کا محل وقوع
 کوشش کرنی چاہئے کہ نئی مسجدیں عین گزر گاہ پر رکھنے کی بجائے کسی قدر اندر مسلم آبادی کے درمیان بنائی جائیں۔ جو مسجدیں بن چکی ہیں، ظاہر ہے کہ ان کو اب ہٹایا نہیں جا سکتا ہے، عام گزر گاہ گاہوں پر خاص کر جو ہندو مسلم ملی جلی آبادیوں کے ساتھ لگی ہوئی ہوں، شر پسندوں کی طرف سے مسجدوں کی اہانت کا کافی اندیشہ رہتا ہے، بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ پورا محلہ غیر مسلم بھائیوں کا ہے، مسلمانوں کے دو تین گھر ہیں، اور وہاں دینی جذبہ کے تحت مسجد بنا دی گئی؛ لیکن اب ان مسجدوں کی حفاظت مشکل ہوگئی ہے، اور وہاں آئے دن اہانت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، اسی طرح جو مسجدیں عام گزر گاہوں سے متصل ہیں، اگر جگہ کی گنجائش ہو تو کوشش کرنی چاہئے کہ ان مسجدوں کے گرد ایک مضبوط احاطہ بنادیا جائے تاکہ ان کی حفاظت آسان ہو سکے۔ 
(۲) اذان کے سلسلے میں احتیاط
 عدالت کے بعض فیصلوں کا سہارا لے کر بعض ریاستوں میں اذان کیلئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر تحدیدات عائد کی گئی ہیں، مثلاً مائک پر فجر کی اذان دینے کو منع کیا گیا ہے، یا آواز کی ایک خاص حد رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ہمیں ایسی جگہوں میں قانون کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے، اور جب تک حکومت خود اس میں گفت وشنید کی بنیاد پر ترمیم کیلئے تیار نہ ہو جائے، اپنی چاہت پر اصرار نہیں کرنا چاہئے؛ کیوں کہ مائک پر اذان دینا اور بہت بلند آواز کے ساتھ دور دور تک آواز پہنچانا شریعت کا حکم نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کے دور میں تو مائک ایجاد ہی نہیں ہوا تھا، لوگ بغیر مائک کے ہی اذان دیا کرتے تھے، تو اب مائک اور اس میں بلند آواز کے استعمال پر ایسا اصرار نہیں کرنا چاہئے کہ لوگ اس پر چیں بہ جبیں ہوں، بدخواہوں کو موقع ملے اور مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچے کا خطرہ پیدا ہو جائے۔ 

یہ بھی پڑھئے: عصر حاضر کے انسان کی مایوسی اور اسلامی تعلیمات

(۳) مسجد اور مصلیٰ
 مسجد بنانا بہت نیکی کا کام ہے اور مسلمان بستیوں میں مسجدیں ہونی چاہئیں، یہ ہماری دینی شناخت ہے؛ لیکن بازاروں میں اور سرِ راہ یا غیر مسلم کالونیوں میں بہتر صورت یہ ہے کہ مسجد کی بجائے مصلیٰ بنا دیا جائے اور مسلمان وہاں نماز باجماعت ادا کیا کریں، یہ عمارت مسجد کے حکم میں نہیں ہوگی، اس کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی گنجائش ہے اور دوسرے جائز مقاصد کیلئے بھی اس کا استعمال درست ہے۔ مسجد شرعی کی نیت کرنے کے بعد مسجد کے تمام احکام اس جگہ سے متعلق ہو جاتے ہیں، اور بہت سی دفعہ ان کو برقرار رکھنا اور حفاظت کرنامشکل ہو جاتا ہے۔ 
(۴) قوانین کا ملحوظ رکھا جانا
مسجد اور مدرسہ کی تعمیر میں حکومت اور قانون کی اجازت کو ملحوظ رکھنا چاہئے، جہاں مسجد بنانی ہو، وہاں اس کی قانونی ضرورتوں کو پورا کیا جائے، سرکاری انتظامیہ سے اجازت حاصل کی جائے اور خود تعمیر کے سلسلے میں بھی جو حکومت کے قوانین ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے۔ یہ نہ صرف مسجد کیلئے ضروری ہے؛ بلکہ مدارس اور دینی مقاصد کیلئے کی جانے والی تمام تعمیرات کیلئے بھی ضروری ہے تاکہ بعد میں نقصان، رسوائی، فضیحت اور مذہبی مقامات کی اہانت کی نوبت نہ آئے۔ 
(۵) مدارس کا رجسٹریشن 
 ملک کا دستور ہمیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے؛ اس لئے ایسا نہیں ہے کہ مدرسہ قائم کرنے کیلئے حکومت کی اجازت ضروری ہو، یا اس کا رجسٹریشن کرانا لازمی ہو لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات مناسب ہے کہ کسی ٹرسٹ اور سوسائٹی کے تحت ہی مدارس کا نظام ہو، اس میں قانونی حفاظت بھی ہے، یہ مالی خرد برد اور خیانت کو روکنے کے لئے بھی ضروری ہے اور شریعت میں اجتماعی کاموں کیلئے جو شورائیت مطلوب ہے، اس کے ذریعہ وہ مقصد بھی حاصل ہو سکے گا؛ اس لئے مدارس کے انتظام و انصرام میں شورائیت پیدا کرنی چاہئے، اور اس شورائی نظام کو قائم کرنے کے لئے ان کو رجسٹر کرانا چاہئے۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے، یہ خود مدارس کے لئے ہی مفید ہے جس کو لازم کرلینے کے اپنے فوائد ہیں۔ 
(۶) تعلیمی سہولتیں 
 تعلیمی اداروں کے بارے میں حکومت کے کچھ قوانین ہیں، جن کا مقصد طلبہ کے لئے سہولت پیدا کرنا ہے، جیسے کلاس روم کا سائز، کھیل کا میدان، لائبریری، لوگوں کی تعداد کے لحاظ سے بیت الخلاء وغیرہ، یہ قوانین اصلاً کسی طبقہ کو نقصان پہنچانے کیلئے نہیں بنائے گئے ہیں ؛ بلکہ اساتذہ اور طلبہ کی سہولت کیلئے مقرر کئے گئے ہیں۔ مدارس کو پہلے سے اس پر عمل پیرا ہونا چاہئے؛ کیونکہ یہ ہمارے مفاد میں ہیں، یہ اور بات ہے کہ حکومت خود اپنے اسکولوں میں اس معیار کو پورا نہیں کرتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض دفعہ امتیازی طور پر مسلمانوں کے خلاف ان قوانین کا استعمال کیا جاتا ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے ہمارے لئے لاقانونیت کا جواز پیدا نہیں ہوتا، بالخصوص ایسی لاقانونیت جو انجام کار ہمارے ہی لئے نقصان دہ ہو اور ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ 
(۷) قبرستانوں کے معاملات
  اب قبرستانوں پر بھی قبضے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بڑے شہروں میں قبرستان کی کمی سنگین ہوتی جارہی ہے؛ اس لئے قبرستانوں کی حصار بندی اور جہاں ضرورت محسوس ہو، وہاں چاروں طرف چھوٹی موٹی دوکانوں کی تعمیر حکمت کے نقطۂ نظر سے ضروری سمجھی جائے تاکہ وہ احاطہ بھی بن جائے، قبرستان کے لئے آمدنی کا ذریعہ بھی ہو جائے اور اس آمدنی کو لاوارث اور غریب مسلمان میتوں کی تجہیز و تکفین کیلئے بروئے کار لایا جائے۔ اس طرح اس کے ذریعہ کئی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ 
(۹) دکانوں کا بیمہ: مسلمانوں کی جو دوکانیں مخلوط آبادی کے محلوں میں ہوں، یا عام راہ گزر پر واقع ہوں، مناسب ہوگا کہ وہ ان کا انشورنس کرا لیں ؛ تاکہ کوئی حادثہ پیش آنے پر کچھ نہ کچھ تلافی ہو سکے، جہاں جان ومال کو سخت خطرہ در پیش ہو، وہاں ہندوستان کے علماء نے انشورنس کرانے کی اجازت دی ہے، اگر واقعی وہ خطرہ پیش آئے تو انشورنس کی پوری رقم ان کیلئے جائز ہوگی، اور اگر ایسا نہیں ہوا اور کسی اور وجہ سے نقصان ہوا تو انشورنس کمپنی کی طرف سے ادا کئے جانے والے پیسوں میں سے اپنے نقصان کے بقدر پیسہ لینا جائز ہوگا اور اس سے زیادہ رقم کو غرباء پر یا رفاہی کاموں میں خرچ کرنا واجب ہوگا؛ مگر اس کا یہ فائدہ ہے کہ ایک غریب تاجر اپنے روزگار سے محروم نہیں ہو جاتا۔ 
(۱۰) مصلحتاً راستہ تبدیل کرنا: جان کی حفاظت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جہاں سے گزرنے میں خطرہ ہو یا خصوصی حالات کی وجہ سے بدمعاشوں اور شرپسندوں کے حملے کا اندیشہ ہو تو ان حالات میں اس راستہ سے گزرنے سے بچا جائے، جیسا کہ ابھی کانوڑ یاترا کی وجہ سے دہلی تا ہری دوار مسلمانوں پر حملوں کے واقعات پیش آئے، جانیں گئیں، گاڑیاں جلائی گئیں اور پیسے لوٹے گئے، جب حالات مخدوش ہوں تو ایسے راستوں سے گزرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنے جیسا ہے؛ اسلئے خود ہی اس سے بچنا چاہئے۔ 
(۱۱)شادیوں کے معاملات: اس وقت مسلمان لڑکوں کی غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادی کے واقعات بھی کثرت سے پیش آرہے ہیں، یہ شادیاں جان اور ایمان دونوں سے محروم کرنے کا باعث بن رہی ہیں، اس کے لئے احتیاطی تدبیر بہت ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ مخلوط تعلیمی اداروں میں مسلمان اپنی بچیوں کو پڑھانے سے گریز کریں اور جہاں ملے جلے ماحول میں لڑکیوں کو ملازمت دی جاتی ہے، وہاں ملازمت کرنے سے بھی روکیں، تعلیم اور ملازمت کا مخلوط ماحول ہی ۸۰؍ فیصد سے زیادہ اس برائی کا سبب ہے، اسی طرح لڑکیوں کوموبائل یا لیپ ٹاپ دیں تو نگرانی رکھیں، مسلسل موبائل چیک کرتے رہیں اور اس کو کُھلا رکھیں، لاک کرنے سے بھی منع کریں۔ اپنے لڑکوں پر بھی ایسی نگرانی رکھیں۔ اس طرح ہم بہت سے ناخوشگوار واقعات کو روک سکتے ہیں۔ 
(۱۲) تعلیمی معاملات میں احتیاط: ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے اس کے باوجود اس وقت اسکولوں میں مشرکانہ ترانے پڑھائے جا رہے ہیں، ہنومان چالیسہ بھی پڑھایا جا رہا ہے، اور مختلف مشرکانہ رسوم بھی ادا کئے جا رہے ہیں، ان کا حل یہی ہے کہ ہم خود زیادہ سے زیادہ اسکول کھولیں ، مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، اور جہاں اس میں دشواری ہو، وہاں اچھے معیاری کوچنگ سینٹر قائم کئے جائیں، بچے یہاں سے پڑھ کر پرائیویٹ طور پر یا کسی منظور شدہ اسکول کے واسطہ سے امتحان دیا کریں۔ 
(۱۳)ناانصافی کے خلاف جدوجہد: سخت افسوس کی بات ہے کہ حکومت جس کا بنیادی کام انصاف قائم کرنا ہوتا ہے، وہ کھلّم کھلاّ ناانصافی اور ظلم پر کمر بستہ ہے، ایک ہی محلہ اور ایک ہی کالونی میں کالونی بنانے والا قانونی تقاضوں کو پورا کئے بغیر پلاٹ بیچتا ہے، ہندو مسلم سب پلاٹ خرید کرتے ہیں، پھر زندگی بھر کی بچی پونجی کو جمع کرتے ہیں، اور مکان بناتے ہیں، اور حکومتی کارندے اپنے بلڈوزروں کے ساتھ آتے ہیں اور خاص طور پر مسلمانوں کے مکانات کو مشخص کر کے ان کو زمین بوس کردیا جاتا ہے، ان حالات میں ضروری ہے کہ جو زمین لی جائے، اچھی طرح اس کی قانونی حیثیت کی تحقیق کی جائے، اور بغیر رجسٹری کے زمین نہیں خریدی جائے، اور پھر تعمیر کی باضابطہ اجازت حاصل کر کے ہی تعمیر کی جائے، تعمیر کے بعد مکان نمبر حاصل کیا جائے اور بجلی کا میٹر اور لائٹ کا اجازت نامہ حاصل کیا جائے۔ 
خود حفاظتی نظریہ: غرض کہ ملک کے موجودہ حالات میں ہمیں آپ اپنی حفاظت کی فکر کرنی چاہئے اور ایسی احتیاطی تدبیریں کرنی چاہئے کہ فتنہ وفساد پیش ہی نہ آئیں اور اگر پیش آئے تو پھر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری جرأت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK