اَنا کے معنی ہیں: ’’خود کو عقلِ کُل سمجھنا، اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنا، اپنی ذات کا اسیر ہونا، اسی کو خود بینی،خود رائی، خود ستائی، خود نِگری، خود نمائی اور کِبر و استکبار کہا جاتا ہے۔‘‘
EPAPER
Updated: March 31, 2023, 10:55 AM IST | Muhammad Muneeb ur Rehman | Mumbai
اَنا کے معنی ہیں: ’’خود کو عقلِ کُل سمجھنا، اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنا، اپنی ذات کا اسیر ہونا، اسی کو خود بینی،خود رائی، خود ستائی، خود نِگری، خود نمائی اور کِبر و استکبار کہا جاتا ہے۔‘‘
اَنا کے معنی ہیں: ’’خود کو عقلِ کُل سمجھنا، اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنا، اپنی ذات کا اسیر ہونا، اسی کو خود بینی،خود رائی، خود ستائی، خود نِگری، خود نمائی اور کِبر و استکبار کہا جاتا ہے۔‘‘ اس میں مبتلا ہو کر انسان خود کو معیارِ حق سمجھنے لگتا ہے، آنکھوں پر غیر مَرئی (Unseen) پردہ پڑ جاتا ہے اور حقائق سے انکار یا چشم پوشی شعار بن جاتا ہے۔ یہ نفسانی وصف قبولِ حق اور اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ابلیس کوجب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا، تو اسی خصلت نے اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راندۂ درگاہ کیا۔ قرآنِ کریم میں ہے:
’’اس وقت کو یاد کیجئے: جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں، پس جب اس کی تخلیق مکمل کر لوں اور اپنی طرف سے اُس میں (خاص) روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گر جانا، پس ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، ابلیس نے تکبر کیا اور وہ (علمِ الٰہی میں) کافروں میں سے ہی تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ آدم جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، ابلیس! تجھے اُس کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا، کیا تو نے (اب) تکبر کیا یا تو پہلے ہی تکبر کرنے والوں میں سے تھا، کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے، فرمایا: جنت سے نکل جا، بے شک تو دھتکارا ہوا ہے اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے۔‘‘ (ص: ۷۱؍تا۷۸) الغرض ابلیس نے فرمانِ باری تعالیٰ کو ردّ کرنے کے لئے عقلی استدلال کا سہارا لیا اور یہ نہ جانا کہ کمال کسی چیز کی ذات میں نہیں ہوتا، کمال تو فیضانِ باری تعالیٰ سے نصیب ہوتا ہے، وہ چاہے تو ذرّے کو آفتاب اور قطرے کو سمندر بنا دے، آدم کو مسجودِ ملائک بنا دے اور آگ سے تخلیق کردہ ابلیس کو راندۂ درگاہ کر دے۔
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں: ’’ابلیس کی موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو ابلیس نے کہا: موسیٰ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے رسالت کے لئے چنا ہے اور اپنی ذات سے ہم کلامی کا شرف عطا کیا ہے، میں بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہوں، میں نے اُس کی نافرمانی کی ہے اور اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں، آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میری سفارش کیجئے کہ وہ میری توبہ قبول فرمائے۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے اُس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو جواب آیا: موسیٰ! میں نے تیری حاجت پوری کر دی، پھر موسیٰ علیہ السلام ابلیس سے ملے اور کہا: تجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کی قبر کوسجدہ کر لو، تمہاری توبہ قبول ہو جائے گی، اس نے پھر تکبر کیا اور غضب ناک ہو کر کہا: جس کے آگے میں نے ظاہری حیات میں سجدہ نہ کیا تو کیا میں بعد از وفات اس کو سجدہ کر لوں۔‘‘ (تلبیس ابلیس، ص:۲۹ )
اناپرستی کی نفسیاتی بیماری قبولِ حق اور اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآنِ کریم نے ابلیس سمیت جن سرکشوں کا ذکر فرمایا ہے، وہ اناپرستی ہی میں مبتلا تھے۔ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کا جواز یہ پیش کیا: ’’تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے‘‘، یعنی اُس کی نظر صرف اپنے جوہرِ تخلیق ’’آگ‘‘ پر مرکوز رہی، اُس نے اللہ تعالیٰ کی حکمت کو نظر انداز کر دیا اور کہا: ’’میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے‘‘، اُس نے یہ نہ سوچا کہ کمال نہ ’’شعلۂ نار‘‘ میں ہے اور نہ ’’ذرّۂ خاک‘‘ میں ہے، اللہ کی ذات چاہے تو خاک کے پتلے آدم علیہ السلام کو زیورِ علم و ہدایت سے آراستہ کر کے مسجودِ ملائک بنا دے۔ شیخ سعدی نے کہا ہے:
تکبر عزازیل را خوار کرد=بزندانِ لعنت گرفتار کرد
(ترجمہ)تکبر نے شیطان کو رُسوا کر دیا اور وہ ہمیشہ کے لئے لعنت و ملامت کا نشانہ بنا۔
اسی اَنا نے فرعون کو خدائی کا دعویٰ کرنے پر ابھارا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’اس نے لوگوں کو جمع کر کے کہا: میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ (النازعات:۲۳۔۲۴) ایسا ہی خدائی کا دعویٰ نمرود نے بھی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’(اے رسولِ مکرّم!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم کے ساتھ اس کے رب کے بارے میں اس بات پر جھگڑا کیا کہ (حضرت ابراہیم نے کہا:) اُسے بادشاہت اللہ نے دی ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۵۸) الغرض وہ بادشاہت کو اللہ کی عطا سمجھ کر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس گھمنڈ میں مبتلا ہو گیا کہ یہ اس کا ذاتی کمال ہے اور وہ اپنی ذاتی خوبیوں کی بنا پر اس کا استحقاق رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں یہی شِعار قارون کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے بے پناہ دولت سے نوازا تھا۔ اس کا بیان قرآن کریم میں ہے:’’بے شک قارون، موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا، پھر اُس نے بنی اسرائیل پر سرکشی کی جبکہ ہم نے اُسے اتنے خزانے دیئے جن کی چابیوں کو اٹھانا بھی ایک طاقتور جماعت کے لئے مشکل تھا، جب اُس سے اس کی قوم نے کہا: اترائو نہیں، بے شک اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘ (القصص:۷۶)