• Sun, 07 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسوۂ حسنہ کی روشنی میں زندگی گزارنے کا عہد کیجئے

Updated: September 05, 2025, 1:57 PM IST | Dr. Mujahid Nadwi | Mumbai

جس وقت حضرت محمدﷺ کی مکہ میں بعثت ہوئی ، اس وقت نبوی مشن کے مخالفین کا ایک تقاضہ یہ تھا کہ کوئی فرشتہ ہمارے پاس نبی بناکر کیوں نہ بھیج دیا گیا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

جس وقت حضرت محمدﷺ کی مکہ میں بعثت ہوئی ، اس وقت نبوی مشن کے مخالفین کا ایک تقاضہ یہ تھا کہ کوئی فرشتہ ہمارے پاس نبی بناکر کیوں نہ بھیج دیا گیا۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے مختلف مقامات پر ان کے اس بن سر پیر والےتقاضے کے جوابات دئیے ہیں۔ سورۃ الانعام میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’اور اگر ہم رسول کو فرشتہ بناتے تو اسے بھی آدمی ہی (کی صورت) بناتے اور ہم ان پر(تب بھی) وہی شبہ وارد کردیتے جو شبہ (و التباس) وہ (اب) کر رہے ہیں ۔ ‘‘ (آیت:۹) 
  بالفرض فرشتہ بھی آجاتا تو فرشتہ کی زندگی، اس کے روزمرہ کے معمولات انسانوں سے الگ ہوتے، اور اس طرح انسانوں کو وہ اسوہ اور نمونہ میسر نہیں آتا جس کو دیکھ کر وہ زندگی گزارسکتے۔ کیونکہ تجربہ، مطالعہ اور مشاہدہ یہ سب ثابت کرتے ہیں کہ انسان سننے کے مقابلے میں دیکھ کر کوئی بھی کام بہت جلد سیکھ لیتا ہے۔ پس نبی کو انسانوں کو زندگی کا طریقہ بتلانا تھا، اس لئے ان کا انسانوں میں سے ہونا ہی ضروری تھا۔ 
 اس مصلحت کو سمجھنے کے بعد جب ہمارے نبی اکرمؐ کی سیرت اٹھا کر دیکھتے ہیں تو دل شکر سے لبریز ہوجاتا ہے کہ اللہ عزوجل نے صحابہ کرامؓ کے ذریعہ ریکارڈ سازی کا ایک نظام مرتب کیا، جس میں حضور ؐ کے الفاظ، اعمال، معمولات، شب وروز، آپؐ کی مسکراہٹیں اور ناراضگی، جنگیں ، گھریلو زندگی، آپؐ کے اخلاق حسنہ، آپؐ کا حلیہ ٔ مبارک، غرضیکہ آپؐ کی زندگی کا لمحہ لمحہ ریکارڈ کرلیا گیا۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے اپنی کتاب سیرۃ النبیؐ میں لکھا ہے کہ یہ کوئی مقارنہ اور موازنہ نہیں ہے لیکن اس وقت دنیا میں تین بڑے مذاہب ہیں : عیسائیت، اسلام اور بودھ مت۔ لیکن صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس کے مذہبی رہنما حضرت محمدؐ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بالکل دن کے اجالے کی طرح دنیا کے سامنے موجود ہے۔ 
  اسی طریقۂ زندگی کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک تمہارے لئے رسولؐ اللہ (کی ذاتِ مبارکہ) میں ایک بہترین اسوہ موجود ہے۔ ‘‘ حضرت محمدؐ کے ایک ایک عمل کی تفصیل مسلمانوں کو مل جانے کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر جی جان کے ساتھ عمل کیا جائے اورزندگی اسی راہ پر چل کر گزاری جائے۔ جب ہم اپنی زندگی حضرت محمدؐ کے طریقے پر چل کر گزارنے کی بات کرتے ہیں تو ہماری سب سے بڑی خرابی جو سامنےآتی ہے وہ بقول اقبال ؒ’یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا ہے۔ ‘ یعنی ہم وقتی طور پر ، جذبات میں آنے کے بعد تو سنت نبویؐ کی اتباع کرتے ہیں ، لیکن اس پر استقامت کے ساتھ قائم نہیں رہتے جبکہ قرآن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ’پورے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ ‘ ہم وقتی طور پر، اپنی سہولت کے ساتھ، جتنا ممکن ہوسکے، جتنا وقت مل سکے اتنا ہی آئیڈیل آپؐ کا اپناتے ہیں ، تو پھر یہ مصلحت ہوئی، محبت نہ ہوئی۔ محبت تو وہ ہوتی ہے جو انسان کو بے چین کئے رکھتی ہے اورجب تک انسان اپنے محبوب کے طریقے صد فیصد نہ اپنالے اس کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ 
 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول کریمؐ کی سنتوں کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانے کے لئے کیا کیا جائے؟ اس کا جواب سب سے آسان یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے تو اللہ کے رسول کریمؐ کی حیات ِ مبارکہ کے متعلق معلومات حاصل کریں کہ آپؐ کی زندگی کیسی گزری، آپؐ کی نشست و برخاست کا کیا انداز تھا، رہن سہن کس طرح کا تھا اور طعام و قیام کے آداب کیا تھے۔ 
  آپؐ کا ارشاد گرامی ہے’’بہترین کام درمیانہ ہوتا ہے۔ ‘‘ ہم بھی اپنے اندر سیرت النبیؐ کی اتباع کرنے کی عادت دھیرے دھیرے ڈالیں۔ ایک مدھم رفتار کے ساتھ چلیں۔ اس لئے کہ جو لوگ جوش جذبات میں آکر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں وہ بہت جلد اوب بھی جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو لوگ ٹھنڈے دماغ سے کوئی فیصلہ کرتےہیں اور عقل وہوشمندی کے ساتھ اس پر عمل کرتے ہیں اور مستقل کرتے ہیں وہ بہت جلد راہ یاب ہوجاتے ہیں۔ 
 ہمیں چاہئے کہ اپنی صبح سے لے کر شام تک کی زندگی میں یہ اندازہ لگالیں کہ ہم کس طرح سنت نبویؐ کو اپنا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہر مسلمان کسی نہ کسی حدتک سنت نبوی پر تو عمل کرتا ہی ہے، بس ہم اس میں اضافے کے لئے کیا کرسکتے ہیں اس کی فکر ہوجائے۔ یہ فکر ہم کو اسوۂ نبویؐ کی طرف لے جائے گی۔ چھوٹے چھوٹے اعمال کی سب سے خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان پر عمل کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ انسان کی شخصیت میں جو عادتیں داخل ہوتی ہیں وہ نہایت پائیدار اور مضبوط ہوتی ہیں اور تاحیات انسان کے ساتھ رہتی ہیں ، برخلاف وقتی جوش اور ابال والی عادتوں کے۔ جیسے کسی نے مثال دی ہے کہ ایک مضبوط تناور درخت تیار ہونے کے لئے کئی برس کا عرصہ لیتا ہے لیکن پھرکئی دہائیوں تک اپنی جگہ کھڑا بھی رہتا ہے۔ اس کے برخلاف بیل جوہوتی ہے وہ ایک دو مہینے میں ہی پوری دیوار پر پھیل جاتی ہے لیکن چند ہی مہینوں میں وہ سوکھ بھی جاتی ہے۔ پس اس بات کو ہمیں سنت نبویؐ کو سیکھنے میں اور اس پر عمل کرنے میں لگانا چاہئے۔ اور ابتداء سب سے پہلی اپنی ذات سے کرنی چاہئے کہ ہمارا حال ’سارے جہاں کا جائزہ اپنے جہاں سے بے خبر ‘والا نہ ہو۔ اس لئے کہ دوسروں تک پیغام پہنچانا، یا دوسروں کو میسیج فارورڈ کرنا نہایت آسان کام ہے، لیکن نیکی پر خود عمل کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ اپنی ذات کے بعد اپنے اہل وعیال کی بھی فکر کرنی چاہئے کہ وہ بھی اللہ کے رسول کریمؐ کے بتلائے ہوئے طریقہ پر چل رہے ہیں یا نہیں۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے حکم دیا:’اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے۔ ‘ اوراپنی ذات کو سدھارنے کے بعد یہ دوسرا سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ اگر انسان اپنی اور اپنے گھروالوں کی اصلاح کرسکے اور سنت نبوی کا مزاج بناسکے تو یقیناً پھر اس کا یہ مشن رکے گا نہیں ، وہ اپنے گھر سے باہر بھی یہ خوبصورت پیغام عام کرنے کے لئے وہ بے چین ہواٹھے گا۔ 
 آخری بات یہ ہے کہ آج کل لوگ حالات کا رخ دیکھ کر نہایت پریشان ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہر مسلمان اگر سنت نبویؐ پر چلنے والا بن جائے تو حالات نہایت خاموشی کے ساتھ بدل جائیں۔ ہم کو یقین بھی نہ ہو ایسی راہ سے اللہ کی مدد آجائے۔ اس لئے کہ حالات سے مقابلے کے لئے اللہ عزوجل کی محبت کی ، اس کی رضا کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہمارے خالق و مالک نے اس محبت کو رسول کریمؐ کی اتباع سے جوڑ دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔ ‘‘یہی عیدمیلاد کا پیغام ہے اور یہی نکتہ ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK