Inquilab Logo

محسن انسانیتؐ کے ذریعہ زندگی کو نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی

Updated: October 30, 2020, 11:40 AM IST | Naeem Siddiqui

آپؐ کا ظہور ایسے حالات میں ہوا جبکہ پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ آپ ﷺکی دعوت نے پورے کے پورے اجتماعی انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغۃ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک ، مدرسہ سے عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدان جنگ تک چھا گیا۔

Masjide Nabwi
مسجد نبویؐ

تاریخ کے وسیع دائروں پر نظر ڈالیں تو اس میں ہمیں طرح طرح کے مصلحین دکھائی دیتے ہیں۔ شیریں مقال واعظ اور آتش بیان خطیب سامنے آتے ہیں، بہت سے فلسفہ طراز ہر دور میں ملتے ہیں۔ بادشاہوں اور حکمرانوں کے انبوہ ہمیشہ موجود رہے ہیں جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں۔ جنگجو فاتحین کی داستانیں ہم پڑھتے ہیں۔ جماعتیں بنانے اور تمدن میں مدوجزر پیدا کرنے والوں سے ہم تعارف حاصل کرتے ہیں۔ انقلابی طاقتیں نگاہوں میں آتی ہیں جنہوں نے نقشۂ حیات بار بار زیر و زبر کیا ہے۔ رنگارنگ مذاہب کی نیو ڈالنے والے بکثرت سامنے آتے ہیں۔ اخلاقی خوبیوں کے داعی بھی اسٹیج پر آتے رہے ہیں۔ کتنے ہی مقنن ایوان تہذیب میں جلوہ گر رہ چکے ہیں۔ لیکن جب ہم ان کی تعلیمات، ان کے کارناموں اور ان کے پیداکردہ مجموعی نتائج کو دیکھتے ہیں تو اگر کہیں خیر و فلاح دکھائی دیتی ہے تو وہ جزوی قسم کی ہے۔ اس کے اثرات زندگی کے کسی ایک گوشے پر ابھرتے ہیں۔ پھر خیر و فلاح کے ساتھ طرح طرح کے مفاسد ترکیب پاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انبیاء علیہ السلام  کے ماسوا کوئی عنصر تاریخ میں ایسا نہیں دکھائی دیتا جو انسان کو… پورے کے پورے انسان کو … اجتماعی انسان کو… اندر سے بدل سکا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتماعی انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغۃ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک ،  مدرسہ سے عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدان جنگ تک چھا گیا۔ ذہن  بدل گئے، خیالات کی رو بدل گئی ، نگاہ کا زاویہ بدل گیا، عادات و اطوار بدل گئے، رسوم و رواج بدل گئے، حقوق و فرائض کی تقسیمیں بدل گئیں، خیر و شر کے معیارات اور حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے، اخلاقی قدریں بدل گئیں، دستور اور قانون بدل گیا، جنگ و صلح کے اسالیب بدل گئے، معیشت اور ازدواج کے اطوار بدل گئے اور تمدن کے ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی۔ اس پوری کی پوری تبدیلی میں جس کا دائرہ ہمہ گیر تھا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیر و فلاح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ کسی گوشے میں شر نہیں، کسی کونے میں فساد نہیں، کسی جانب بگاڑ نہیں۔ ہر طرف بناؤ ہی بناؤ، تعمیر ہی تعمیر اور ارتقاء ہی ارتقا ء ہے۔درحقیقت محسن انسانیتؐ کے ہاتھوں زندگی کو نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی اور  حضورؐ نے  مطلع تہذیب کو  ایک نظام حق کی صبح درخشاں سے روشن کرکے بین الاقوامی دور تاریخ کا افتتاح فرمایا۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی۔
  محسن  انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ایسے حالات میں ہوا جبکہ پوری انسانیت تاریکیوں میں  ڈوبی ہوئی تھی… کہیں دور وحشت چل رہا تھا اور کہیں شرک اور بت پرستی کی لعنتوں نے مدنیت کا ستیاناس کررکھا تھا! مصر اور ہندوستان، بابل اور نینوا، یونان اور چین میں تہذیب اپنی شمعیں گل کرچکی تھی۔ لے دے کے فارس اور روم میں تمدنی عظمت کے پھریرے ہوا  میں لہرا رہے تھے۔ رومی اور ایرانی تمدنوں کی ظاہری چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کردینے والی تھی مگر ان شیش محلوں کے اندر بدترین مظالم کا دور دورہ تھا اور زندگی کے زخموں سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ بادشاہ خدا کے اوتار ہی نہیں، خدا بنے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ جاگیردار طبقوں اور مذہبی عناصر کی ملی بھگت قائم تھی۔ روم اور ایران کے دونوں خطوں میں اس تگڑم نے عام انسان کا گلا اچھی طرح  دبوچ رکھا تھا۔ یہ لوگ ان سے بھاری ٹیکس، رشوتیں ، خراج اور نذرانے  وصول کرتے تھے اور ان سے جانوروں کی طرح بیگاریں لیتے تھے۔ لیکن ان کے مسائل سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان کی مصیبتوں میں  ان سے کوئی ہمدردی نہ تھی اور ان کی گتھیوں کا کوئی حل ان کے پاس نہیں تھا۔ بادشاہوں کے ادل بدل، نت نئے فاتحین کے ظہور اور خونریز جنگوں کی وجہ سے حالات میں جو تموج پیدا ہوتا  تھا اس میں بھی کوئی راہ ِ نجات عام آدمی کے لئے نہیں نکلتی تھی۔ عام آدمی کو ہر تبدیلی کی چکی اور زیادہ تیزی سے پیستی تھی۔ ہر قوت اسی کو آلۂ کار بنا کر اسی کا خون صرف کرکے اور اسی کی محنتوں سے استفادہ کرکے اپنا جھنڈا بلند کرتی تھی، اور پھر غلبہ و اقتدار پانے کے بعد وہ پہلوں سے بھی بڑھ چڑھ کر ظالم ثابت ہوتی تھی۔ خود روم و ایران کے درمیان مسلسل آویزش کا چکر چلتا تھا۔ دنیا کے  اکثر حصوں میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ نت نئے ٹکراؤ ہوتے۔ بار بار کشت و خون ہوتے، بغاوتیں اٹھتیں، مذہبی فرقے خونریزیاں کرتے اور ان ہنگاموں کے درمیان انسان بہ حیثیت انسان بری طرح پامال ہورہا تھا۔  وہ انتہائی مشقتیں کرکے بھی زندگی کی ادنیٰ ضرورتیں پوری کرنے پر قادر نہ تھا۔ اسے مظالم کے کولہو میں پیلا جاتا تھا مگر تشدد کی خوفناک فضا میں وہ صدائے احتجاج  بلند نہیں کرسکتا تھا۔ اس کی مایوسیوںاور نامرادیوں کا آج ہم مشکل ہی سے تصور کرسکتے ہیں کہ وہ ماحول کے ایک ایسے آہنی قفس میں بند تھا جس میں کوئی روزن کسی طرف نہیں کھلتا تھا۔ کوئی مذہب اس کی دستگیری کے لئے موجود نہیں تھا کیونکہ انبیاء کی تعلیمات تحریف و تاویل کے غبار میں گم کی جاچکی تھیں اور باقی جو شے مذہب کے عنوان سے پائی جاتی تھی اسے مذہبی طبقوں نے متاعِ کاروبار بنالیا تھا۔  عالم انسانی کے اس تاریخی دور پر قرآن مجید نے چند الفاظ میں ایسا مکمل تبصرہ کیا ہے کہ بڑی سے بڑی عبارت آرائی اس کے سامنے سرنگوں ہے ۔ فرمایا ’’ بحرو بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں۔‘‘ (سورہ روم:۴۱)  
 خود عرب کا قریب ترین ماحول جو حضور ﷺ کا اولین میدان کار بنا، اس کا تصور کیجئے تو دل دہل جاتا ہے۔ وہاں عاد و ثمود کے ادوار میں اور سبا  اور عدن اور یمن کی سلطنتوں کے سائے میں کبھی تہذیب کی روشنی نمودار بھی ہوئی تھی تو اب اسے گل ہوئے مدتیں گزر چکی تھیں۔ ہرطرف ایک انتشار تھا، انسان اور انسان کے درمیان تصادم تھا۔ شراب، زنا اور جوئے سے ترکیب پانے والی جاہلی ثقافت زوروں پر تھی۔ قریش نے مشرکانہ و بت پرستانہ مذہبیت کے ساتھ کعبہ کی مجاوری کا کاروبار چلا رکھا تھا۔ یہود نے کلامی اور فقہی موشگافیوں کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ باقی عرب فکر کے لحاظ سے ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا۔ مکہ اور طائف کے مہاجنوں نے سود کے جال پھیلا رکھے تھے ۔ غلام سازی کا منحوس ادارہ دھوم دھڑلے سے چل رہا تھا۔ حاصل مدعا یہ کہ انسان خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گر کر درندوں اور چوپایوں کی شان سے جی رہا تھا ۔ القرآن:’’کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ (نہیں) وہ تو چوپایوں کی مانند (ہو چکے) ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں۔‘‘ (الفرقان:۴۴)
 یہ تھے حالات جن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم عظیم ترین تبدیلی کا پیغام لے کر یکہ و تنہا اٹھتے ہیں۔ ایسے مایوس کن حالات میں کوئی دوسرا ہوتا تو شاید زندگی سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ دنیا میں ایسے نیک اور حساس لوگ بکثرت پائے گئے ہیں جنہو ںنے بدی سے نفرت کی مگر وہ بدی کا مقابلہ کرنے پر تیار نہ ہوسکے اور اپنی جان کی سلامتی کے لئے تمدن سے کنارہ کش ہوکر غاروں اور کھوہوں میں پناہ گزیں ہوگئے۔ مگر حضورؐ نے انسانیت کی نیّا کو طوفانی موجوں میں ہچکولے کھاتے چھوڑ کر اپنی جان بچانے کی فکر نہیں کی بلکہ بدی کے ہلاکت انگیز گردابوں سے لڑ کر ساری اولادِ آدم کے لئے نجات کا راستہ کھولا،  تمدن کی کشتی کی پتوار سنبھالی اور پھر اسے ساحلِ مراد کی طرف رواں کردیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK