Inquilab Logo

عید قرباں اور جذبۂ ایثار و قربانی

Updated: June 30, 2023, 8:57 AM IST | Mumbai

عید الاضحی محض تہوار یا رسم نہیں ہے۔ یہ ایک یاددہانی ہے، ایک پیغام ہے، ایک سبق ہے۔ اس سبق کا اعادہ صرف یوم عید الاضحی پر نہیں، سال بھر یعنی سال کے بارہوں مہینے ہر خاص و عام پر لازم ہے۔

eid ul adha
عید الاضحی

عید الاضحی محض تہوار یا رسم نہیں ہے۔ یہ ایک یاددہانی ہے، ایک پیغام ہے،  ایک سبق ہے۔ اس سبق کا اعادہ صرف یوم عید الاضحی پر نہیں، سال بھر یعنی سال کے بارہوں مہینے ہر خاص و عام پر لازم ہے۔ اس تناظر میں عید الاضحی کے تین دنوں میں پیش کی جانے والی قربانی بھی رسم نہیں ہے۔ یہ ذریعہ ہے جذبۂ ایثار پیدا کرنے اور مستحکم کرنے کا، یہ ذریعہ ہے اپنے جذبے کے محاسبے کا کہ کہیں وہ جذبہ مفقود یا محدود تو نہیں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس جذبے کو بروئے کار لانے میں جانبداری برتی جارہی ہے یعنی ایثار تو ہے مگر اپنے اہل خانہ اور اہل خاندان کیلئے، بس؟ ہماری تعلیمات میں جذبۂ ایثار کے بروئے کار لائے جانے کیلئے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ صرف قریب ترین رشتے داروں کیلئے ہو۔ یہ جذبہ سب کیلئے ہونا چاہئے، بہتے پانی کی طرح جو سب کیلئے ہوتا ہے اور سب کی پیاس بجھاتا ہے۔ 
 دورِ حاضر میں اس سبق کو یاد رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے کیونکہ خاندانوں کے بٹ جانے اور چھوٹی چھوٹی اکائیوں (نیوکلیئر فیملی) میں تبدیل ہوجانے کے سبب خود کو ’’اپنا گھر، اپنے بال بچے‘‘ تک محدود رکھنے کا رجحان اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے دیگر اعزاء، پرانے پڑوسیوں اور جان پہچان کے دیگر لوگوں کو بڑی حد تک فراموش کردیتے ہیں۔ کتنے ہی خاندان ایسے ہیں جن کے افراد کی ملاقاتیں یا تو شادی بیاہ کی تقریبات میں ہوتی ہیں یا کسی عزیز کے گزر جانے پر۔ جب خونی رشتوں کی ناقدری عام ہوتی جا رہی ہو تو دیگر اعزہ اور متعلقین کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے کہ اُن کی خبر گیری اور اُن کیلئے کچھ کرنے کی کتنی گنجائش ہماری زندگیوں میں  باقی رہ گئی  ہے؟ اسی روش کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ معاشرہ کے مستحق افراد کی فکر  بڑی حد تک مفقود ہے۔ جب ہم قریب ترین عزیزوں کے علاوہ کسی کو جانتے ہی نہ ہونگے تو اُس کے مشکل وقت کا علم کیسے ہوگا اور استطاعت کے باوجود اُس کی مشکل آسان کرنے کی ہمیں توفیق کیسے ہوگی؟ معاشرہ میں ایسے افراد ہونگے بھی تو بہت کم جو مہینے دو مہینے میں ایک بار ہی سہی غیر متعلقین کی خبر گیری کیلئے بھی گھر سے نکلتے ہوں جبکہ دیگر مذاہب کے افراد کو بہتوں نے دیکھا ہوگا کہ  پھل اور دیگر غذائی اشیاء لے کر اسپتال پہنچتے ہیں اور ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہوکر مریضوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہ جذبۂ خیر ہم میں سے کتنوں کے پاس ہے؟ جو بندگان خدا مریضوں کے بڑے طبی اخراجات کیلئے اپنی جیب خاص سے کثیر رقم خاموشی سے فراہم کردیتے ہیں وہ لائق ستائش ہیں، وہ  اس گفتگو سے مستثنیٰ ہیں۔
 ہمارے اسلاف کا طریقہ یہ تھا کہ دوسرے وقت کیلئے کچھ بچا کر نہیں رکھتے تھے۔ ہم اس حد تک بخیل ہیں کہ سب کچھ تو کیا تھوڑا بہت بھی ضرورتمندوں کو دینے کے روادار نہیں ہوتے۔ جو لوگ فراخدل واقع ہوئے ہیں اُن کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہے کہ دست تعاون اُس کی جانب دراز کرتے ہیں جو دست سوال دراز کرتا ہے، اُن لوگوں کی کیفیت جاننے کی کوشش نہیں کرتے جنہیں، ضرورتمند ہونے کے باوجود دست سوال دراز کرنے کی عادت نہیں یا وہ اشارے کنائے میں اپنی بات کہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا مذہب ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی  اور تقسیم ِ دولت کی حوصلہ افزائی کرتا  ہے۔ اگر ہم ضرورتمندوں کی اُس طرح مدد کریں جس طرح مدد کرنے کا حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس قوم کی مالی حالت دگرگوں رہے ، اس کے نوجوان تعلیم سے بے بہرہ رہیں اور اس کی مجموعی شبیہ پر سوال اُٹھے۔             n

bakri eid Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK