’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: June 11, 2025, 1:28 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔
سب سے اہم قربانی نفس کی قربانی ہے
مذ ہب اِسلام کی بنیا د ہی قربانی پر ہے۔ دینِ اِسلام میں جان اور مال کی قربانی پر کافی زور دیا گیا ہے۔ سُنتِ اِبراہیمی سے اللہ رَبُ العز ت نے ہمیں قربانی کی اہمیت کا احساس دلایا۔ قرآ نِ کریم میں رب کائنات نے اُس کا ذ کر فرمایا ہے۔ سب سے اہم قربانی نفس کی قربانی ہے۔ یہی ایک زبردست آزمائش ہے۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اِنسان بُری چیز کی جانب فوراً متوجہ ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں حواس خمسہ کے جائز اور درست استعمال کر نے کی تاکید کی ہےاور قرآن کریم میں اُسکے صحیح اِستعمال کی جا بجا تلقین بھی فر مائی ہے۔ اِس روئے زمین پر فی الوقت عُر یا نیت کا ماحول ہے۔ یہ عریانیت آنکھو ں کو گناہ کر نے پر آمادہ کر تی ہیں۔ اِس گناہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا یہ بھی قربانی ہے۔ حضرت محمدؐکے ذریعے جو تعلیم ہم تک پہنچائی گئی ہے اُس میں سب سے اہم تعلیم نفس کی قربانی ہے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں پانچ قوتیں عطا فرمائی ہے۔ اُن کے غلط اِستعمال سے ذِلت و رسوائی ہمارا مقدر بن جاتی ہےلہٰذا رب کائنات کی بارگاہ میں دُعا گو ہوں کہ وہ نفس کے غلط اِستعمال سے ہماری حفاظت فرمائے، اُسی میں ہمارے لئے بے پناہ عافیت ہے۔
پرنسپل (ڈاکٹر)محمد سہیل لو کھنڈوالا(سابق ایم ایل اے)
ہر موقع پر اللہ کے احکامات کی پیروی کرنی ہے
قربانی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے حضرت اسماعیلؑ کی طلب کی تھی اور وہ اس پر کھرے اترے تو جنت سے ایک دنبہ پیش کیا گیا اور حضرت ابراہیم ؑ نے اس کی قربانی کی۔ اللہ تعالیٰ تک ہماری قربانی کا نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون اور نہ اسے اس کی طلب ہے اور اگر اللہ چاہتے تو جس طرح حج زندگی میں ایک مرتبہ واجب کیا ہے قربانی کو بھی زندگی میں ایک ہی مرتبہ واجب قرار دیتے لیکن انہیں حضرت اسماعیل ؑ اور ابراہیم ؑ کی سنت کا ہر سال اعادہ جاری رکھنا تھا اور اپنے بندوں کی یاد دہانی کرانی ہے کہ قربانی صرف جانور کی نہیں کرنی ہے بلکہ ہر حال میں اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنی ہے چاہے وہ حقوق اللہ کا معاملہ ہو کہ یا حقوق العباد کا۔ اب ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے دن کا آغاز نماز فجر سے ہوتا ہے یا نیند کے لئے نماز کی قربانی دیتے ہیں۔ اسی طرح حقوق العباد کے معاملے میں ہم جانتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے۔ مثلاً وکیل صاحب اصرار کر رہے ہیں مقدمہ یوں جھوٹ کے ساتھ درج کردو تو جیت جاؤ گے ورنہ حقیقت بیانی سے مقدمہ ہار جاؤ گے۔ اب یہاں ہمیں حق گوئی کا ساتھ دینا ہے اور دروغ گوئی کی قربانی دینا ہے۔ اس طرح ہمیں زندگی بھر اللہ کے احکامات کے مطابق عمل کرنا ہے۔
ابو حنظلہ (پونے)
حضرت ابراہیم ؑکی یاد گار قربانی رسم نہیں ہے
عیدالاضحیٰ میں قربانی حضرت ابراہیمؑ کی اللہ سے محبت اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی عظیم مثال ہے۔ اللہ کے حکم پر اپنے لخت جگر اسماعیلؑ کو قربان کرنے کی فیصلے کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم ؑکی یاد گار قربانی رسم نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے مسلمانوں کو اللہ کی رضا کیلئے اخلاص اور عمل کا پیغام دیا گیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ جانوروں کی قربانی کے ساتھ ساتھ سنت ابراہیمیؑ کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے اپنے دلوں میں جذبہ ابراہیمیؑ پیدا کریں۔ ہماری قربانیاں اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوں۔ قربانی ایک ایسا فریضہ اور مبارک عمل ہے جس کے ذریعے ہر پہلو سے قربانی کا پیغام عام ہو۔ قربانی کسے کہتے ہیں ؟اس کا اظہار ہو۔ محض جانور ذبح کرنے کا نام قربانی نہیں ہے بلکہ ایک عظیم فلسفہ ہے۔ یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم اس کی روح کو سمجھیں اور اپنے عمل سے اس کا پیغام عام کریں۔ اس کے علاوہ ملک کے موجودہ حالات سے بھی ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے۔ شر پسند عناصر ہمہ وقت منفی سوچ رکھنے اور ایسا ماحول تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ ی جا سکے اور ان کو نشانہ بنایا جا سکے۔ ایسے میں ہمیں محتاط رہنا چاہئے اور قربانی کا جذبہ پید اکرنا چاہئے۔
رستم عبداللطیف پٹھان (سابق معلم ممبرا)
قربانی: نفس کی جیت، انسانیت کی خدمت
قربانی ہمیں نہ صرف عبادت کا پیغام دیتی ہے بلکہ عملی زندگی میں ایثار، تقویٰ اور خلوص اپنانے کی دعوت بھی دیتی ہے۔ یہ عمل حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکو قربان کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کے اس جذبۂ اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یادگار بنا دیا۔ قربانی کا مفہوم صرف جانور ذبح کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار زندگی کے ہر گوشے کو محیط ہے۔ والدین اپنی نیند، آرام اور خواہشات قربان کر کے اولاد کی تربیت کرتے ہیں۔ استاد اپنے وقت اور توانائی کو قربان کر کے علم بانٹتا ہے۔ ایک سپاہی وطن کی حفاظت کے لئے اپنی جان نچھاور کرتا ہے۔ یہ سب قربانی کی زندہ مثالیں ہیں۔ درحقیقت قربانی کا اصل مفہوم یہی ہے کہ انسان اپنے مفاد کو پیچھے رکھ کر دوسروں کی بھلائی کے لئے جئے۔ آج کے دور میں جہاں خودغرضی، مادہ پرستی اور انا پرستی عام ہو چکی ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم قربانی کے اس جذبے کو اپنی عملی زندگی میں شامل کریں۔ ہمیں اپنی خواہشات، آرام اور مال کو دوسروں کی خدمت، دین کی ترویج اور اللہ کی رضا کے لئے وقف کرنا سیکھنا چاہئے۔ رسول ؐ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ‘‘ یہ بھی قربانی ہی کی ایک صورت ہے کہ انسان اپنی زبان، رویے اور اعمال کو اس حد تک قابو میں رکھے کہ دوسروں کو راحت اور امن حاصل ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ قربانی صرف ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو ہماری روحانی، اخلاقی اور سماجی زندگی کو نکھارتا ہے۔ اگر ہم حضرت ابراہیم ؑ کی اطاعت اور رسولِ اکرمؐکی سنت کو دل سے اپنائیں اور اپنی زندگیوں میں ایثار، تقویٰ، اخلاص اور عاجزی کو جگہ دیں تو یہی قربانی کا حقیقی مفہوم ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔
مولانا حسیب احمد انصاری (انچارج عربک ڈیپارٹمنٹ آف حراء انگلش اسکول اینڈ جونیئر کالج)
قربانی ایک عظیم فلسفہ ہے
اللہ رب العزت کو قربانی بہت پسند ہےاور جو عمل اللہ کو پسند ہو وہ رب کی قربت کا ذریعہ ہے۔ قربانی اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہے۔ مومن بندے کی مغفرت کا سبب ہےاور اللہ کے ساتھ عشق و محبت کا مظہر ہے۔ قربانی ایک ایسا فریضہ اور مبارک عمل ہے جس کے ہر پہلو سے قربانی کا پیغام عام ہونا چاہئے۔ قربانی کی مقصدیت کا اظہار ہونا چاہئے۔ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے، قربانی ایک عظیم فلسفہ ہے۔ اور اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے اس کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ روح میں اتر جانے کے بعد اپنے کردار وعمل سے قربانی کے پیغام کو عام کریں ، یہ ہمارا شعار ہونا چاہئے۔ حضرت ابرہیم کی اس قربانی میں ہماری معاشرتی زندگی کیلئے عظیم اسوہ موجود ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت میں ایک باپ کے لئے، حضرت اسماعیلؑ کی صورت میں ایک بیٹے کے لئے اور حضرت ہاجرہؑ کی شکل میں بیوی اور ماں کیلئے عظیم اسوہ اور نمونہ ہے۔ باپ کی محبت اور حق کے خاطر ہر محبت کو قربان کرنا، بیوی کی فرمانبرداری اور حق کے معاملے میں ہر نفاق سے گریز کرنا اور اطاعت گزار و فرمانبردار اولاد کی معراج حضرت اسماعیل کے اندر بدرجہ اتم نظر آ تی ہے۔ آ ج ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہماری اولاد اس راہ پر چل رہی ہیں ؟ کیا ہم انہیں وہ تربیت دے رہے ہیں ؟ کیا ہم ایک باپ کا کردار نبھا رہے ہیں ؟ بیوی کی فرمانبرداری اور حق کے لئے ہمارا رویہ کیا ہے؟ آ ج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان عظیم ہستیوں کی پیروی کریں ، ان کے کردار وعمل کے مطابق زندگی گزاریں اور اپنے لئے اسوہ بنائیں ۔ بقول علامہ اقبال:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آ گ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
مقصود احمد انصاری (سابق معلم رئیس ہائی اسکول و جونیئر کالج بھیونڈی)
زندگی عظیم نتائج کے لئے عظیم قربانی کا تقاضا کرتی ہے
ہمیں اپنی زندگی میں قربانی کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے باپ اور بیٹے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی زندگی کے طرز عمل کو بار بار پڑھنا، سمجھنا اور اس سے روشنی حاصل کرنا ہوگاکہ کس طرح اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ابراہیم ؑ اپنی محبوب ترین شے کو الله کے حضور پیش کرنے کے لئے نہ صرف تیار ہو گئے ;بلکہ پیش کر کے تا قیامت ایک نظیر قائم کردی اور اس عمل میں اپنے فرمانبردار بیٹے کو سر تسلیم خم کئے ہوئے پایا، یہ قربانی ہمیں اس بات کی تحریک دیتی ہے کہ یہ زندگی عظیم نتائج اور بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لئے عظیم قربانی کا تقاضا کرتی ہےاور اس کے لئے صبر جمیل کے ساتھ کٹھن اور طویل و دشوار کن راستے پر چلنا پڑتا ہے۔ جہاں تک قربانی اور اس تقاضوں پر عمل کا تعلق ہے تو عید قرباں کے موقع پر قربانی پر ہمارا عمل تو ہوتا ہے لیکن یہ قربانی ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے؟ اس کے تعلق سے بڑی کمیاں اور کوتاہیاں ہیں، آنے والے دنوں میں ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ قربانی ایک زندگی کے لئے عمل مسلسل ہے اور قربانی ہی سی زندگی میں معنویت اور حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اس موقع ہر صاحب استطاعت کی عموما ًیہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ حتی المقدور اچھا، خوبصورت اور تندرست و توانا جانور اللہ کے حضور پیش کرے اور وہ کرتا بھی ہےمگر اس کے بعد غربا ءو مساکین اور قربانی نہ کر پانے والوں کے درمیان گوشت دینے اور کھانے کھلانے کے عمل میں انصاف سے کام نہیں لے پاتا ہےجس سے وہ قربانی کی روحانیت اور اس کے اصل مقصد سے محروم ہو جاتا ہے اور اپنا محبوب مال جانور کی شکل میں قربان کر کے بھی قربانی کے اصل روح تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔
سعیدالرحمان محمد رفیق (گرین پارک روڈ شیل تھانے)
قربانی ہی زندگی کی کامیابی کا سرچشمہ ہے
عیدالضحی میں قربانی بہت اہمیت رکھتی ہے جو سنت ابراہیمی ہے۔ اللہ کی رضا کے لئے جان و مال کی قربانی دینا اصل مومن کی پہچان ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے فرزندعزیز حضرت اسماعیلؑ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے قربان کرنے کا واقعہ امت مسلمہ کے لئے ایک بڑا سبق ہے۔ بے شک قربانی ہی زندگی کی کامیابی اور کامرانی کاسرچشمہ ہےاور حکم خداوندی کی اطاعت کا بے مثال نمونہ ہے جس کی یاد تازہ کرنے کے مقصد سے اللہ نے مسلمانوں کے لئے قربانی کو واجب قرار دیا ہے۔ قربانی کی ہماری زندگی میں جو اہمیت ہے اسے الفاظ میں بیان کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بے شک میری عبادت اور میری قربانی اور میرامرنااورجیناسب کا سب الله رب العالمین کے لئے ہے۔ دراصل عیدالاضحی کے دن جو جانور ذبح کیاجاتا ہے وہ ذاتی قربانی کی علامت ہے وہ ذاتی قربانی کا عملی یا علامتی عہد ہے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو روزمرہ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
اقبال احمد خان دیشمکھ (مہاڈ، رائےگڑھ)
پہلے نماز ہے پھر قربانی
آج ریاکاری کچھ زیادہ ہی ہے۔ لوگ مہنگے اور کئی کئی جانور کی قربانی کرتے ہیں لیکن جن کے یہاں قربانی نہیں ہے، انکے گھروں میں گوشت نہیں پہنچ پاتا۔ یہ بڑے افسوس ناک بات ہےکہ وہ علماء اور مساجد کے امام جو قربانی کی اہمیت بتاتے ہیں لیکن کم تنخواہوں کی وجہ سے خود قربانی نہیں کر پاتے ان کے گھر بھی گوشت نہیں پہنچ پاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں قربانی کی اہمیت اور جذبہ تو ہے لیکن ان کی زندگی میں نمازِ کی اہمیت نہیں ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے نماز پھر قربانی(فصل لربک وانحر)۔
مولانا عادل ندوی( چکھلی، پونے)
عمل کچھ بھی نہیں ہے، آثار اچھے نہیں ہیں
ہماری زندگی میں قربانی کی بہت اہمیت ہے۔ ایک کامیاب مسلم کی پوری زندگی قربانی دیتے ہوئے گزرتی ہے۔ قربانی کا مفہوم وسیع ہے۔ حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیلؑ کے واقعہ میں بے شمار درس موجود ہیں۔ ہمیں ان واقعات سے درس لینا چاہئے، تبھی ہم ایک کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں اور اخروی زندگی میں بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن آج کے حالات کو دیکھنے اور سننے سے پتہ چلتا ہے کہ عمل کچھ بھی نہیں ہے۔ عمل نہ کرنے کی بناء پر ہم ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔ ہماری کوئی بھی دعا قبول نہیں ہو رہی ہے۔ ہم نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا چھوڑ کر دکھاوا شروع کر دیا ہے۔ علماء کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے تو ہماری دعائیں کیسے قبول ہونگی ؟ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ دین اسلام کی ہدایتوں پر عمل نہ کرنے کی بناء پر کہیں معزول نہ کردیئے جائیں اور ہماری جگہ نئے لوگ دین کی فلاح وبہبود کی باگ دوڑ سنبھالیں۔ آثار تو ایسے ہی نظر آ رہے ہیں۔
مرتضیٰ خان (نیا نگر، میرا روڈ)
قربانی انسان کے جذبۂ ایثار، محبت، خلوص اور وفاداری کی علامت
قربانی کا مفہوم صرف جانور ذبح کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ قربانی انسان کے جذبۂ ایثار، محبت، خلوص اور وفاداری کی علامت ہے۔ ہماری زندگی میں قربانی کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دوسروں کی بھلائی اور فلاح کے لئے اپنی خواہشات، وقت، مال اور حتیٰ کہ آرام بھی قربان کرتے ہیں۔
اسلام میں قربانی ایک اہم عبادت ہے جو حضرت ابراہیمؑ کی سنت کی یاد دلاتی ہے، جب انہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا ارادہ کیا۔ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں بھی قربانی کا عمل ہمیں ایک بہتر انسان بننے میں مدد دیتا ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کے لئے، اساتذہ اپنے طلباء کے لئے اور سپاہی اپنے وطن کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ اگر ہم سب اپنی زندگیوں میں ایثار، برداشت اور قربانی کا جذبہ پیدا کریں توایک پرامن، خوشحال اور متحد سماج وجود میں آسکتا ہےلہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم قربانی کو صرف ایک مذہبی رسم نہ سمجھیں بلکہ اپنی عملی زندگی میں بھی اس کا مظاہرہ کریں تاکہ ایک بہتر اور انسان دوست معاشرہ تشکیل پا سکے لیکن آج کے معاشرے میں جانور ذبح کرنا اور کس کا جانور کتنا بڑا ہو؟ کتنا قیمتی ہو؟ اس عمل کو بہترین قربانی مانا جاتا ہے۔
رضوان سید سر(کلیان )
قربانی انسان کی پوری زند گی کا احاطہ کرتی ہے
قربانی محض جانور کے ذبح کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسی عظیم الشان روحانی حقیقت ہے جو انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ جذبہ ایثار، بے غرضی اور بلند مقصد کے لئے اپنی خواہشات کو قربان کر دینے کا نام ہے۔ مذہب، قوم اور معاشرے تینوں محاذوں پر قربانی کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ دینِ اسلام کی بنیاد ہی قربانی پر رکھی گئی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی بے مثال قربانی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ رب کی رضا کے لئے اپنی سب سے محبوب چیز کو بھی بخوشی قربان کیا جائے۔ آج ہم نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ سب میں اسی قربانی کی روح تلاش کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کیا ہم واقعی اپنی انا، وقت، آرام اور خواہشات کی قربانی دے کر دین کے تقاضے پورے کرتے ہیں ؟ایک مضبوط قوم وہی بنتی ہے جس کے افراد ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کر دیں۔ آزادی کی جنگ ہو یا آج کا تعلیمی اور معاشی میدان قومی ترقی کے لئے ہر فرد کو قربانی دینی ہوتی ہے مگر افسوس! ہماری اکثریت صرف لینے کی خواہشمند ہے، دینے کا حوصلہ کم کم نظر آتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں قربانی کا مطلب ہے دوسروں کے لئے آسانی پیدا کرنا، اپنے حقوق کی ضد چھوڑ کر دوسروں کے فرائض میں ہاتھ بٹانا۔ اگر ہر فرد دوسروں کے لئے کچھ چھوڑ دے تو جھگڑے، اختلافات اور نابرابری کے سائے چھٹ جائیں۔ لیکن ہم تو چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لئے بڑے اصولوں کو قربان کر دیتے ہیں۔ ہم قربانی کی بات تو خوب کرتے ہیں، خطبے دیتے ہیں، جذباتی مثالیں دہراتے ہیں لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ قربانی صرف عید پر کی جانے والی رسم نہیں، یہ ایک مسلسل طرزِ زندگی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم دین، قوم اور معاشرے کے لئے واقعی کتنی قربانی دے رہے ہیں ؟
یوسف خان( مالیگاؤں )
قربانی نفس پر قابو پانے کی مشق
قربانی ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف مذہبی فریضہ ہے بلکہ اخلاقی، سماجی اور روحانی اعتبار سے بھی ایک بلند درجہ رکھتی ہے۔ قربانی انسان کو دوسروں کے لئے کچھ کرنے، اپنے مفاد کو پسِ پشت ڈالنے اور محتاجوں، غریبوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس عمل سے معاشرتی ہم آہنگی، بھائی چارہ اور عدل کو فروغ ملتا ہے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم اپنی خواہشات، لالچ اور دنیاوی مفادات پر قابو پائیں اور اللہ کی رضا کو مقدم رکھیں۔ ہم اس پر کتنا عمل کرتے ہیں ؟یہ سوال ہر انسان کو خود سے پوچھنا چاہئے، کیونکہ بہت سے لوگ اس کے روحانی اور اخلاقی پیغام کو سمجھےبغیر صرف رسم و رواج کے طور پر قربانی کرتے ہیں۔ کئی بار ہم صرف جانور کی قربانی کرتے ہیں لیکن اپنے نفس، غرور، حسد اور خودغرضی کی قربانی نہیں کرتے۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں قربانی کے فلسفے پر عمل کریں تومعاشرہ زیادہ پرامن، مساوات پر مبنی اور ہمدرد بن جائے گا۔
مومن ناظمہ محمد حسن (لیکچرر گیان سادھنا کالج، تھانے)
قربانی: نفس کی پاکیزگی کا باعث
عید کا موسم بڑا خوشنما اور دل کو سکون بخشنے والا ہوتا ہے۔ ویسے تو عیدالفطر اور عیدالضحیٰ دونوں کی اپنی اپنی خوبیاں ہیں۔ روزوں کے وجہ سے عید الفطر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے باوجود عیدالاضحیٰ بھی کچھ کم حیثیت نہیں رکھتی۔ اس عید میں بھلے ہی ہم روزے نہ رکھتے ہوں اور نہ ہی چاند کا بے صبری سے انتظار کرتے ہوں۔ ان تمام وجوہات کے باوجود اس عید کا اصل مقصد قربانی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ یہاں قربانی سے مراد نہ صرف جانور کی قربانی ہے بلکہ اپنے نفس کی قربانی بھی ہے۔ اپنے اندر بسی ان بری عادتوں کو ترک کرکے ایک نئی زندگی اپنانے کی قربانی ہے۔ اپنی خواہشات سے آگے بڑھ کر دوسروں کے لئے کچھ کر گزرنے کی قربانی ہے۔ جس طرح ہم اپنی زندگی کی کامیابی کے لئے خواہشمند ہے، اسی طرح دوسروں کی زندگی کو بہتر بنانا بھی ایک قربانی ہے۔ اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قربانی کا اصل مقصد اپنے نفس کی پاکیزگی ہی ہیں۔
جوّاد عبدالرحیم قاضی(ساگویں، راجاپور، رتناگیری)
ہر قربانی کے پیچھےکوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے
قربانی ایک مختصر لفظ ہے لیکن انسانی زندگی میں اسکی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اسکی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور مختلف انداز میں پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھےکوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ انسان جو اپنی زندگی میں مختلف مسائل میں الجھا ہوتا ہے، اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے۔ انسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے جو تقرب الٰہی اور کیفیت تقویٰ کےبغیر ممکن نہیں اور تقرب الٰہی، کیفیت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی لہٰذا اطاعت کیلئے قربانیضروری ہے۔ واضح ہے کہ اللّہ کو مقصود ان کے جانوروں کا خون یا ان کا گوشت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ خدا پر کس قدر یقین رکھتے ہیں اور اسکے احکام کی کس قدر پابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقت ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اس عید کا مقصد صرف جانوروں کے قربانی کے گوشت جمع کرنا نہیں ہے بلکہ اس عید کا اصل مقصد روح اور اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہے۔
ایم پرویز عالم نور محمد ( رفیع گنج، بہار)
دکھاوے کی سنّتِ ابراہیمی کی پیروی
عید الاضحی اسی کا نام ہے کہ ایک یا ایک سے زائد جانور قربان کئے جائیں اور ان کا گوشت مستحقین میں تقسیم کیا جائے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یقیناً ہم قربانی کی سچی خوشی حاصل کرسکتے ہیں مگر فلسفۂ قربانی کے پس منظر، قربانی کے مقاصد اور قادرِ مطلق کے الطاف و اکرام پر نگاہیں مرکوز رکھی جائیں تاکہ یہ احساس دل میں ضرور موجود رہے کہ آخر کون سا جذبہ تھا کہ جس نے ایک ضعیف باپ کو اپنی جوان ہوتی اکلوتی اولاد کو گلے پر چھری چلانے کی ہمت و سعادت عطا کی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ قربانی کے فریضہ کی ادائیگی بھی اب بیشتر حالات میں محض ایک نمائش بن کر رہ گئی ہے۔ ہم دکھاوے کی سنّتِ ابراہیمی کی پیروی کرنے لگے ہیں جبکہ یہ بات نہایت واضح الفاظ میں کہہ دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے کے جانور کو نہیں اس کی نیت کو دیکھتا ہے۔ بلاشبہ جانور کے انتخاب میں بھی اس کے تندرست اور فربہ ہونے کی تاکید کی گئی ہے لیکن اس سے زیادہ نیت پر زور دیا گیا ہے۔
شکیل مصطفیٰ( مالیگاؤں )
قربانی انسانی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتی ہے
بچپن والدین کی قربانیوں کے سہارے گزرا۔ بڑے ہوئے تو بھائی اور بہنوں کی قربانی نے پیروں پر کھڑے ہونا سکھایا اور پھر جب ہماری زندگی دنیوی حالات کے مطابق گزرنے لگی تو ساری قربانیوں کے قرض اتارنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوں زندگی نے قربانی کو بچپن سے لے کر اب تک ہمارے لئے لازم بنادیا اور ویسے بھی قربانی انسانی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتی ہے جو جس طرح کی قربانی کے متحمل ہو، اُسکی انجام دہی میں اُسے خُلوص کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ کچھ لوگ معاشی قربانی کے محتاج ہوتے ہیں۔ کچھ اپنوں کے وقت کی قربانی کے محتاج ہوتے ہیں۔ خدمت خلق کو اپنا نصیب العین بنانا بھی بہت بڑی قربانی کہلاتا ہے۔ آجکل کی نئی نسل قربانی کے عمل سے دورہوتی جا رہی ہے۔ خود پرستی کی وباء نے خدمت خلق کے جذبے کو سرد خانوں میں ڈال دیا ہے اور قربانی کا جذبہ دھیرے دھیرے کمزور پڑتا جارہاہے۔ آج کی دشوار گزار زندگی میں عوام کے تئیں مثبت سوچ بھی ہمیں قربانی کے اعلیٰ معیار پر فائز کرسکتی ہے۔ مصروفیت نے لوگوں کو ایک دوسرے کی تکلیفیں سمجھنے سے دور کردیا ہے۔ الغرض انسان کو اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کے لئے بھی ہوسکے تو ہمیشہ مال کے ذریعے، اوقات کے ذریعے قربانی کے جذبے کو زندہ رکھنا چاہئے۔
محمد سلمان شیخ (تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی )
ہر صاحب استطاعت کی طرف سے قربانی ہونی چاہئے
افسوس کہ بعض لوگ صاحب استطاعت ہوکر بھی قربانی کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ بعض افراد کرتے بھی ہیں تو نام و نمود اور دکھاوا مقصود ہوتا ہے۔ ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے کہ سارے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکرا اور بس، سمجھتے ہیں کہ سب کی طرف سے ادا ہوگئی۔ علمائے کرام سے رجوع کرکے معلوم کریں کہ کیا یہ صحیح ہے یا غلط؟ ہر صاحب استطاعت کی طرف سے قربانی ہونی چاہئے۔ بھلے ہی آپ کو دوسری طرف قربانی کا حصہ لینا پڑے۔
انصاری انیس جلیل (جوگیشوری مغرب)
خدا کا حکم ماننے کے لئے تیار رہیں
قربانی ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ اسلام مذہب میں دو عید ہے۔ پہلی عید الفطر ہےتو دوسری `عید قربان ہے۔ ہماری زندگی میں قربانی کی بہت اہمیت ہے۔ اس قربانی کا سب سے اہم منشا یہ ہے کہ ہم امتی ہر وقت اسلام کے لئے یعنی خدا کا حکم ماننے کے لئے تیار رہیں۔ اس طرح ہماری زندگی امتحان چاہتی ہے۔ بغیر قربانی و ایثار کے جذبہ سے انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ عہد کو پورا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں وہ ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے کہ قربانی کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔
شاہد ہنگائی پوری ( علیگ) ( سکون ہائٹس، ممبرا)
اپنے مال میں سے سب سے زیادہ پیاری چیزقربان کرناچاہئے
قربانی سنت ابراہیمی ہے۔ جو ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ رضائے الٰہی کے لئے اپنے مال میں سے سب سے زیادہ پیاری چیزقربان کرناچاہئے۔ قُربانی سے رضائے الٰہی کے ساتھ ہماری قوم کی بھی ترقّی مقصود ہے۔ قُربانی ایک روحانی، اخلاقی اور مذہبی عمل ہے جس سے اللہ کی رضا، صبر، شکراورغریب، بے سہارا افراد کی دلجوئی، مدداورکفالت ہوتی ہےجس سے امت میں بھائی چارہ، محبّت، اُلفت اوریکجہتی كاجذبہ فروغ پاتاہےمگرآج ہم نے اس عظیم ترین عبادت كو بھی صرف ایک رسم بنا دیا ہے۔ جس طرح ہم اس وقت فربہ، خوبصورت اور مہنگا جانورتلاش کرکے قُربانی کرتے ہیں اسی طرح سال بھر اپنے مصروف شیڈول سے کُچھ وقت کی قربانی دےکرضرورت مند افراد کی مددکریں۔ ہم جس بھی شعبہ میں ہوں، اس سے متعلق ہنر معلومات اوروسائل کو لوگوں میں تقسیم کریں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم قربانی کاگوشت اقرباء اور ضرورت مندوں میں با نٹتے ہیں۔ حالات کا رونا نہ روتے ہوئے اس پرصبر کریں اور خوشحالی میں رب العالمین کاشکرادا کریں۔ اگر ہم اس پر سال بھر عمل کرین تو اس سے ہمارے معاشرے کو سنوارنے میں مدد ملے گی اور ہم کو اللہ تعالیٰ اس کابہترین اجرعطافرمائے گا۔
اسماعیل سلیمان (کرہاڈ خرد تحصیل پاچورہ ضلع جلگاؤں )
اس ہفتے کا عنوان
عیدالاضحی کے تیسرے دن ممبرا اسٹیشن کے پاس ہونے والے ٹرین حادثے نے کئی خاندانوں کو غمزدہ اور ٹرین سےسفر کرنے والے ممبئی و مضافات کے مسافروں کو خوف زدہ کردیا ہے۔ اس طرح کے حادثات اب روزانہ کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جانب انتظامیہ کی توجہ ہی نہیں ہے۔ لوکل ٹرین ہو یا ایکسپریس ٹرینیں، سبھی بدحالی کی شکار ہیں کیونکہ حکومت کی پوری توجہ وندے بھارت جیسی ٹرینوں پر ہے جس کا کرایا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ:
ریلوے کا سفر کتنا محفوظ، کتنا فائدے مند؟ آئے دن کے ٹرین حادثات سے بچنے کا حل کیا ہے؟
اس اہم موضوع پر آپ دو سے تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے نمبر (8850489134) پر جمعرات کو شام ۸؍ بجے تک وہاٹس ایپ کر دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار(۱۵؍جون) کے شمارے میں شائع کی جائیں گی۔ ان کالموں میں حصہ لینے والے قلمکار حضرات اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی تحریر کے ساتھ ہی اپنا نام لکھیں۔ الگ سے نہ لکھیں۔