Inquilab Logo

’ووٹرس ٹرن آئوٹ‘ چھپاکرالیکشن کمیشن نے اپنی شبیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچالیا ہے

Updated: May 26, 2024, 4:18 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

پولنگ ڈیٹا فراہم کردیا جاتا تو ووٹنگ کی شفافیت کھل کر سامنے آتی اور پوری دنیا کی نظر میں اس ادارہ کی وقعت میں اضافہ ہوتا لیکن الیکشن کمیشن نے اپنے حلف نامے میں جو باتیں کہی ہیں، وہ سخت حیرت میں مبتلا کرنے والی ہیں۔

Everyone is now asking the Election Commission why there is a need to hide the `voter turnout`? Why do voters not have the right to know? Photo: INN
الیکشن کمیشن سے اب یہ سوال ہر کوئی کررہا ہے کہ’ووٹر ٹرن آؤٹ‘ کو چھپانے کی ضرورت کیوں پڑرہی ہے؟ووٹرس کو جاننے کا حق کیوں نہیں ہے؟۔ تصویر : آئی این این

الیکشن کمیشن نے لوک سبھا انتخابات کے ہر مرحلے کیلئےووٹنگ کے اختتام کے ۴۸؍گھنٹوں کے اندر پولنگ بوتھ پر ڈالے جانے والے ووٹوں کی مکمل تعداد ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے اے ڈی آر کے مطالبے پر سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے وہ پورے ملک کو تشویش میں مبتلا کرنے والا ہے کیوں کہ الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارہ سے اس طرح کے حلف نامہ یا ہٹ دھرمی کی ہمیں امید نہیں تھی۔ جو مطالبہ کیا گیا ہے اگر وہ پورا کیا جاتا تو اس سے پولنگ کی شفافیت کھل کر سامنے آتی اور پوری دنیا کی نظر میں اس ادارہ کی وقعت میں اضافہ ہوتالیکن الیکشن کمیشن نے اپنے حلف نامے میں جو باتیں کہیں وہ ہم جیسوں کیلئے سخت حیرت میں مبتلا کرنےوالی ہیں۔ حلف نامے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ پولنگ اسٹیشنوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی مکمل تعداد دینے والے فارم سی ۱۷؍کی تفصیلات کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے ملک میں افراتفری پھیل سکتی ہے۔ اس سے پولنگ سے چھیڑ چھاڑ کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ اپنے حلف نامے میں الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا کہ پولنگ اسٹیشن کے لحاظ سے ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار کا اندھا دھند انکشاف اور اسے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دینے سے انتخابی مشینری میں افراتفری پھیل جائے گی جو لوک سبھا انتخابات میں مصروف ہے۔ انتخابی ادارہ کا یہ کیسا جواز ہے؟
  الیکشن کمیشن نے اس الزام کو بھی جھوٹا اور گمراہ کن قرار دیا کہ لوک سبھا انتخابات کے پہلے دو مرحلوں کی پولنگ کے دن جاری کئے گئے اعداد و شمار اور اس کے بعد کی پریس ریلیز میں ہر دو مرحلوں کیلئے ۵؍ سے ۶؍ فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کمیشن نے کہا کہ یہ تمام باتیں من گھڑت ہیں، ان میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ اس سے پورے الیکشن پروسیس پر سوال اٹھ جاتا ہے۔ ہمیں حیرت ہےکہ شفافیت کوبرقرار رکھنے کے سوال پر الیکشن کمیشن اتنا چراغ پا کیوں ہو گیا؟ دراصل اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نے جو عرضی دائر کی تھی اس کے جواب میں کمیشن نے ۲۲۵؍ صفحات کا حلف نامہ دے دیا اور تمام الزامات کو جھٹلادیا لیکن جو سوال کیا گیا تھا اس پر کوئی جواب نہیں دیا۔ ہر چند کہ ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی اونچ نیچ ہوتی ہے اور کچھ بے ضابطگیاں بھی ہو جاتی ہیں لیکن الیکشن کمیشن جیسا ادارہ ان تمام معاملات سے اوپر ہوتا ہے۔ ماضی کا ریکارڈ اٹھاکر اگر دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے متعدد الزامات برداشت کئے لیکن انتخابات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالوں کا ہمیشہ واضح اور مدلل جواب دیا ہے۔ اس نے کبھی سوال اٹھانے والوں کو بدنام کرنے یا نہیں معتوب قرار دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ جواب دے کر اپنی شبیہ کو بہتر بنایا ہے۔ لیکن اس مرتبہ کمیشن ایسا کیوں کررہا ہے یہ ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: راہل، اکھلیش اور تیجسوی سے بی جے پی لیڈروں کی نیند حرام

اے ڈی آر نے جو سوال کیا ہے یا اپوزیشن پارٹیوں نے جو اعتراضات کئے ہیں وہ کوئی معمولی اعتراض نہیں ہے۔ اس سے پورے الیکشن کے پروسیس پر سوال کھڑا ہو سکتا ہے، ایسے میں یہ کمیشن کی بہت بڑی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کا جواب دیتا لیکن اس نے سوال اٹھانے والوں کو ہی معتوب قرار دینا شروع کردیا۔ اے ڈی آر نے جو سوال اٹھایا ہے وہ نہایت معقول ہے کیوں کہ ووٹنگ کے عبوری فیصد اور حتمی فیصد میں ۵؍ سے ۶؍فیصد کا فرق بتایا جارہا ہے جو کانگریس پارٹی کے اندازے کے مطابق ایک کروڑ ۷۰؍ لاکھ ووٹوں کا فرق ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ اس سے کئی سیٹوں پر نتائج کو پوری طرح سے اپنے حق میں کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے اپوزیشن پارٹیاں وہ ڈیٹا مانگ رہی ہیں جو پولنگ کے دن فارم ۱۷؍ سی میں درج کیا جاتا ہے۔ یہ فارم پولنگ کے دن کا مکمل کچا چٹھا ہوتا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ پولنگ والے دن کتنے ووٹ ڈالے گئے، کتنے ووٹرس پولنگ بوتھ پر رجسٹرڈ تھے اور ان میں سے کتنوں نے ووٹ دیا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ تفصیلات ہوتی ہیں۔ اس فارم کی مدد سے بہت آسانی سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کس بوتھ پر کتنے ووٹ پڑے۔ 
  اس سے قبل انتخابی مہم کے دوران بھی مودی، یوگی آدتیہ ناتھ اور امیت شاہ کے ساتھ ساتھ یوپی کا انتظامیہ جس طرح ضابطہ اخلاق، قانون اور جمہوری قدروں کا مذاق اڑاتا رہا اور الیکشن کمیشن آنکھ کان سب بند کئے بیٹھا ہے، اس سے ان تین روایتی بندروں کی تصاویر نظروں کےسامنے گھوم جاتی ہیں جو آنکھ کان منہ بند کئے بیٹھے رہتے ہیں۔ کمیشن کھلے عام بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے جس کا بدترین ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف محض چوبیس گھنٹوں میں آئی قریب ۱۸؍ ہزار شکایتوں پر بحالت مجبوری نوٹس تو جاری کیا لیکن مودی کو نہیں بلکہ پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو، جنہوں نے اس نوٹس کو قابل اعتنا بھی نہیں سمجھا اور جواب کیلئے مزید وقت مانگ لیایعنی چناؤ ختم اور نوٹس ردی کی ٹوکری میں۔ الیکشن کمیشن نے پہلے دو مرحلوں میں ہونے والی پولنگ کے اعدادو شمار جاری کرنے میں پہلے تو غیر معمولی تاخیر کی، پھر پولنگ میں چھ سات فیصد کا غیر معمولی اضافہ دکھایا۔ اس سے عوام کے ذہنوں میں فطری طور سے شکوک پیدا ہوئے ہیں۔ کانگریس صدر کھرگے نے اس بابت جب کمیشن کو خط لکھا تو کمیشن کی جانب سے ان کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا گیا کہ وہ کمیشن پر سے عوام کا اعتماد متزلزل کر رہے ہیں۔ جواب کا لب و لہجہ بھی ناشائستہ تھا جو کمیشن ضابطہ اخلاق کی کھلی دھجیاں اڑانے پر وزیر اعظم کو نوٹس جاری کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا وہ ملک کی سب سے قدیم پارٹی کے صدر کے ساتھ غیر شائستہ رویہ اختیار کرتا ہے۔ پی چدمبرم نے درست کہا کہ یہ خط کسی آئینی ادارہ کی جانب سے نہیں بلکہ کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے لکھا گیا لگتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس جانب دارانہ رویہ اور بے حسی کے خلاف ابھیشیک منو سنگھوی کی قیادت میں انڈیا بلاک کا ایک کل جماعتی وفد الیکشن کمشنروں سے بھی ملا اور شکایات درج کرائیں لیکن اس کے بعد کیا ہوا یہ ہم سبھی کو معلوم ہے۔ جب تک سیاسی قیادت آئینی اصولوں اور قدروں کی پاسداری نہیں کرے گی تب تک انتظامیہ سے اس کی امید کرنا فضول ہے اور پھر مودی کی مہربانی سے انتخابی مہم میں زہر تو پوری طرح پھیل چکا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ آنجہانی بال ٹھاکرے کی ایسی ہی انتخابی تقریر پر انہیں انتخابی مہم سے روک دیا گیا تھا۔ جس بات پر الیکشن کمیشن کو غور کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ ای وی ایم اور الیکشن کمیشن پر عوام کو رَتی بھر بھی اعتماد نہیں ہے۔ بد اعتمادی کے یہ بادل صرف الیکشن کمیشن پر ہی نہیں بلکہ تمام آئینی اداروں پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن کے پاس بھرپور موقع تھا کہ وہ اے ڈی آر کی اپیل کے جواب میں اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کی ہامی بھرلیتا اورڈیٹا جاری کردیتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK