Inquilab Logo

راہل گاندھی کو الیکشن کمیشن کا نوٹس لیکن وزیراعظم مودی پر خاموشی، ایسا کیوں ہے؟

Updated: November 26, 2023, 1:31 PM IST | Pankaj Srivastava | Mumbai

اس پر بحث کی جا سکتی ہے کہ کانگریس لیڈر نے وزیر اعظم کیلئے جس لفظ کا استعمال کیا ،وہ کرنا چاہئے تھا یا نہیں، لیکن وہ لفظ نہ تو غیر پارلیمانی ہے، نہ ہی اسے گالی قرار دیا جاسکتا ہے، اس کے برعکس وزیراعظم نے راجستھان میں انتخابی ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح سے فرقہ وارانہ کارڈ کھیلا، اس پر کوئی بحث نہیں کی جاسکتی، وہ واضح طور پر غلط ہے لیکن انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔

Prime Minister Narendra Modi and Rahul Gandhi criticized each other during the election campaign. Photo: INN
وزیراعظم نریندر مودی اور راہل گاندھی نے انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر جم کرتنقیدیں کیں۔ تصویر : آئی این این

الیکشن کمیشن کا کام آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانا ہوتاہے۔ انتخابات کے دوران کمیشن کی حیثیت کو حکومت سے اوپر سمجھا جاتا ہے۔ یہ انتظام اسلئے کیا گیا ہے تاکہ کمیشن تمام جماعتوں کو بلا تفریق الیکشن لڑنے کیلئے مساوی بنیاد فراہم کرے، لیکن کمیشن کی طرف سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات نے ایک آئینی ادارے کے طور پر غیر جانبدارانہ اور آزادانہ طور پر کام کرنے کی اس کی حیثیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن مرکزی حکومت کے ماتحت کام کرنے والا ایک محکمہ ہے۔
 وزیر اعظم مودی کیلئے ’پنوتی‘ لفظ استعمال کرنے پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو الیکشن کمیشن کا نوٹس جاری کرنا اس کی واضح مثال ہے۔ اس پر بحث کی جا سکتی ہے کہ کانگریس لیڈر کو وزیر اعظم مودی کیلئے یہ لفظ استعمال کرنا چاہئے تھا یا نہیں ، لیکن پنوتی کا لفظ نہ تو غیر پارلیمانی ہے، نہ ہی اسے گالی قرار دیا جاسکتا ہے۔ عام لوگوں کیلئے اس کا مطلب بدشگون ہے۔ مطلب یہ کہ وہ شخص جس کی موجودگی کام کو خراب کر دیتی ہے۔ وزیراعظم خود بھی ماضی میں اس طرح کی باتیں کہہ چکے ہیں ۔
 دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران انہوں نے خود کو ’نصیب والا‘ اور اپوزیشن کو ’بدنصیب‘ کہا تھا۔ان کی اُس تقریر کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر آسانی سے دستیاب ہیں ۔ کمیشن نے نہ اُس وقت اس زبان کا نوٹس لیا تھا، نہ ہی اب جبکہ انہوں نے گزشتہ دنوں ایک انتخابی ریلی میں راہل گاندھی کو ’احمقوں کاسردار‘کہہ کر براہ راست مخاطب کیا تھا۔ آج تک کسی وزیر اعظم نے اپوزیشن لیڈر کیلئے اس طرح کی زبان استعمال نہیں کی۔ ایسی زبان نہ صرف جمہوریت کے تئیں اُن کے اعتماد پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے وقار کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ کمیشن جمہوریت کا نگراں ہے تو وزیراعظم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کیوں کانپتے ہیں ؟
 کمیشن کا یہ موقف صرف زبان یا تبصروں کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں ہے، اس نے راجستھان میں گہلوت حکومت کی ضمانتوں کی تشہیر پر پابندی لگا کر بی جے پی کی خواہش کے مطابق کام کیا ہے۔ کانگریس کی یہ ضمانتیں اس کے منشور کا حصہ ہیں ۔ یہ ضمانتیں صحت سے لے کر تعلیم تک کے معاملات میں عوام کیلئے یقین دہانیاں ہیں ۔ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے حوالے سے پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان بحث اور مقابلہ جمہوریت کی صحت کیلئے بہتر ہے لیکن جب بی جے پی نے محسوس کیا کہ گہلوت حکومت کے ذریعہ کئے گئے وعدوں جیسے ہیلتھ انشورنس کو۲۵؍ لاکھ سے بڑھا کر ۵۰؍ لاکھ روپے کئے جانے یا پرانی پنشن اسکیم کو نافذ کرنے کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، تو اس نے الیکشن کمیشن کا رخ کیا۔ اس نے کمیشن سے شکایت کی کہ گہلوت حکومت ضمانتوں کو فروغ دے کر عوام کے ووٹ حاصل چاہتی ہے جو کہ بدعنوانی ہے۔ کمیشن نے عجلت میں ضمانتوں کی بنیاد پر کی جانے والی موبائل مس کالز کے اشتہارات پر پابندی لگا دی۔ کمیشن کے مطابق یہ ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔
 ایسے میں سوال اٹھنا ناگزیر ہے کہ جب انتخابی مہم کے دوران مرکزی حکومت نے ۵؍ کلو اناج دینے کی اسکیم کو مزید ۵؍ سال تک بڑھانے کا اعلان کیا تو کمیشن نے اس سے کوئی وضاحت کیوں نہیں طلب کی؟ یا کسان ندھی کو لے کر انتخابات کے دوران ہی پی ایم مودی نے جو اعلان کیا تھا، اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کیوں نہیں سمجھا گیا؟ کمیشن کی طرف سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے وہ اس قدر واضح ہے کہ حکمران جماعت کے لوگوں کی نظروں میں بھی شاید ہی اس کیلئے کوئی ساکھ ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ان کا اپنا ہے، جہاں سے مطلوبہ ہدایات جاری کرائی جا سکتی ہیں ۔
 یہ بات بھی حیران کن ہے کہ وزیر اعظم سمیت بی جے پی کے سبھی لیڈر انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی کوشش کرتے نظر آئے لیکن کمیشن نے کچھ نہیں کہا۔ وزیر اعظم نے جس طرح راجستھان میں کنہیا لال قتل کیس کا معاملہ اٹھایا، وہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اودے پور میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے’سرتن سے جدا‘ جیسا جملہ استعمال کیا اور اس میں کانگریس حکومت کی شراکت قرار دیا۔ حالانکہ یہ سب پر عیاں ہے کہ کنہیا لال کے بہیمانہ قتل پر فوری کارروائی کرتے ہوئے راجستھان پولیس نے ۴؍ گھنٹے کے اندر قاتلوں کو پکڑ لیا تھا۔ بعد میں یہ کیس این آئی اے کو سونپ دیا گیا جو مرکز کے ماتحت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر این آئی اے اس معاملے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پارہی ہے تو اس کیلئے راجستھان حکومت کیا کر سکتی تھی؟ اور اگر کنہیا لال کے قتل کیلئے وزیر اعلیٰ گہلوت ذمہ دار ہیں تو منی پور میں برہنہ پریڈ سے لے کر سیکڑوں شہریوں کے قتل کیلئے براہ راست بی جے پی کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ ذمہ دار کیوں نہیں ہیں ؟
 کیا راجستھان کی انتخابی ریلیوں میں کنہیا لال کا مسئلہ اٹھانے والے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنی ریاست میں ہونے والے قتل عام کیلئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے؟ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی عصمت دری اور قتل کے معاملے میں یوپی پہلے نمبر پر ہے۔ کیا اس کیلئے بی جے پی اور وزیر اعلیٰ یوگی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ جرم کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کنہیا لال کو قتل کرنے والے مسلمان تھے، اس لئے اسے انتخابی ایشو بنایا گیا اورمزید افسوس کی بات ہے کہ اسے انتخابی موضوع ملک کے وزیر اعظم نے بنایا۔
 الیکشن کمیشن کو انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ پولرائزیشن پیدا کرنے کی تمام شرمناک کوششوں کا از خود نوٹس لینا چاہئے تھا۔ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ مذہب کی بنیاد پر ووٹروں کو متاثر کرنے سے منع کرتا ہے، لیکن کمیشن نے سب کچھ ہونے کے باوجود آنکھیں بند کر لی ہیں ۔ یہاں مودی حکومت نے بھی اپنی ساکھ کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مارچ۲۰۲۳ء میں سپریم کورٹ نے صاف کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کی تقرریاں ایک کمیٹی کے مشورے پر صدر جمہوریہ کے ذریعے ہوں گے ۔اس کمیٹی میں وزیر اعظم، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا شامل ہوں گے لیکن اگست میں ہی مودی حکومت نے راجیہ سبھا میں ایک بل پیش کیا جس میں چیف جسٹس کو سلیکشن کمیٹی سے ہٹانے اور وزیر اعظم کے نامزد کردہ ایک کابینہ وزیر کو رکن بنانے کی تجویز تھی۔اس بل نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ حکومت کو کمیشن کی آزادی اور غیر جانبداری کا دکھاوا بھی پسند نہیں ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کے اس موقف کو الیکشن کمیشن نے بھی منظوری دے دی ہے۔ کمیشن کے فیصلوں میں حکمران جماعت کے تئیں جہاں ضرورت سے زیادہ نرمی ہوتی ہے وہیں اپوزیشن کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسے جمہوریت کیلئے ایک ناگوار علامت ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK