ووٹر لسٹ کی نظرثانی کی چھلنی کو آسام میں باریک بنانے کے بجائے وہاں اس چھلنی کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب دیکھئے۔ باقی سارے ملک میں ہر ووٹر کو فارم بھرنا ہوگا، لیکن آسام میں کسی کو کوئی فارم نہیں بھرنا ہوگا۔ بی ایل او اُن کے گھر جائیں گے اور ووٹر لسٹ میں ناموں کی تصدیق کریں گے۔
پورے ملک میں ’ایس آئی آر‘ سے ہاہاکار مچا ہوا ہے اور آسام میں سکون کا ماحول ہے۔ تصویر:آئی این این
کبھی کبھی ایک چھوٹی سی حرکت بھی کسی شخص کے کردار کا پردہ فاش کر دیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ الیکشن کمیشن کے ساتھ ہوا۔ ۲۷؍ اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے ایک پریس کانفرنس میں ملک کی ۱۲ ؍ریاستوں اور مرکزکے زیر انتظام علاقوں میں ایس آئی آر کا حکم جاری کیا لیکن اس میں آسام شامل نہیں تھا، حالانکہ وہاں اپریل میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پھر الیکشن کمیشن نے بڑی خاموشی سے ۱۷؍ نومبر کو آسام کی ووٹر لسٹ کےایس آئی آر کا حکم جاری کر دیا۔ میڈیا نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا، لیکن یہ حیران کن ہدایت الیکشن کمیشن اور بی جے پی کی جوڑ توڑ کی پول کھول دیتی ہے۔ سب سے پہلے آپ یاد کیجیے کہ ایس آئی آر کے حق میں کیا دلائل دیئے گئےتھے۔ شروع سے الیکشن کمیشن یہی کہہ رہا ہے کہ ایس آئی آر اسلئے ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ صرف ہندوستان کے شہری ہی ووٹر بن سکیں۔ ووٹر لسٹ سے غیر ملکی شہریوں کو چھانٹنے کو الیکشن کمیشن ایس آئی آرکا بنیادی مقصد بتاتا ہے اور اس پر زور دیتا رہا ہے۔ اسلئے ایس آئی آر میں ہر ووٹر سے شہریت کا ثبوت مانگا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن آہستہ آہستہ اور بی جے پی کے ترجمان اچھل اچھل کر کہتے ہیں کہ ووٹر لسٹ میں بڑی تعداد میں غیر ملکی ہیں، جنہیں باہر نکالنا ضروری ہے۔ اب آپ اپنے آپ سے پوچھئے کہ ہندوستان میں غیر ملکی مہاجرین کا مسئلہ سب سے زیادہ کس ریاست میں ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے آسام۔ یہ مسئلہ آج کا نہیں، کم از کم پچاس سال پرانا ہے۔ غیر ملکی مہاجرین کے مسئلے پر تاریخی آسام تحریک شروع ہوئی۔ راجیو گاندھی کے وقت شہریت کے مسئلے پر ہی آسام معاہدہ ہوا۔ پچھلے ۴۰؍برسوں سے اس کے نفاذ پر تنازع جاری ہے۔ آسام کی ووٹر لسٹ میں ’ڈی ووٹر‘ یعنی مشتبہ ووٹر کو نشان زد کرنے پر ہنگامہ ہوا۔ اس کو حل کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں آسام میں این آر سی (قومی شہریت رجسٹر) کا سروے ہوا۔ ملک میں کسی اور ریاست میں شہریت کی جانچ کیلئے اتنی بڑی کوشش اور اس کے بارے میں اتنا بڑا ہنگامہ کہیں نہیں ہوا۔
اب پہلی اور دوسری بات کو ملا کر اس کا نتیجہ نکالئے۔ اگر ملک میں کہیں بھی ووٹر لسٹ میں شہریت کی جانچ کی ضرورت ہے تو وہ ریاست آسام ہے۔ اگر ایس آئی آر کے حق میں دی گئی دلیل سچ ہے تو ایس آئی آرسب سے پہلے آسام میں ہونا چاہئے تھا۔ اب آپ الیکشن کمیشن کی کارگزاری دیکھیں۔ جب دیگر ریاستوں میں ایس آئی آر کا اعلان کرنے کے باوجود آسام کو باہر رکھا گیا تو چیف الیکشن کمشنرکا جواب تھا کہ آسام کی شہریت کے قوانین باقی ملک سے الگ ہیں۔ اسلئے وہاں کا حکم الگ آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا تھا کہ آسام میں ایس آئی آرکو باقی ملک کے مقابلے میں زیادہ سخت بنایا جائے گا۔ ملک کے دیگر حصوں میں جہاں ۲۰۰۲ء کی ووٹر لسٹ کو تصدیق شدہ مانا جا رہا ہے، وہاں آسام میں ۱۹۷۱ء کا ثبوت مانگا جائے گا اور چونکہ این آر سی کے ذریعے یہ عمل مکمل ہوچکا ہے، اسلئے آسام میں ووٹر لسٹ کی گہری نہیں بلکہ سب سے زیادہ گہری نظرثانی کی جائے گی۔
۱۷ ؍نومبر کو الیکشن کمیشن نے آسام کیلئے جو حکم جاری کیا ہے، وہ زیادہ سخت ہونےکے بجائے حیرت انگیز طور پر نرم ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر یعنی’ خصوصی گہری نظرثانی‘ سے ’گہری‘ لفظ کو نکال دیا ہے۔ آسام میں صرف ’نظرثانی‘ ہوگی۔ یہ معاملہ صرف لفظی تبدیلی کا نہیں ہے۔ ووٹر لسٹ کی نظرثانی کی چھلنی کو آسام میں زیادہ باریک بنانے کے بجائے الیکشن کمیشن نے وہاں اس چھلنی کو ہٹا دیا ہے۔ اس کا عملی مطلب دیکھئے۔ باقی سارے ملک میں ہر ووٹر کو اینیومریشن فارم (گنتی فارم) بھرنا ہوگا، لیکن آسام میں کسی کو کوئی فارم نہیں بھرنا ہوگا۔ بی ایل او آپ کے گھر آئیں گے اور ووٹر لسٹ میں ناموں کی تصدیق کریں گے، ضرورت پڑنے پر ترمیم کریں گے اور بس نظرثانی ہوگئی۔ باقی ملک میں آپ کو ۲۰۰۲ ءکی ووٹر لسٹ میں اپنے یا اپنے رشتہ دار کا نام ہونے کا ثبوت دینا ہوگا، اگر نہیں ہوا تو یہ بتانا ہوگا کہ اس وقت آپ کا خاندان کہاں تھا۔ لیکن آسام میں یہ سوال ہی نہیں پوچھا جائے گا۔
اگر آپ ۲۰۰۲ء کا ثبوت نہیں دے پائے تو باقی ملک کے ہر ووٹر کو دستاویزات پیش کرنے ہوں گے، اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی لیکن آسام میں اس الجھن کو ختم کر دیا گیا ہے ،کسی کو بھی کوئی دستاویز دکھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ کاش یہ سادہ، آسان اور شفاف نظام ملک کی ہر ریاست میں نافذ ہوتا۔ کیا یہ ساری باتیں آپ کو الجھن میں ڈال رہی ہیں؟ ایک کڑوی دوا پورے ملک کو زبردستی پلائی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک خطرناک بیماری سے بچنے کیلئے آپ کو اس دوا کی ضرورت ہے، لیکن جس ایک مریض کو وہ بیماری ہونے کا ثبوت ہے، اسے بغیر دوا کے اسپتال سے رخصت کر دیا جا رہا ہے۔ اگر اس الٹ پھیر کو سمجھنے میں آپ کو پریشانی ہو رہی ہے تو یہ آخری سراغ سمجھ لیجئے۔
حقیقت میں آسام میں سپریم کورٹ کے حکم پر ہر فرد کے کاغذات کی جانچ ہوچکی ہے۔ ۶؍ سال تک چلنے والے اس عمل کے آخر میں آسام میں کل ۱۹ ؍لاکھ ایسے لوگ پائے گئے تھے جو ہندوستان کی شہریت ثابت نہیں کر پائے، جن کا نام قومی شہریت رجسٹر سے باہر رکھا گیا۔ اب آپ سوچیں گے کہ پھر تو الیکشن کمیشن کا کام آسان ہے۔ ان ۱۹؍ لاکھ کو ووٹر لسٹ سے باہر کر دیا جائے لیکن اصل کھیل سمجھنے کیلئے آپ کو یہ جاننا ہوگا کہ یہ ۱۹ ؍لاکھ غیر شہری کون ہیں؟ ان کا ووٹ کاٹنے سے کس کو نقصان ہوگا؟ ان کے اعداد و شمار رسمی طور پر عام نہیں کئے گئے، لیکن ہر کوئی جانتا تھا کہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر آئے ان ۱۹؍لاکھ میں اکثریت میںمسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں۔
حالیہ دنوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے میڈیا کے سامنے یہ بیان دیا کہ ان ۱۹ ؍لاکھ میں صرف ۷؍ لاکھ مسلمان ہیں۔ باقی ہندو ہیں، کچھ بنگالی ہندو، کچھ آسامی ہندو اور کچھ گورکھا ہندو۔ یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں ہے کہ آسام میں بی جے پی نے سب سے پہلے بنگالی ہندوؤں میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ یعنی اگر آسام میں ووٹر لسٹ کی گہری نظرثانی ہو جاتی اور تمام ۱۹ ؍لاکھ نام کاٹ دیئے جاتے تو سب سے بڑا نقصان بی جے پی کو ہوتا۔ اب آیا کھیل سمجھ میں؟ الیکشن کمیشن اور بی جے پی میں جوڑ توڑ ہے یا نہیں؟ یا اب بھی کوئی شک باقی ہے۔