• Thu, 11 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اخبارات نے الیکشن کمیشن پر تنقید کی تو بعض نے سنچار ساتھی اور درختوں کی کٹائی پرحکومت کو نشانہ بنایا

Updated: December 11, 2025, 4:57 PM IST | Ejaz Abdul Ghani | Mumbai

اس ہفتے کئی اخبارات نے الیکشن کمیشن پر تنقید کی تو بعض نے سنچار ساتھی اور درختوں کی کٹائی کے حوالے سے حکومت کو نشانہ بنایا۔

The library established in the parliament for our members of parliament where the Senate is spread out. Picture: INN
ہمارے اراکین پارلیمان کیلئے پارلیمنٹ میںقائم کی گئی لائبریری جہاں سناٹا پسرا ہوا ہے۔ تصویر:آئی این این
اس ہفتے کے غیر اردو اخبارات کے اداریے ایک غیر معمولی تنقیدی آہنگ لئے ہوئے نظر آئے۔ سب سے پہلے سنچار ساتھی کو لیجیے۔متعدد اخباروں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ پلیٹ فارم شہریوں کی روزمرہ زندگی میں حکومتی نگرانی اور پرائیویسی میں دخل اندازی کا نیا باب کھولتا ہے۔مراٹھی اخبارات کا رخ مکمل طور پر بلدیاتی انتخابات کی بدانتظامی کی طرف تھا۔ الیکشن کمیشن کے کئی فیصلے اور ضابطوں کی من مانی پر انہوں نے سخت سوالات اٹھائے۔ ناسک میں مہا کمبھ میلے کی تیاریوں کے نام پر سیکڑوں درختوں کی بے دریغ کٹائی بھی اس ہفتے کا اہم موضوع رہی۔ اخبارات نے اسے ترقی کے نام پر ماحولیاتی قتل عام سے تعبیر کیا۔ ایک اخبارنے اراکین پارلیمان کے علمی و مطالعہ جاتی فقدان پر شدید تنقید کی۔ اخبار نے نشاندہی کی کہ جب عوامی نمائندے ہی مطالعہ سے دور ہو ں گے تو قانون سازی کا معیار، پارلیمانی مباحث اور قومی پالیسی سازی سب کمزور پڑ یں گے۔
ووٹوں کی گنتی میں تاخیر کی وجہ سے کئی خدشات ہیں
سامنا(مراٹھی،۳؍ دسمبر)
’’ مہاراشٹر کی میونسپل کونسلوں اور نگر پنچایتوں کے جاری انتخابات بدانتظامی  اور سیاسی جوڑ توڑ کی وجہ سے مکمل طور پر تنازع میں گھر گئے ہیں۔  انتخابی کمیشن اور عدالت عظمیٰ کے متضاد فیصلوں نے نہ صرف انتخابی شیڈول درہم برہم کیا ہے بلکہ پورے عمل کی شفافیت اور غیر جانبداری پر بھی سنگین سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔۲۴۶؍ میونسپل کونسلوں اور ۴۲؍ نگر پنچایتوں  کے انتخابات دو مرحلوں میں رکھے گئے تھے۔پہلے مرحلے میں ۲؍دسمبر کو ووٹنگ اور۳؍ دسمبر کو گنتی تھی جبکہ چند اضلاع میں بے ضابطگیوں کے سبب پولنگ ۲۰؍ دسمبرکیلئے مؤخر کی گئی تاہم ناگپور بنچ کے حکم پر فیصلہ ہوا کہ تمام مقامی اداروں کے ووٹ ۲۱؍ دسمبر کو ایک ساتھ گنے جائیں گے کیونکہ پہلے مرحلے کے فوری نتائج دوسرے مرحلے کے ووٹر پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ خود ریاستی انتخابی کمیشن نے اعتراف کیا کہ ۱۲؍ اضلاع میں ریٹرننگ افسران نے میونسپل انتخابی قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امیدواروں کو دستبرداری کیلئے لازمی مہلت دیئے بغیر انتخابی نشان الاٹ کر دیئے۔ انہی بے ضابطگیوں کو جواز بنا کر بعض کونسلوں اور نگر پنچایتوں کی پولنگ آخری لمحے میں ملتوی کی گئی جس سے امیدواروں اور ووٹروں دونوں میں بے چینی بڑھ گئی۔ عدالتی حکم کے نتیجے میں ۲؍ دسمبر کو ہونےوالی پولنگ کی گنتی اب ۱۹؍ دن بعد ۲۱؍دسمبر کو ہوگی جس سے ای وی ایم کی حفاظت اور اس دوران ممکنہ چھیڑ چھاڑ کا اندیشہ مرکزی بحث بن گیا ہے۔ ‘‘
مذہب کے نام پردرختوں کی بے دریغ کٹائی
پربھات( مراٹھی، یکم دسمبر )
’’ناسک میں آئندہ مہا کمبھ میلے کی تیاریاں ایک طرف مذہبی جوش و جذبے سے جاری ہیں وہیں دوسری طرف شہر کے تپون علاقے میں جاری ترقیاتی سرگرمیوں نے ایک نہایت سنجیدہ ماحولیاتی بحران کو جنم دے دیا ہے۔ کمبھ میلے کیلئے قائم کئے جانے والے ’سادھو گرام‘ کی تعمیر کے نام پر ۱۶۰۰؍سے زائد درختوں کی بے دریغ کٹائی کا منصوبہ نہ صرف فطرت کے خلاف سنگین جرم ہے بلکہ انتظامیہ کی ترجیحات پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے۔اگرچہ میونسپل کارپوریشن یہ یقین دہانی کراتی ہے کہ کٹے ہوئے درختوں کے بدلے دگنی شجرکاری کی جائے گی لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ ایسے وعدے اکثرکاغذی کارروائی سے آگے نہیں بڑھتے۔ شجرکاری کے منصوبے کاغذوں پر تو شاندار دکھائی دیتے ہیں مگر زمین پر ان کی کامیابی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ ہزاروں درختوں کی جگہ چند نئے پودے ماحولیاتی توازن بحال کر دیں گے خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔لیکن معاملہ صرف درختوں کی کٹائی تک محدود نہیں۔اصل تشویش اس انکشاف سے جڑی ہے کہ کمبھ میلے کے بعد اسی قیمتی اراضی کو ایک تجارتی مرکز میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بھی  ہے۔ مذہبی تقدس اور سادھوؤں کی سہولت کے نام پر عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش دراصل تجارتی مفادات کے فروغ کی راہ ہموار کرتی نظر آتی ہے۔ روحانی تقریبات کی آڑ میں زمین کا ایسا استعمال نہ صرف مذہب کے نام پر سیاست کی بو دیتا ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے۔‘‘
 سنچار ساتھی:نجی زندگی کیلئےمستقل خطرہ بن سکتی ہے
دی ہندو(انگریزی، ۳؍ دسمبر)
’’ ڈیجیٹل دور میں سائبر جرائم تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ ان کی پیچیدگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عام شہری تو ایک طرف تفتیشی ایجنسیاں بھی ان کے سامنے اکثر بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ مجرم سم کارڈ نکال دینے کے باوجود انسٹنٹ میسجنگ اکاؤنٹس جاری رکھتے ہیں اور جعلی آئی ایم ای آئی نمبروں کے استعمال سے اپنی شناخت چھپا لیتے ہیں۔ایسے میں حکومت کی مداخلت اصولی طور پر ضروری محسوس ہوتی ہے مگر ضروری اقدام ہمیشہ درست اور فائدہ مند ثابت ہو یہ بات الگ ہے۔محکمہ ٹیلی کمیونی کیشن نے حال ہی میں دو فیصلے کئے ہیں جن کا مقصد سائبر جرائم پر قابو پانا بتایا جاتا ہے۔ پہلا فیصلہ یہ ہے کہ واٹس ایپ سمیت دیگر انسٹنٹ میسجنگ ایپس کو سم کارڈ سے منسلک کیا جائے تاکہ سم بند ہونے یا نکالے جانے کی صورت میں یہ ایپس خود بخود غیر فعال ہو جائیں۔ دوسرا یہ کہ نئے اسمارٹ فونز میں ’سنچار ساتھی‘ نامی سرکاری ایپ پہلے ہی سے موجود ہو جو جعلی فون اور مشکوک آئی ایم ای آئی نمبروں کی نشاندہی میں مدد دے سکے۔ بظاہر یہ اقدامات عوامی تحفظ کیلئے کئے جا رہے ہیں لیکن ان سے پیدا ہونے والے خدشات بھی کم نہیں۔سم بائنڈنگ سے یقیناً ان دھوکہ بازوں کو سخت مشکلات پیش آئیں گی جو جعلی شناخت بنا کر شہریوں کو لوٹتے ہیں اور موبائل چوری ہونے کی صورت میں ڈیوائسز کا پتہ لگانے میں معاون  ثابت ہوسکتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی ٹیکنالوجی شہریوں کی نجی زندگی کیلئے ایک مستقل خطرہ بھی بن سکتی ہے۔‘‘
پارلیمنٹ کی لائبریری کااستعمال کیوں نہیں ہوتا؟
لوک مت سماچار(ہندی، ۲؍ دسمبر )
’’ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ۹۰؍ فیصد اراکین پارلیمان، پارلیمانی کتب خانے کا استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ وہاں صرف برائے نام حاضری لگاتے ہیں۔ کچھ ہی ممبران ہیں جولائبریری استعمال کرتے ہیں اور ان کی مجموعی تعداد بمشکل ۱۰؍ فیصد ہے۔ اگر ہم پہلی لوک سبھا سے لے کر موجودہ لوک سبھا تک کے تعلیمی معیار میں تبدیلی کو دیکھیں تو اب کم از کم ۷۶؍ فیصد اراکین پارلیمان گریجویٹ یا اس سے زیادہ کی تعلیمی قابلیت رکھتے ہیں۔ اس بنیاد پر یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ ممبران لائبریری میں زیادہ وقت گزاریں گے مگر لائبریری میں ان کی حاضری کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، وہ اس کے بالکل برعکس ہیں۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے زیادہ تر اراکین کیلئے پڑھنا لکھنا ضروری نہیں رہا۔
اس کے علاوہ لائبریری میں ممبران پارلیمنٹ کیلئے ۱۱؍ لاکھ سے زیادہ دستاویزات آسانی سے دستیاب ہیں۔ ۳۴۵۰۰؍ سے زیادہ کتابیں ہیں جن کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔اگر ہم ڈیجیٹل مواد کی بات کریں تو ایک کروڑ  ۲۰؍ لاکھ سے زیادہ رسائل تک رسائی ہے،۷؍ ہزار سے زیادہ ویڈیوز اور۲۴؍ ہزار سے زیادہ آڈیو فائلیں بھی موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا شاندار کتب خانہ ہونے کے باوجود بھی زیادہ ترایم پیز اسے کیوں استعمال نہیں کرتے؟ کیا یہ کہا جائے کہ ہر نئے آنے والے ممبر میں پڑھنے کی عادت کم ہو رہی ہے؟  اور کیا یہ صرف اراکین کا قصور ہے؟ یہ معاملہ صرف ذاتی نہیں بلکہ قومی سطح کا ہے۔ ہمارے ممبران عام لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ عام لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پڑھنے سے نہ صرف ان کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے بلکہ وہ کسی بھی موضوع کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اگر ممبران پارلیمان ان خوبیوں میں مہارت نہیں رکھتے ہیں تو وہ ملک کے معاملات کا تجزیاتی  مطالعہ کیسے کر پائیں گے؟‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK