• Thu, 11 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: ایک طالب علم کیلئے ہم نصابی سرگرمیوں کی کتنی اہمیت ہے؟

Updated: December 11, 2025, 4:39 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ان دنوں تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پرہم نصابی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔کہیں تقریری ، تو کہیں تحریری مقابلےتوکہیں جنرل نالج، سائنسی نمائش اور ڈرائنگ کے مقابلے ہوتے ہیں۔ اسپورٹس کے پروگرام تو ہراسکول میں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے طلبہ کی صلاحیتوں میں یقینی طورپر اضافہ ہوتا ہے لیکن بعض حلقے یہ کہہ کر اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس کی وجہ سے طلبہ کی پڑھائی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ ایسے میں ہم نے یہی جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان سرگرمیوں کی کتنی اہمیت ہے اور اس طرح کی سرگرمیاں کتنی ہونی چاہئیں؟

Picture: INN
تصویر:آئی این این
طلبہ کیلئے صرف نصابی تعلیم کافی نہیں ہوتی
 
ہم نصابی اور ثقافتی سرگرمیاں کسی بھی تعلیمی ادارے کا نہایت اہم حصہ ہوتی ہیں۔ یہ سرگرمیاں طلبہ کی ہمہ گیر شخصیت کو نکھارتی ہیں اور انہیں عملی زندگی کیلئے تیار کرتی ہیں۔ ہر طالب علم میں مختلف صلاحیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جو اِن سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں، ہم نے اپنے تجربے میں یہ دیکھا ہے کہ اکثر طلبہ تعلیمی سیر کے بعد یا کسی اور سرگرمی کے بعد اپنے اساتذہ سے مزید قریب ہوجاتے ہیں، اپنے اساتذہ سے کھل کر باتیں کرتے ہیں۔صرف نصابی تعلیم کافی نہیں ہوتی، جب تک بچے کو اپنی صلاحیتیں دکھانے، ٹیم میں کام کرنے اور مختلف تجربات سے سیکھنے کے مواقع نہ ملیں۔ہم نصابی سرگرمیوں جیسے کہ کھیل کود، ڈبیٹنگ، اسپیچ، کوئز، سائنس ماڈل، آرٹ اینڈ ڈرائنگ سے طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ وہ اپنے خیالات واضح انداز میں پیش کرنا سیکھتے ہیں اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانتے ہیں۔ 
ان سرگرمیوں سے طلبہ میں قائدانہ صلاحیتیں، ٹیم ورک، وقت کی پابندی، نظم و ضبط اور مسئلہ حل کرنے کی مہارت فروغ پاتی ہے۔ثقافتی سرگرمیاں جیسے کہ اسٹیج پروگرام، ڈرامہ، نعت و قرآن خوانی، ملی نغمے،غزل سرائی روایتی کھیل، یا قومی دنوں کی تقریبات، بچوں کو اپنی تہذیب، تاریخ اور اقدار سے جوڑتی ہیں۔اس سے ان میں سماجی شعور، تحمل، باہمی احترام اور مختلف ثقافتوں کو سمجھنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ سرگرمیاں طلبہ میں زبان و بیان، اسٹیج کانفیڈنس اور تخلیقی سوچ کو بھی مضبوط کرتی ہیں۔
مجموعی طور پر ہم نصابی اور ثقافتی سرگرمیاں بچوں کی ذہنی، جسمانی، سماجی اور جذباتی نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسی سرگرمیاں طلبہ کو متوازن، باشعور اور ذمہ دار شہری بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ یہی سرگرمیاں مستقبل میں ان کی عملی زندگی اور کریئر میں کامیابی کی بنیاد بنتی ہیں۔
ہر اسکول کے ذمہ داران اور اساتذہ کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی سال کے آغاز ہی میں مختلف غیر نصابی اور ثقافتی سرگرمیوں کی جامع منصوبہ بندی کر لی جائے، تاکہ سال بھر کوئی بھی سرگرمی تعلیمی عمل میں رکاوٹ نہ بنے۔ اگر سرگرمیوں کو ماہانہ بنیادوں پر طے کر لیا جائے تو نہ صرف نظم و ضبط برقرار رہتا ہے بلکہ اس سے طلبہ کی دلچسپی بھی مسلسل بنی رہتی ہے۔
ہر سرگرمی کے آغاز سے قبل اُس کے مقاصد اور متوقع نتائج واضح طور پر تحریر کئے جائیں تاکہ عملی منصوبہ بندی انہی اہداف کے مطابق کی جا سکے۔ جب مقاصد پہلے سے طے ہوں تو سرگرمی نہ صرف بہتر انداز میں انجام پاتی ہے بلکہ مطلوبہ نتائج بھی زیادہ مؤثر طریقے سے حاصل ہوتے ہیں۔سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ تنوع ہونا چاہئے تاکہ ہر طرح کا طالب علم اپنی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے مطابق اپنے لیے کوئی نہ کوئی پلیٹ فارم تلاش کر سکے۔ سرگرمیوں میں طلبہ کی زیادہ سے زیادہ شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بچے خود کو اسکول کے ماحول میں پُراعتماد اور خوش محسوس کر رہے ہیں، اور ہم اپنے تعلیمی و تربیتی اہداف کے حصول کی جانب کامیابی سے بڑھ رہے ہیں۔
عامر انصاری (کریئر کاؤنسلر اورہیڈماسٹر مدنی ہائی اسکول، جوگیشوری)
یہ ساری سرگرمیاں تدریس  ہی کا  حصہ ہیں
 
آج کے اس مسابقتی دور میں کامیابی اور جیت کے معنی بدل گئے ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی دوڑ کا حصہ ہے۔ تعلیم جیسا شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔ یہاں بھی طلبہ میں ایک ہوڑ سی لگی ہے۔ ہر کوئی خود کو دوسرے سے بہتر بنانے میں یا یوں کہیں کہ بہتر بتانے میں لگا ہے۔ تعلیمی سال کی شروعات جون میں ہوتی ہے اور دسمبر ، جنوری آتے آتے تقریباً تمام اسکولوں میں غیر نصابی یا غیر تدریسی سرگرمیوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ سالانہ اسپورٹس ہوں یا سالانہ جلسہ، سائنسی نمائش ہو یا انٹر اسکول مقابلے اور انہیں سب کے ساتھ یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں کیا واقعی طلبہ کیلئے کارآمد ہیں یا صرف توانائی، وقت اور پیسے کا ضیاع۔              دراصل اس کے بھی کئی پہلو ہیں۔ سب سے پہلے تو انہیں غیر نصابی اور غیر تدریسی کہنا ہی انہیں غیر ضروری بنا دیتا ہے۔ یہ سب چیزیں بھی تدریس کا ہی حصہ ہیں۔ تدریس صرف چند مضامین پڑھا کر ان کے امتحانات لینا تو نہیں۔ یہ سب منحصر کرتا ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں اسکول کس طرح منعقد کرتا ہے؟ ان کو منعقد کرنے کا مقصد کیا ہے؟  کتنے طلبہ اس سے فیض یاب ہوں گے؟  اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام مقابلے اور سرگرمیاں طلبہ کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں جہاں وہ اپنی فنی، تخلیقی اور دیگر صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔ ڈسپلن، ٹائم مینجمنٹ، وسائل کا صحیح استعمال، ٹیم ورک یہ سب وہ Life skills  ہیں جو طلبہ انہیں سے سیکھتے ہیں۔ وہ طلبہ جو تعلیمی طور پر تھوڑے کمزور ہیں ،جنہیں سال بھر اساتذہ یہ سوچ کر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ کسی قابل نہیں ان کو بھی اپنے جوہر دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ آج کے اس دور میں مارکس اور ڈگری کے علاوہ دوسری بہت سی صلاحیتیں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان سب کو سیکھنے کیلئے یہ سرگرمیاں بہت ضروری ہیں۔ بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ سرگرمیاں صحیح تناسب، مقصد اور جذبے کے تحت منعقد کی جائیں۔ تمام طلباء کو ان کی صلاحیت کے مطابق موقع ملے۔
انجم پروین  (ہیڈ مسٹریس، راہل گرلز اردو اسکول، میرا روڈ)
 نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں توازن کی ضرورت ہے
 
ہمارے ملک میں ہر سال دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں والدین کی ایک عام شکایت سامنے آتی ہے کہ ان مہینوں میں اسکول اتنی سرگرمیاں کیوں کراتا ہے؟ کیا اس سے پڑھائی متاثر نہیں ہوتی؟یہ تشویش بجا ہے کیونکہ انہی مہینوں میں سالانہ نصاب کی تکمیل، امتحانی تیاری، پری بورڈ اور ریویژن کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں جب سالانہ فنکشن، کھیل مقابلے، سائنس نمائش، ثقافتی پروگرام اور مختلف مقابلے ایک ساتھ آ جائیں تو تدریسی تسلسل ضرور متاثر ہوتا ہے۔لیکن یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔مسئلہ سرگرمیوں کی اہمیت کا نہیں بلکہ ان کے شیڈول کے غیر متوازن ہونے کا ہے۔
ہمہ جہت تعلیم میں تقریری مقابلے، مباحثے، سائنس نمائشیں، آرٹ اور اسپورٹس مقابلے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں طلبہ میں اعتماد، تخلیقی سوچ، تحقیق، ٹیم ورک، گفتگو کی مہارت اور جذباتی مضبوطی پیدا کرتی ہیں—وہ اوصاف جو صرف کتابوں سے حاصل نہیں ہوتیں۔این سی ای آر ٹی اور عالمی تحقیقی ادارے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ عملی، اور  تجرباتی سیکھنے سے تعلیمی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے درمیان فرق ختم کرنے کی بات کرتی ہے۔ آرٹ انٹیگریشن، اسپورٹس انٹیگریشن اور پراجیکٹ بیسڈ لرننگ کو لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس سوچ میں سرگرمیاں تعلیم کا حصہ ہیں، بوجھ نہیں۔تاہم والدین کی یہ شکایت درست ہے کہ دسمبر اورجنوری میں سرگرمیوں کی زیادتی تدریس کو متاثر کرتی ہے۔ اصل حل یہ ہے کہ سرگرمیوں کو پورے تعلیمی سال میں مناسب وقفوں کے ساتھ پھیلایا جائے۔ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ مجموعی طور  پر ۱۰؍ سے۳۰؍ فیصد وقت ہم نصابی سرگرمیوں کیلئے مختص ہو، مگر انہیں سال بھر میں منظم انداز میں تقسیم کیا جائے - ہفتہ وار چھوٹے پروگرام، اور ہر۶؍ تا ۸؍ہفتے میں صرف ایک بڑا ایونٹ ہو۔
پروفیسر سید جاوید مزمل (پونا کالج، آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس کیمپ پونے)
ہم نصابی سرگرمیوں کے فوائد اور غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری
 
تعلیم کا مقصد صرف کتابوں کا مطالعہ یا امتحان میں نمبروں کا حصول نہیں بلکہ انسان کی ہمہ جہت ترقی ہے۔ ایک کامیاب تعلیمی نظام وہی ہوتا ہے جو نصابی تعلیم کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی اہمیت دے کیونکہ یہ سرگرمیاں شخصیت کو وہ پہلو عطا کرتی ہیں جو محض کلاس روم کی چار دیواری میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔ افسوس کہ عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ہم نصابی سرگرمیاں وقت کا ضیاع ہیں یا بچّوں کی پڑھائی میں حرج پیدا کرتی ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ہم نصابی سرگرمیاں طلبہ کے اعتماد، مہارت، سوچ اور کردار کو نکھارتی ہیں۔ تقریری مقابلے، مکالمے، ڈرامے اور کھیل نہ صرف بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں بلکہ اسے اظہارِ خیال، فیصلہ سازی اور ذمہ داری جیسے اوصاف سکھاتے ہیں۔ ایسے بچے زندگی کے مختلف مواقع میں زیادہ پُراعتماد اور فعال ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح فنون لطیفہ سے وابستہ سرگرمیاںبچے کی تخلیقی اور ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہیں، جو آگے چل کر تحقیق، اختراع اور عملی کامیابی کی بنیاد بنتی ہیں۔ علم نفسیات کا اصول ہے کہ 
Change in work is equal to mental relief. 
لہٰذا جب طلبہ کا ذہن و جسم تھک جائے تو اسے آرام پہنچانے کا بہترین طریقہ ہے کہ سرگرمیوں میں تبدیلی کی جائے۔ جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے طلبہ اکثر بہتر تعلیمی نتائج دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی سرگرمیاں ذہنی تناؤ کم کرتی ہیں، یادداشت کو مضبوط بناتی ہیں اور توجہ مرکوز رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ یوں یہ سرگرمیاں پڑھائی سے توجہ ہٹاتی نہیں بلکہ پڑھائی کو مزید مؤثر بناتی ہیں۔ گروپ سرگرمیوں کے ذریعے بچوں میں مل جل کر کام کرنے، ایک دوسرے کی بات سمجھنے، اختلافِ رائے کو برداشت کرنے اور تعاون کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
کمال مانڈلیکر (جنرل سیکریٹری کوکن ٹیلنٹ فورم)
طلبہ کی شخصیت سازی میںہم نصابی سرگرمیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں
 
اسکول میں درس وتدریس کا مقصد طلبہ کو مختلف علوم سے روشناس کراتے ہوئے بہترین انسان بنانا ہوتا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل  صرف کتابی تعلیم سے ممکن نہیں ہے بلکہ ذہنی جسمانی و سماجی اور شخصیت سازی کیلئےہم نصابی سرگرمیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ غیر تدریسی سرگرمیوں سے طلبہ میں تخلیقی و قیادت کی صلاحیت فروغ پاتی ہے، خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، سچائی کے ساتھ کھیلنا ایمانداری کے ساتھ مقابلوں میں حصہ لینے کا احساس پروان چڑھتا ہے اور اس موبائل کے دور میں غیر نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ رہنا ٹیم ورک کرنے سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔اسی طرح کھیل کود کے ذریعے جسمانی صحت نشو نما پاتی ہے، وقت کا صحیح استعمال نظم و ضبط کی پابندی کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت فیصلہ سازی اور سماج کے تئیں ہماری ذمہ داریوں کا احساس باقی رہتا ہے۔ جدید تعلیمی پالیسی میں غیر تدریسی سرگرمیاں تدریس کو بہتر بناتی ہے نہ کہ کمزور۔ جن حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ اس سے پڑھائی کا نقصان ہوتا ہے وہ غلط ہے، ہاں وقت کا توازن نہ ہو، سرگرمیاں ضرورت سے زیادہ ہوں تو نقصان کا باعث ہے لہٰذا غیر تدریسی سرگرمیاں۳۰؍ فیصد سے کم ہونا چاہئے جو ہفتہ واری پریڈ پر مختص ہوں یا دسمبرا ور جنوری  میں لی جائیں، سرگرمیاں  طلبہ کی صلاحیتوں کے مطابق ہو اور امتحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دی جائیں۔ خراب انتظامات اور غلط منصوبہ بندی غیر نصابی سرگرمیوں کے مقاصد کو متاثر کرتی ہیں لہٰذا بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ اس سرگرمی کو انجام دیں جس سے بہترین تعلیمی ماحول کے ساتھ طلبہ عملی زندگی میں بھی کامیابی کی راہ متعین کر سکیں۔
ساجد سلیم صدیقی (پرنسپل صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج بھیونڈی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK