مصنفہ اور صحافی نمیتا دیوی دیال کی یادداشتوں کے مجموعے’ ٹینجرین‘ کا ایک جائزہ،اس میں انہوں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوازم کے فلسفہ حیات اور’ہندوتوا‘ کے درمیان بہت ہی کم تعلق ہے اور یہ کہ روحانی تلاش کیلئے زندگی سے کنارہ کشی ضروری نہیں۔
حال ہی میں صحافی اور مصنفہ نمیتا دیوی دیال کی انگریزی خودنوشت منظرِ عام پر آئی ہے جس میں انھوں نے ہندو مقدس کتب اور روایتوں کی راستے سے اپنے روحانی سفر کی روداد بیان کی ہے۔ کتاب کا عنوان ہے؛ ٹینجرین۔ گہرا نارنگی رنگ استعارہ ہے ہندو روحانیت کا۔ اسے بھگوا بھی کہتے ہیں۔ آج اس کی معنویت کچھ اور ہوگئی ہے۔ مصنفہ نے اسے اس کے درست معنی میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح کرتی ہیں کہ ہندوازم کے فلسفہ حیات اور’ہندوتوا‘ کے درمیان بہت ہی کم تعلق ہے۔
نمیتا ایک ایسی خاتون تھیں جنکی زندگی پٹری پر بخوبی دوڑ رہی تھی۔ عمدہ تعلیم، شادی، شوہر اور ایک بیٹے ساتھ مکان، دوسرا مکان، کامیاب کریئر، شہرت اور خوشحالی۔ کسی موڑ پر انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے اندر کچھ ٹوٹ رہا تھا۔ شوہر سے تعلقات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ دونوں نے باہمی رضامندی کے ساتھ قانونی علاحدگی کا فیصلہ کیا۔ یہ بھی دل پر بوجھ کا ایک سبب بنا۔ ایک اندرونی کشمکش نے ان کو گرفت میں لے رکھا تھا۔ وہ صاف محسوس کررہی تھیں کہ ان کی عقل اور ان کے جذبات میں کوئی مطابقت باقی نہ تھی۔ جیسے دو جڑواں بہنوں میں بات چیت بھی بند ہو۔ پھر وہ رشی کیش پہنچیں جہاں نیما نامی ایک سابقہ پروفیسر ہندو فلسفے کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔ نمیتا نے ایک دن علی الصباح نیما کی معیت میں گنگا کے سرد پانی میں ڈبکی لگائی۔ نیما ان کیلئے ایک سفید خرگوش کی طرح تھیں جس کے پیچھے قلانچیں بھرتے ہوئے وہ ایک نئی سرزمینِ عجائب میں داخل ہوئیں۔
نمیتا ایک اہم تصور’برہمن‘کی وضاحت کرتی ہیں۔ اسے برہمن ذات یا برہمّا سےخلط ملط نہ کریں۔ یہ یقینی طور پر عقل سے سمجھا نہ جا سکنے والا ایک خیال ہے جسے’شعور ذات‘ بلُا لیں۔ برہمن شعور کا تبدیل نہ ہوسکنے والا، وہ وسیع سمندر ہے جس کی کوئی صفت نہیں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ہم آتے ہیں اور بالآ خر جس میں ضم ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ کُل ہے جس کے اندر ہم سب اپنے جسموں اور ذہنوں سمیت وجود رکھتے ہیں۔ یہ واحد شئے ہے جو حقیقی، آزاد اور لامحدود ہے۔ باقی سب، ہماری زندگی، ہماری شان وشوکت، ہماری مایوسی، عارضی ہیں اوراسلئے حقیقی نہیں ہیں۔
نمیتا ایک متمول خاندان کی دختر تھیں جہاں بہترین انگریزی اسکولوں میں زیر تعلیم گھر کے بچوں کو اچھے سنسکار سکھانے کے مقصد سے ہندی کے ایک استاد کی تعیناتی کی گئی تھی۔ موسی جی، ان کی بڑی خالہ سب بچوں کو رام چرت مانس، ترنم سے سنایا کرتیں۔ ہزاروں برس پہلے والمیکی نے سنسکرت میں رامائن لکھی۔ سولھویں صدی عیسوی کے شاعر تلسی داس نے اودھی زبان میں رام چرت مانس لکھی۔ نمیتا بتاتی ہیں کہ اس میں آج کی اُردو کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ نمیتا کے الفاظ میں ’رام عام انسان نہ تھے۔ میدان جنگ میں پہلے دن جب ان کا حریف راون تکان کے مارے گر پڑا تو انھوں نے اُسے گھر جا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ بالآخر جب راون مارا گیا تو رام نے اس کے بھائی ویبھیشن سے کہا کہ اس کی آخری رسوم وقاروتکریم کے ساتھ ادا کرے۔
نمیتا کو موسیقی سے خاص شغف ہے۔ اس پر انھوں نے دو کتابیں بھی لکھیں ہیں۔ بچپن میں وہ دھونڈوبائی کُلکرنی نامی ایک میوزک ٹیچر سے تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ دھنڈو بائی صرف سنگیت ہی نہیں سُر کی سادھنا کے ذریعے حقیقت میں گم ہونے کی تربیت بھی دیا کرتی تھیں۔ نمیتا کو اپنے بیٹے کی فکر تھی جو جدید فیشن کے مطابق اپنے دادا دادی کو بھی ’ہائے‘ کہہ کرمخاطب کرتا لہٰذا وہ اسے برسوں، دہلی کی رام لیلا دیکھنے لےجاتی رہیں۔ ایک مرحلے پر جب نمیتا کو محسوس ہوا کہ ان کا بیٹا ہندومت سے بیزار ہونے لگا تو انھوں نے ایک ترکیب اپنائی۔ وہ اسے طبلہ سکھانے پادھیے ماسٹرجی کے پاس لے گئیں، اس امید میں کہ طبلے کی تھاپ اور دھنوں کے ذریعے وہ ایک نئی مسحور کن کائنات سے متعارف ہو سکے گا۔ ایک دن جب ماسٹرجی تین تال میں مگن تھے تو سب نے دور کہیں ایک فلک شگاف آواز سنی۔ یہ ممبئی کے سلسلہ وار بم دھماکے تھے۔ مصنفہ سمیت کمرے میں موجود باقی لوگ بہت پریشان ہوگئے لیکن ماسٹر جی دنیا و مافہیا سے بیگانہ طبلہ بجانے میں مگن رہے۔ ایک موسیقارمحبت، جمال اورسچائی کے تجربے سے گزررہا تھا۔
نمیتا کے مطابق روحانی تلاش کا مطلب دنیا سے کنارہ کشی نہیں بلکہ دنیا میں ایک مسافر کی طرح جینا ہے۔ وہ اس نکتہ نظر کو پرانے صحیفوں بطور خاص اُپنیشدوں سے اخذ کرتی ہیں۔ وید کے معنی ہیں’مقدس علم‘۔ چار ہیں: اتھر، سام، یجور اور رِگ وید۔ پہلے ویدوں میںایشور کی تعریف اوررسوم کا بیان ہے۔ بعد کے ویدوں میں اعلیٰ درجہ کی دانش پیش کی گئی ہے جسکے مجموعے کو اُپنشد کہا جاتا ہے۔ چونکہ ویدوں کے آخری حصہ اُپنشد میں آتے ہیں اسلئے ویدانت بھی کہے جاتے ہیں۔ ہر اپنشد دو افراد کے درمیان ایک مکالمہ سے شروع ہوتا ہے۔ ویدانت کائنات کی غیر دوہری وحدت کو دریافت کرتے ہیں۔ جُز کو ایک بڑے کُل کا حصہ بتاتے ہیں۔ یہ وحدت الوجود کے تصور سے بیحد قریب ہے۔ مصنفہ کہتی ہیں کہ وید و اپنشد دراصل ان متلاشیان حق کا کشف ہے جو انھوں نےزندگی کی تکالیف پر بیابانوں اورغاروں میں گہرے تدبر اور مراقبے کے ذریعے حاصل کیا۔
نمیتا ان کتابوں کا تعارف تعلیمی انداز میں نہیں پیش کرتیں۔ نرمی اور مٹھاس کے ساتھ ایک بیانیہ تشکیل دیتی ہیں۔ اس قدرآفاقیت کہ آپ اگر ان خیالات کے مجموعے کو ہندو فلسفہ نہ بھی کہیں تو اُن کو کوئی اعتراض نہ ہوگا لہٰذا ہندو طرززندگی کا سب سے نمایاں عنصریعنی بت پرستی، غیراہم نظر آنے لگتا ہے۔ وہ ذات پات کی اونچ نیچ اور توہم پرستی وغیرہ پر کوئی تفصیلی نقد و تبصرہ بھی نہیں کرتیں۔ اپنی باتیں مثبت انداز میں رکھتی ہیں۔
مانڈوکیا اُپنشد کا گیان پیش کرتی ہیں؛ آپ کو اندھیرے میں سانپ جیساکچھ نظر آتا ہے اور آپ خوفزدہ ہو کر اچھل پڑتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ اس چیز پر روشنی ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ محض ایک رسّی ہے۔ اس کہانی کا ایک حقیقی حصہ ہے اورایک غیر حقیقی۔ قطعی، حقیقی اور ناقابل تردید حصہ یہ کہ کچھ ہے یعنی’وہ ہے‘ جبکہ سانپ غیر حقیقی ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، وہ پوری حقیقت نہیں ہے۔ آسمان نیلا نہیں ہے، اور سورج واقعی سمندر میں غروب نہیں ہوتا۔ ہمارے خیالات اور حواس دنیا کا تجربہ کرنے کی صرف ایک جہت پیش کرتے ہیں۔ ہمارے الجھے، بے ترتیب یا دھندلے خیالات اکثر بہت سی رسیّوں کو سانپوں میں بدل دیتے ہیں۔ واحد مطلق سچائی ہے:’وہ ہے.... وہ ہے.... وہ ہے۔‘‘
علی باغ میں بھنگار کے کاروباری عائشہ اورعیش محمد، کچرے کباڑ کے ڈھیر سے سٹے ایک شیڈ میں رہتے ہیں۔ ان سے نمیتا نے ہندوستان کے کوڑے کباڑ کے سسٹم کے متعلق بہت کچھ سیکھا۔ ان سے متاثر ہو کر نمیتا نے کچرے کے انتظام میں دلچسپی پیدا کی اور بہتر طریقوں کی تلاش شروع کردی۔ اس طرح انھیں کھاد بنانے کا طریقہ کمپوسٹنگ معلوم ہوا۔ اُن کے ایک کزن نے دہلی کے بڑے بڑے مندروں کو قائل کرنا شروع کردیا کہ وہ چڑھاوے کے پھولوں کو جمنا میں پھینکنے کے بجائے کھاد میں تبدیل کریں۔ اس طرح اطراف کے کاشتکاروں کو مفت کھاد ملی۔ آبی آلودگی کچھ کم ہوئی۔ پیچیدہ مسائل کے حل آسان بھی ہوسکتے ہیں۔ وہ ری سائیکلنگ میں اشیاء کی ماہیت میں تبدیلی کا قانون دیکھتی ہیں۔ ایک بیج کو برگد بننے کیلئے اپنا بیج پن چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر اپنےاندر موجود ایک کل کائنات کو حاصل کرنا ہو تو چھوٹے پن کےاحساس کو ترک کرنا پڑتا ہے۔ ویدانت کا نظریہ ہے کہ ہر چیز ٹوٹ کر کسی اور چیز میں بدل جاتی ہے، یعنی ہر شئے میں ہردم تبدیلی کی ایک ممکنہ قابلیت موجود رہتی ہے۔ اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صرف اپنے آپ کو بدل سکتے ہیں اور یہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ نمیتا کہتی ہیں کہ اس پرعمل کرنے کیلئے آپ کو ہندو ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
نمیتا کتاب کے صفحات پر دل کو چھو لینے والے انداز میں جوگیا رنگ بکھیرتی ہیں۔ آج رنگ نفرت اور تعصب کی علامت بنے ہوئے ہیں جبکہ نیلگوں آسمان اور سرسبز زمین سبھی سرخ خون والوں کیلئے ہمیشہ سے یکساں مفید رہے ہیں۔ موجودہ پُرآشوب حالات کے تناظر میں نمیتا دیوی دیال کے ٹینجرین کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ یہ کتاب معلومات میں اضافہ اور فاصلوں میں کمی کرے گی۔ پڑھی جانی چاہئے۔راقم الحروف اگر کسی دن نماز کے بعد پالتی مارکر اور آنکھیں موند کر بیٹھ جائے۔ دل و دماغ کو بالکل خالی کرنے کی کوشش کرے؛’’ ہمیں سیدھی راہ دکھا۔‘‘ تو یقیناً ایک خوشنما عبارت نظر آئے گی؛’’اﷲ کا رنگ اختیار کرو۔‘‘