مومن پورہ کے ۸۵؍سالہ انصاری محمدصدیق نے کئی جگہ ملازمت کی، پیٹی کا کام سیکھا، پاور لوم سے وابستہ رہے، الیکٹریشین کا کام کیا، مسقط میں نوکری کی ، واپسی پر مدنپورہ میں کپڑوں کی تجارت کی اور پھر ایک مسجد میں خاد م و موذن کے طور پر بھی اپنی خدمات پیش کیں۔
انصاری محمد صدیق محمد اسماعیل۔ تصویر:آئی این این
مومن پورہ کے ۸۵؍سالہ انصاری محمد صدیق محمد اسماعیل کی پیدائش ۶؍فروری ۱۹۴۰ءکو مومن پورہ میں ہوئی۔ مومن پورہ اہلحدیث مسجداسکول سے ابتدائی اور مومن پورہ میونسپل اُردو اسکول سے چوتھی جماعت تک پڑھائی کرکےمورلینڈروڈ کے پتھروالی اسکول سے ساتویں کاامتحان پاس کیا۔ مالی کسمپرسی سےآگےکی پڑھائی نہیں کرسکے۔نوعمری ہی سے مزدور ی کی۔ پہلے پیٹی کاکام سیکھا ، بعدازیں پاورلوم کے کام سے تقریباً ۱۵؍سال وابستہ رہے۔ اس کےبعد الیکٹریشین کا کام سیکھ کرملازمت کیلئے مسقط گئے۔ وہاں بھی تقریباً ۱۲؍ سال ملازمت کی۔ وہاں سےواپسی پر مدنپورہ میںکپڑوںکاکاروبارکیا۔کپڑوںکےکاروبارمیںنقصان ہونے پر اسے بند کر کے مولاناآزادمدرسہ میں خادم کی حیثیت سے ملازمت کی اور وہیں پر موذن کے طورپر بھی خدمات انجام دیں۔
والدین کا انتقال بچپن ہی میں ہو جانے کی وجہ سے محمد صدیق اور ان کے۴؍بھائیوں اور۳؍بہنوںنے غربت اورمفلسی میں ابتدائی زندگی گزاری۔تنگدستی کی وجہ سے گھر میں اکثر فاقے ہوتے تھے۔ برسوں تک رات کی باسی روٹی کو کالی چائےمیںملا کر بھائی بہنوںکا ناشتے کا معمول رہاہے اور دن میں ایک ہی مرتبہ ہی کھاناکھاتے تھے۔ وہ جہاں رہتے تھے، وہاںچال میں ایک بڑی نیک خاتون ان کی ہمسایہ تھیں۔و ہ ان بھائی بہنوں کے کھانے پینے کا بڑا خیال رکھتی تھیں۔ ان کے گھر میں اپنی گنجائش کےمطابق اناج وغیرہ بھروادیتی تھیں، جس سے آسراہوجاتا تھا۔ اس خاتون کا احسان آج بھی یاد آتا ہے۔
محمد صدیق کو بچپن ہی سے مطالعے کابڑا شوق تھا۔وہ عوامی ادارہ، مومن پورہ اسپورٹس کلب لائبریری، مدنپورہ ، بڑی مسجد کےقریب واقع فیضان لائبریری اور مدنپورہ کی نگار لائبریری سے اپنی پسند کی کتابیں لاتے اور انہیں بڑی یکسوئی سے پڑھتے تھے۔ ضخیم سے ضخیم کتابوںکو ایک دن میں پڑھنا ان کاہدف تھا۔ برسوں تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ اس دوران سیکڑوں تاریخی، جاسوسی اوررومانی کتابوں کامطالعہ کیا۔ ایک روزاچانک خیال آیا کہ اگراتناوقت قرآن کریم کوپڑھنےمیں صرف کیا ہوتا تو کتنا ثواب ملتا۔اس دن سے ان کتابوںکو پڑھنے کا سلسلہ ترک کرکےقرآن مجید پڑھنا شروع کیا،جو اَب بھی جاری ہے۔اس عمل کوشروع کئےہوئے ۵۰؍سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکاہے۔
محمد صدیق کی آواز اسکول کے زمانے سے بڑی دلکش اور دل میں اُتر جانےوالی رہی ہے۔ اسکول میں ہونےوالےثقافتی پروگراموںمیں انہی سے دعا اور نظم وغیرہ پڑھوائی جاتی تھی۔ انہیں بھی بلند آوازمیں دعا اور نظم پڑھنے کابڑا شوق تھا۔ مسقط میں جہاں ملازمت کرتے تھے وہاں فیکٹری کے احاطے میں ایک مسجد تھی ، وہاں بھی اذان دینا شروع کیا تھا۔ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی ایک مسجدمیں اذان دینےکاموقع ملا۔ مسقط سے ممبئی لوٹنے پر ایک روز مومن پورہ اہلحدیث مسجد میں عصر کی نماز کیلئے بیٹھے تھے ، مسجد کے خادم ادریس بھائی نے ان سے کہا کہ صدیق بھائی اذان دیں گے؟ جس کا اثبات میں جواب دے کر ،انہوںنے بلند آواز میں اذان دی، ان کی اذان کو لوگوںنے بہت پسند کیا۔ بعدازیں برسوں انہوں نے اذان دی ۔ ان کی اذان کی بلند آواز مومن پورہ سے بائیکلہ پر واقع مسینہ اسپتال تک جاتی تھی۔ وہاں کے ڈاکٹر شکیل ان کی اذان کی آواز سن کر نماز اداکرتے تھے۔
اس دورمیںمومن پورہ کے نوجوانوںکو مچھلی کاشکارکرنے کا بڑا شوق تھا۔محمد صدیق بھی مچھلی کا شکار کرنے جاتےتھے ۔ ایک مرتبہ منوری گئے تھے ۔ شکارکرنےکےدوران سمندرکےکافی اندر چلے گئے ۔ رات کا وقت تھا، سمندری لہریںٹھاٹھیں ماررہی تھیں، اچانک ایک بڑی مچھلی ،چھوٹی مچھلی پر حملہ آور ہوئی ۔ اس کا جارحانہ حملہ خطرناک تھا، جس سے محمد صدیق خوفزدہ ہوگئے ،فوراً وہاں سے راہ فرار اختیار کی اور ساحل پر پہنچے ۔اس کےبعد رات کےوقت مچھلی کے شکار کی کوشش نہیں کی۔ سب سے بڑی ساڑھے ۶؍کلووزنی ہیکڑو مچھلی کا شکارکرنےپر وہ بہت خوش ہوئے تھے۔
عوامی ادارے میں ہونےوالے پروگراموںمیں بھی انہوںنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ کئی پروگراموںکی نظامت کی تھی۔ یہیںپر فلم اداکار بلراج ساہنی ، معروف شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، اے کے ہینگل ، کامریڈ ڈانگے اور بابورائو جگتاپ وغیرہ کو دیکھنے کا موقع ملا تھا۔
محمد صدیق کو فلمیں دیکھنے کابڑا شوق تھا۔ اگر کسی فلم کاکوئی منظر چھوٹ جاتا،اس سین کو دیکھنے کیلئے فلم کو وہ دوبارہ دیکھتے تھے۔ فلم اداکاروںکودیکھنےکیلئے اکثر فیمس اسٹوڈیو جاتےتھے۔ وہاں اس دور کی معروف ہیروئن سیما، ہیرو محمود اور دیگر اداکاروںکو دیکھنے کا موقع ملاتھا۔
محمد صدیق ایک مرتبہ اپنے ۸۔۱۰؍ ساتھیوں کے ہمراہ چوپاٹی نہانےگئے تھے۔ ان میں ایک لڑکا تیراکی سے ناآشنا تھا۔ سب دوست سمندر میں نہارہے تھے کہ اچانک سمندری موجیں بڑھنے لگیں، تیز لہروں میں خود کو سنبھالنا مشکل تھا،ایسےمیں سبھی دوست سمندر سے باہر آنے لگے، لیکن جس دوست کو تیرنا نہیں آتاتھا ،وہ لہروںمیں پھنس گیا۔ایسے میںتمام دوستوںنے مل کر اسے کسی طرح لہروں سے کھینچ کر باہر لانے میں کامیابی حاصل کی ۔ اس کےبعد سمندر میں نہانے جانا بندکردیا۔
مومن پورہ اسپورٹس کلب کے ینگ فٹبال کلب سے وابستہ رہے، محمد صدیق کو بچپن سے فٹ بال کھیلنے کا شوق تھا۔فٹ بال کھیلنے کےجنون کااندازہ اس سے کیاجاسکتاکہ ایک مرتبہ فٹ بال کو کک مارتےوقت پھسل جانے سے ان کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے پاس کی ہڈی ٹوٹ گئی، جس کی وجہ سےانہیں اسپتال داخل کیاگیا۔ چوٹ کی شدت کی وجہ سے ۲؍سال تک فٹ بال نہیں کھیل پانے کا انہیں بڑا افسوس رہا۔ اس کےبعد دوبارہ فٹ بال کھیلنا شروع کیا۔ انہیں متعدد انعامات سے نوازاگیاہے۔
انگریزوں کے دورکومحمد صدیق نے دیکھا ہے ۔ انگریز بہت اُصول پرست تھے ۔عوام کا خیال رکھتے تھے۔انگریز افسران راشن کی دکانوں کادورہ کرکے اناج کی کوالیٹی کی جانچ کرتے تھے۔ قیمتوںکا تخمینہ لگاتےتھے۔ ناقص اناج کی سپلائی تونہیں ہورہی ہے اس کی جانچ کرتے تھے۔ اناج مہنگاتونہیں فروخت کیا جا رہا ہے۔ان تمام باتوںکا خاص خیال رکھتے تھے۔ ان کے بچپن میں محلے کے بزرگوںکو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔بچے اپنے بڑوں سے ڈرتے تھے۔ انہیں دیکھ کر گھروںمیں بھاگ جاتے تھے۔ محمد صدیق اپنے دوستوں کے ہمراہ ،محلے میں کچھ کھیلتے تھے اور اچانک کوئی بڑا شخص آتے دکھائی دیتا تو سب کے سب احتراماً وہاں سے بھاگ جاتے تھےجبکہ آج بڑے بزرگوںکی موجودگی میں بچے بدتمیزی ، گالی گلوچ اور ہنگامہ آرائی کرتےہیں۔
۸۵؍ سال کےعرصے میں محمد صدیق نے کئی مرتبہ زلزلوں کے جھٹکوں کو محسوس کیا ہے۔ زلزلہ آنے پران کی پوری بلڈنگ ہل جاتی تھی۔ لوگ خوف سے ایک دوسرے پر گرتے پڑتے گھروں سے نکل کر کھلی جگہ پر جمع ہوتے تھے۔ اذانیں دی جاتی تھیں۔ بجلی منقطع ہوجاتی تھی۔ زلزلہ سے ہونےوالی تباہیوں سے لاکھوںروپے کا نقصان ہوتا، جانی اورمالی نقصان سے لوگ پریشان ہوکر نقل مکانی کرتے تھے۔