Inquilab Logo

انتخابات اور سیاسی پارٹیوں کے دعوے!

Updated: March 27, 2024, 11:12 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

ایک طرف حکمراں جماعت اور قومی جمہوری اتحاد اپنی واپسی کے لئے ہر وہ حربہ اپنانے کو تیار ہے جس سے ان کی کامیابی یقینی ہو سکے تو دوسری طرف حزب اختلاف اتحاد اور کئی علاقائی سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف صف بندی کی کوشش میں ہیں

Elections
انتخابات

وطن عزیز ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے ۔ انتخابی کمیشن کے اعلامیہ کے مطابق یہ انتخابی عمل سات مرحلوں میں مکمل ہوگا۔موجودہ حکمراں جماعت نے ملک میں صاف و شفاف ماحول میں انتخابی عمل کو پورا کرنے کے لئے سات مرحلوں میں ووٹنگ کو مفید قرار دیا ہے جب کہ حزب اختلاف کی پارٹیوں کی طرف سے اتنے طویل عرصے تک انتخابی عمل کے جاری رہنے پر سوال اٹھایا گیا ہے ۔ واضح ہو کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اس لئے یہاں کے انتخابات پر پوری دنیا کی نگاہ ٹکی رہتی ہے۔اگرچہ اس وقت ملک میں جس طرح کی فضا پروان چڑھ رہی ہے اس میں جمہوریت کے وجود پرکئی طرح کے خطرے پیدا ہوگئے ہیں لیکن ہندوستانی عوام اپنی جمہوریت کی پاسداری کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
   گزشتہ کئی مہینوں سے ای وی ایم کو لے کر تکرار چل رہی تھی لیکن اب وہ تکرار بھی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے کہ جن لوگوں کی طرف سے ای وی ایم ووٹنگ کی مخالفت کی جا رہی تھی اور بیلٹ پیپرسے انتخابی عمل کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ان کی آواز  صدا بہ صحرا ثابت ہوگئی ہے۔البتہ اب بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ جاری ہے کہ ای وی ایم سے اگر ووٹنگ ہو رہی ہے تو ہر ایک بوتھ کے ای وی ایم کے ساتھ وی وی پیٹ کا انتظام ہو اور وی وی پیٹ کی شماری کو بھی یقینی بنایا جائے لیکن اس پر انتخابی کمیشن کی طرف سے کسی طرح کا وضاحتی بیان سامنے نہیں آیا ہے اس لئے سابقہ طرز پر ہی ووٹنگ ہونا طے ہے۔ واضح ہو کہ موجودہ حکمراں جماعت کے لئے یہ تیسرا پارلیمانی انتخاب ہے ۔ ۲۰۱۴ء  میں جب قومی جمہوری اتحاد کانگریس کو شکست دے  برسراقتدار آیا تھا  اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میںکابینہ کی تشکیل ہوئی تھی تو اس وقت ملک کی سیاسی فضا کچھ اور تھی کہ نہ صرف قومی جمہوری اتحاد بلکہ ملک گیر سطح پر مختلف رضا کار تنظیموں کے ذریعہ کانگریس کی مبینہ بد عنوانیوں کے خلاف تحریک چل رہی تھی جس کا خاطر خواہ فائدہ قومی جمہوری اتحاد کو ملا تھا۔ ۲۰۱۹ء  کے حالات بھی کچھ دیگر تھے۔ اب جب کہ ۲۰۲۴ء   میں پارلیمانی انتخابات ہونے جا رہے ہیں تو ملک کی سیاسی سمت و رفتار کچھ اور ہی ہے۔ملک کی سیاسی فضا کیسی ہے یہ جگ ظاہر ہے اور حکمراں جماعت کے سامنے حزب اختلاف اتحاد کی کیا حیثیت ہے اس سے بھی لوگ باگ واقف ہیں ۔
  دراصل حالیہ دہائیوں میں خواہ پارلیمانی انتخابات ہوں یا ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ، انتخابی ایجنڈے جذباتی اور اشتعال انگیزی پر مبنی رہے ہیں ۔ شاید اس کے لئے کوئی تیار نہیں ہے کہ عوامی مسائل پر انتخاب ہو۔ اس لئے حکمراں جماعت بھی اپنے کاموں کی بدولت عوام الناس سے ووٹ مانگنے  کے بجائے دیگر فروعی ایجنڈوں کو فروغ دینے میں مصروف ہے تو حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی حکمراں جماعت کی ناکامیوں کو گنانے سے کہیں زیادہ دوسرے مسائل کو ترجیحات میں شامل کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک کے جو انتخابی تقاضے ہیں وہ کہیںپس پردہ رہ جاتے ہیں اور انتخابی ایجنڈوں کا محور ومرکز منافرت واشتعال انگیزی بن جاتا ہے جس سے ہماری جمہوریت کو زبردست خسارہ پہنچ رہاہے ۔ 
 ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اس بار کا پارلیمانی انتخاب کئی معنوں میں غیر معمولی اہمیت وافادیت کا حامل ہے ۔ ایک طرف حکمراں جماعت اور قومی جمہوری اتحاد اپنی واپسی کے لئے ہر وہ حربے اپنانے کو تیار ہے جس سے ان کی کامیابی یقینی ہو سکے تو دوسری طرف حزب اختلاف اتحاد اور کئی علاقائی سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف صف بندی کی کوشش میں ہیں ۔ اگر سنجیدگی سے غوروفکر کریں تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ماضی کے ان دونوں پارلیمانی انتخابات میں حکمراں جماعت کے خلاف کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں آیا جس سے حزب اختلاف کو کوئی بڑا فائدہ مل سکے لیکن ۲۰۲۴ء کا یہ پارلیمانی انتخاب بالکل مختلف ہے ۔ ایک طرف حکمراں جماعت کے خلاف نئی  سیاسی صف بندی ’’انڈیا‘‘ کے طورپر ہوئی ہے تو دوسری طرف کئی طرح کی بد عنوانیوں کا انکشا ف بھی ہوا ہے ۔ حالیہ الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ مختلف سیاسی جماعتوں کو کارپوریٹ گھرانوں کا موٹی رقم بطورچندہ دیا جانا،ایک ایسا انتخابی موضوع بن گیاہے جو کئی سیاسی جماعتوں کے لئے دردِ سر بن سکتا ہے۔ بالخصوص حکمراں جماعت کے لئے ایک بڑی مشکل کے طورپر دیکھا جا رہاہے۔حزب اختلاف ، بالخصوص کانگریس پارٹی نے  الیکٹورل  بانڈ کے معاملے میں وزیر اعظم نریند ر مودی کو گھیرنے کی کوشش شروع کردی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر تمام الیکٹورل بانڈ کی تفصیلات ظاہر کردی ہے اور اب بہ آسانی ایک عام شہری بھی یہ جان گیا ہے کہ کس کمپنی نے کس سیاسی جماعت کو کتنی رقم دی ہے۔المناک پہلو تو یہ ہے کہ جس کمپنی کا سالانہ منافع صرف بیس کروڑ ہے وہ چار سو کروڑ روپے مالیت کے انتخابی بانڈ خرید کر ایک خاص جماعت کو بطور چندہ دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ الیکٹورل بانڈ اس ملک کا ایک بڑا اسکنڈل ثابت ہوگیاہے ۔حکمراں جماعت کی ناکامیوں کو بھی مشتہر کیا جا رہاہے لیکن ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ ملک کا قومی میڈیا  خواہ وہ الیکٹرانک ہو یا پرنٹ، دونوں الیکٹورل  بانڈکی حقیقت کو شائع کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں البتہ سوشل میڈیا بالخصوص یو ٹیوب چینلوں کے ذریعہ اس کی حقیقت کا پردہ فاش کیا جا رہا ہے۔شاید اسلئے یہ انتخاب بھی گزشتہ دو انتخابات کی طرح اشتعال انگیزی اور منافرت کے ایجنڈے کو فروغ دے کر انجام پائے گا۔
 اب دیکھنا یہ ہے کہ حزب اختلاف اور حکمراں جماعت اپنے دلائل سے عوام الناس کو کس طرح اور کیسے اپنی حمایت کے لئے تیار کرتے ہیں۔ حزب اختلاف کا یہ مبینہ الزام کہ حکمرا ںجماعت مختلف طرح کے حربے اپنا رہی ہے اور بالخصوص سرکاری اداروں جن میں سی بی آئی، ای ڈی اور دیگر آئینی تنظیمیں شامل ہیں ان کا استعمال کر کے نہ صرف کارپوریٹ گھرانوں سے بطور چندہ موٹی رقم وصول کی گئی ہے بلکہ حزب اختلاف کو ان ہی اداروں کے استعمال کے ذریعہ ہراساں اور خوفزدہ کرنے کی کوشش جاری ہے۔حزب اختلاف کے ان دعوؤں میں کچھ دم بھی دکھائی دے رہا ہے کہ جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری کو اسی نظریے سے دیکھا جا رہا ہے۔اگرچہ حکمراں جماعت تمام تر الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی رہی ہے لیکن فیصلہ تو عوام الناس کو کرنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی شناخت کو مستحکم رکھنے کے لئے ہم شہریوں کا عمل کیا ہوگا۔کیا ہم پھر جذباتی ایجنڈوں کے مکڑ جال میں پھنس کر رہ جائیں گے یا پھر ملک وقوم کے مفاد میں ہم رائے دہندگان ملک کو ایک نئی سمت ورفتار عطا کریں گے۔کیوں کہ پوری دنیا کی نگاہ اس وقت ہندوستان پر ٹکی ہوئی ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK