Inquilab Logo

زیادہ بیان بازی اور کم پولنگ

Updated: April 27, 2024, 1:11 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

انتخابی مہم دھوم دھام سے جاری ہے۔ کل دوسرے مرحلے کی پولنگ ہوئی اور اس مرحلے تک آتے آتے سیاسی درجۂ حرارت خاصا بڑھ چکا ہے۔ موجودہ عہد میں ہمارے یہاں الیکشن کے دوران جب بھی سیاسی درجۂ حرارت بڑھتا ہے، الزام تراشی کی کوئی حد نہیں رہ جاتی اور اخلاقیات کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں ۔ وہی ہورہا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 انتخابی مہم دھوم دھام سے جاری ہے۔ کل دوسرے مرحلے کی پولنگ ہوئی اور اس مرحلے تک آتے آتے سیاسی درجۂ حرارت خاصا بڑھ چکا ہے۔ موجودہ عہد میں   ہمارے یہاں   الیکشن کے دوران جب بھی سیاسی درجۂ حرارت بڑھتا ہے، الزام تراشی کی کوئی حد نہیں   رہ جاتی اور اخلاقیات کی دھجیاں   اُڑا دی جاتی ہیں  ۔ وہی ہورہا ہے۔ اگر دوسرے مرحلے کی تکمیل تک یہ حال ہے تو کہا نہیں   جاسکتاکہ چھٹے اور ساتویں   مرحلے تک کیا ہوگا۔ زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ جن بیانوں   کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ کسی اور کے نہیں  ، خود وزیر اعظم کے ہیں   جنہوں   نے کانگریس کے تعلق سے یہ خوف پھیلانے کی کوشش کی کہ وہ برسراقتدار آئی تو ’’غریب خواتین کا منگل سوتر تک چھین لے گی‘‘ یا مسلمانوں   کو ’’زیادہ بچے پیدا کرنے والے‘‘ اور ’’گھس پیٹھئے‘‘ کہہ کر اُن پر بے سر پیر کا الزام لگایا اوراُنہیں   دِلی تکلیف پہنچائی ۔ اس سے قبل اُنہوں   نے کانگریس ہی کو متہم کرنے کیلئے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ایک بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر نقل کیا اور اس کے ذریعہ بھی ملک کے مسلمانوں   ہی کو مجرموں   کے کٹہرے میں   کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح یہ الیکشن اپنے ابتدائی مراحل ہی میں   ’’ہندومسلم سیاست‘‘ کی زد پر آچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ افسوسناک ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مقصد کے تحت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران اس سیاست پر انحصار کرتے ہیں   اُس میں   اُنہیں   کامیابی نہیں   مل رہی ہے، ’’پولرائزیشن‘‘ ہو نہیں   رہا ہے جیسا کہ ماضی میں   اس قسم کے بیانات سے ہوجاتا تھا۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ملک کے شہری سیاستدانوں   کے جھانسے میں   آنے کے بجائے اپنے تجزیئے اور تجربے پر انحصار کرنا چاہتے ہیں  ۔ ’’منگل سوتر‘‘ کا خوف دلانے سے وہ خوفزدہ نہیں   ہونا چاہتے اور سابق وزیر اعظم کا بیان چونکہ پہلے بھی خاصا موضوع بحث تھا اور اس کی حقیقت اُن پر واضح ہے اس لئے وہ اس کی وجہ سے بھی بدگمان نہیں   ہونا چاہتے۔
  پولرائزیشن نہ ہونا ایک اچھی خبر ہے مگر بہت سے ووٹرس اگر سیاست سے بددلی کے سبب پولنگ بوتھ نہیں   جارہے ہیں   تو یہ اچھی خبر نہیں   ہے۔ کل شام تک پولنگ فیصد کی جو ابتدائی خبریں   موصول ہوئیں   اُن سے واضح تھا کہ پولنگ جو پہلے مرحلے میں   کم تھی، دوسرے میں   بھی کم ہی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتیں   اور تجزیہ کار ووٹروں   کی بے دلی اور بے رخی کا اپنے اپنے طور پر تجزیہ کرینگے کہ اس کا نقصان کس کو ہوگا اور اس کا فائدہ کسے مل سکتا ہے۔ ہمارا کہنا ہے کہ اس سے جمہوریت کا نقصان ہوگا کیونکہ اتنا وسیع اور عظیم جمہوری عمل کسی اور کے لئے نہیں  ، رائے دہندگان ہی کیلئے برپا کیا جاتا ہے۔ 
 جہاں   تک بی جے پی کی انتخابی سیاست کا سوال ہے، ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’منگل سوتر‘‘ اور ’’وسائل پر پہلا حق‘‘ پر وزیر اعظم نے اتنی زور آزمائی کی کہ ’’اِس بار،چار سو پار‘‘ کا اپنا ہی نعرہ بھول گئے۔ ہم نہیں   جانتےکہ بھول گئے یا دانستہ بالائے طاق رکھ دیا۔ زیادہ امکان دانستہ بالائے طاق رکھنے کا ہے، وہ بھی شاید اس لئے کہ اُنہیں   ’’چار سو پار‘‘ تو کیا ’’تین سو پار‘‘ کے آثار بھی دکھائی نہیں   دے رہے ہیں  ۔ چونکہ ہندوتوا نہیں   چلا، اینٹی اِن کمبینسی اپنی جگہ موجود ہے اور شدید ہے، انتخابی مہم کو بے روزگاری اور مہنگائی جیسے اصل عوامی موضوعات پر لے جانا اور اپنی حصولیابیاں   گنانا بی جے پی کے اختیار میں   نہیں   ہے اسلئے ایسا لگتا ہے کہ آئندہ مرحلوں   میں   بھی اس کی جانب سے متنازع بیانات اور تقاریر ہی ہوگی اور کچھ نہیں  ۔ جو پارٹی سا بقہ دو انتخابات میں   غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار رہی ہو اس کا ایسا کرنا کھسکتی زمین کا اشارہ ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK