Inquilab Logo

زندہ باد سپریم کورٹ!

Updated: February 16, 2024, 1:30 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

الیکٹورل بَونڈس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ویسا ہی ہے جیسا کہ ہونا چاہئے۔ حالیہ برسوں کے بعض فیصلوں کے پیش نظر، جن سےعوام و خواص میں بے اطمینانی پیدا ہوئی، اب ہر فیصلے کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے کہ یہ فیصلہ آئین کی روح کے مطابق ہوگا یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ قانون کی کسی الگ زاویئے سے تشریح کی جائیگی؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

الیکٹورل بَونڈس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ویسا ہی ہے جیسا کہ ہونا چاہئے۔ حالیہ برسوں  کے بعض فیصلوں  کے پیش نظر، جن سےعوام و خواص میں  بے اطمینانی پیدا ہوئی، اب ہر فیصلے کے بارے میں  سوچنا پڑتا ہے کہ یہ فیصلہ آئین کی روح کے مطابق ہوگا یا نہیں ؟ کہیں  ایسا تو نہیں  ہوگا کہ قانون کی کسی الگ زاویئے سے تشریح کی جائیگی؟ مثال کے طور پر، عبادت گاہوں  سے متعلق ۱۹۹۱ء کا قانون اپنی جگہ موجود ہونے کے باوجود بعض عدالتیں  عباد گاہوں  کے تعلق سے کھڑے کئے گئے تنازعات پر مبنی مقدمات کو سماعت کیلئے منظور بھی کررہی ہیں  اور فیصلے بھی سنا رہی ہیں ۔ اس سلسلے میں  خود بابری مسجدکا فیصلہ سب سے بڑی نظیر کے طور پر سامنے آتا ہے جس میں  عدالت نے ملکیت کا فیصلہ نہیں  کیا بلکہ ایک تنازع کا تصفیہ کرکے دلائل پر مبنی بحث کے تمام دروازے بند کردیئے۔ اسی طرح پارٹیوں  کی ٹوٹ پھوٹ سے متعلق مقدمات ہیں  جو عدالتو ں میں  پہنچے۔ ان میں  متاثرہ پارٹیوں  کو عدالت کی جانب سے خاطرخواہ تعاون نہیں  ملا جو صحتمند جمہوریت کی بقاء کیلئے ضروری تھا۔ بہرکیف، جہاں  تک الیکٹورل بَونڈس کا تعلق ہے، سپریم کورٹ کی پانچ رُکنی بنچ نے گزشتہ روز جو فیصلہ سنایا وہ تاریخی ہے اور ملک کی سیاسی جماعتوں  کی مالی یافت میں  شفافیت لانے نیز ان کے بارے میں  شہریوں  کے حق ِ اطلاع کے حوالے سے نہایت اہم ہے۔ مودی حکومت نے اس اسکیم کو جاری کرکے انتخابی عطیات کے حصول کا دروازہ کچھ اس طرح کھولا تھا کہ جو بھی عطیات ملیں  اُنہیں  قانونی جواز حاصل رہے۔ مگر چونکہ یہ بڑی کمپنیوں  اور تجارتی و صنعتی گھرانوں  کے ساتھ ایک طرح کی ساز باز تھی جس کے تحت بہت کچھ لینے کے صلے میں بہت کچھ دینے کے دروازے کھول سکتی تھی اس لئے سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی قرار دے دیا اور کہا کہ اگر آپ یہ جواز پیش کرتے ہیں  کہ اس کا مقصد بلیک منی کو روکنا ہے تو اس مقصد کی تکمیل درجنوں  دیگر ذرائع سے ہوسکتی ہے۔
 یاد رہے کہ انتخابی عطیات (الیکٹورل بَونڈس) کی مذکورہ اسکیم کے تحت سیاسی پارٹیوں  کو جو خطیر رقومات ملیں  اُن میں  سب سے زیادہ حکمراں  جماعت (بی جے پی) کے حصے میں آئیں ۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ اس پارٹی کو بڑی رقم فراہم کرنے والے افراد یا ادارے اپنی فراخدلی کے عوض کچھ چاہتے تھے۔ چونکہ ان کے نام مخفی رکھنا اسکیم کی اہم شق تھی اس لئے کوئی نہیں  جانتا کہ کس نے دیا، کتنا دیا اور اس دریا دِلی کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔ چونکہ ’’کون؟‘‘ کا جواب دستیاب نہیں  تھا اس لئے ’’کیوں ؟‘‘ کا سوال پیدا نہیں  ہوسکتا تھا کہ اگر حکومت نے کوئی اسکیم جاری کی ہے (مثال کے طور پر کارپوریٹ کمپنیوں کو ٹیکسوں  میں  چھو‘ٹ) تو ایسا کیوں  کیا گیا۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ’’کون؟‘‘ کا جواب ملے گا تو اُمید کی جاتی ہے کہ ’’کیوں ؟‘‘ کا جواب بھی سجھائی دے گا اور حکومت کے متعدد اقدامات آئینے میں  آسکیں  گے۔ واضح رہے کہ بی جے پی کو مجموعی عطیات کا ۹۰؍ فیصد سے زیادہ ملا۔ یہ اتنی بڑی یافت تھی کہ کانگریس، آپ، سی پی ایم اور دیگر کو اس کا عشر عشیر بھی نہیں  ملا، اسی لئے یہ سوال پیدا ہوا کہ آخر بیشتر بڑے عطیات بی جے پی ہی کو کیوں ملے۔ بہرکیف، سپریم کورٹ نے اپنا فرض پورا کیا، الیکٹورل بَونڈس کی اسکیم کو باطل قرار دیا، اب تک کے عطیات کی تفصیل منظر عام پر لانے کی ہدایت دی اور اس طرح ملک کی جمہوریت پر بڑا احسان کیا۔ زندہ باد سپریم کورٹ! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK