Inquilab Logo

متعدی ہونے سے قبل سماجی بُرائیوں کو ختم کیجئے

Updated: July 03, 2020, 9:42 AM IST | Mudassir Ahmed Qasmi

کچھ بُرائیاں ایسی ہیں کہ اگر ابتداء میں ان کو روکنے اور ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جا تی ہے تواُن کے ہلاکت خیزاثرات انفرادی زندگی سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔

Shop, Mumbai - Pic : PTI
دکان ممبئ۔ تصویر : پی ٹی آئی

کچھ بُرائیاں ایسی ہیں کہ اگر ابتداء میں ان کو روکنے اور ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جا تی ہے تواُن کے ہلاکت خیزاثرات انفرادی زندگی سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ انفرادی زندگی کی غلطیوں پر ارد گرد بسنے والے عام لوگ مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا اُس برائی کو اپنا معاملہ نہ سمجھ کر اس سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں۔ اس تمہید سے `بُرائی سے روکنے اور اچھائی کی طرف بلانے `کی  اسلامی تعلیم کی حکمت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔منجملہ متعدی سماجی بیماریوں میں سے تین بُرائیوں کا تذکرہ اور قباحت ذیل کی حدیث میںمذکور ہے۔
عبداللہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ  نے ارشاد فرمایا: ’’تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ  تعالیٰ قیامت کے دن رحمت کی نظر نہیں فرمائیں گے؛ ایک وہ جو اپنے والدین کی فرمانبرداری نہیں کرتا، دوسرا وہ جو عادی شرابی (نشہ باز) ہے اور تیسرا وہ جو غریبوں کو خیرات دیتا ہے لیکن بعد میں اُنہیں اپنی عطیات کی یاد (عار) دلاتا ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم) اِس حدیث ِ مبارکہ میں حضور ؐ نے ہمیں ایسے تین گناہوں کے بارے میں بتلا یا ہے جو آخرت میں انسان کی تباہی کا سبب ہوں گے؛ بھلا اُس شخص کی بربادی میں کوئی شک ہو سکتا ہے جس کی طرف اللہ نظر ِ کرم نہ فرمائیں! آخرت میں بُرے نتائج کے علاوہ یہ تینوں بُرائیاں ایسی ہیں جو دنیا میں بھی انفرادی اور بالواسطہ اجتماعی محرومی اور پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔
حدیث پاک میں مذکور پہلی بُرائی اور گناہ والدین کی نافرمانی ہے۔ والدین کی فرمانبرداری کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ اگر والدین اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہیں دے رہے ہیں تو اُن کا ہر حکم اور اشارہ ماننا ضروری ہے۔اگر وہ ایسا کوئی حکم دیتے ہیں جس سے اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے تو اُنہیں احترام کے ساتھ بتا دیا جائے کہ ہم اللہ کی نافرمانی نہیں کر سکتے۔ والدین کی نافرمانی اس وجہ سے متعدی سماجی بُرائی ہے کہ اگر ہم اپنے والدین کی نافرمانی کرتے ہیں تو ہم سے جو چھوٹے ہیں یا جو ہماری اولاد ہیں ،وہ ہم کو دیکھ کر یہی چیز سیکھ لیتے ہیں۔
 اس بیماری کے متعدی ہونے کے تعلق سے ایک اہم نکتہ علمائے ربانی نے یہ بیان کیا ہے کہ والدین کی نافرمانی وہ گناہ ہے جس کی سزا آخرت میں تو ملے گی ہی لیکن دنیا میں بھی اس کی پاداش میں نافرمانی کرنے والوں کو خود اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔  نافرمانی کے اس متعدی گناہ سے بچنے کے لئے سماج کے مصلحین کو اِس باب کی تعلیم و تربیت کو جدید اور متاثر کن طریقوں سے بچوں کے دل و دماغ میںراسخ کرنا ہوگا اور ایسے ماحول سے بچانا ہوگا جہاں سے نافرمانی کی تخم ریزی ہوتی ہے۔
حدیث پاک میں مذکور دوسری بُرائی اور گناہ شراب نوشی ہے۔آخرت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ، اِس بُرائی کی دنیاوی تباہ کاریاں ہر صاحبِ عقل و فہم پر واضح ہیں۔ خاص طور پر آج ہماری نوجوان نسل نشہ کے دام میں پھنسی ہے؛ ہمارے درمیان موجود نشہ مافیا نے اور بازار میں موجود مختلف قسم کی نشہ آور چیزوں نے انہیں پاگل بنا رکھا ہے۔ اِ س سماجی بُرائی کا متعدی ہونا توجگ ظاہر ہے، چنانچہ آج اسکول سے لے کر محلے کی گلیوں تک اور بازار سے لے کر نامعلوم اور عوام کی نگاہوں سے چھپے  ہوئے  ٹھکانوں تک نشہ بازوں کو دیکھ کر سیکڑوں معصوم، گناہ کے اس دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔اِس سماجی بُرائی کو مٹانے کے لئے سب سے پہلے والدین کو چوکنا ہونا پڑے گا؛ کیونکہ اگر والدین ۲۴؍ گھنٹے اپنے بچوں پر نظر رکھیں گے، اُن کے ساتھیوں کے عادات و اطوار کا جائزہ لیں گے اور اُن کی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام کریں گے تو اُن کے نشہ کی لت میں مبتلا ہونے کی امکانات بہت کم ہوجائیں گے۔ سماج کے ذمہ داران کو بھی اِس حوالے سے مزید فعال ہونے اور نشہ سے پاک سماج کی تعمیر کیلئے بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس وبا  پر اگر قابو پا لیا گیا تو بگڑتی نوجوان نسل کے کامیاب مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
حدیث پاک میں تیسری بُرائی اور گناہ جس کا ذکر ہے وہ ہے غریبوں کو خیرات دے کر اُن کو بار بار یاد دلانا اور اُن پر احسان جتاناہے۔ خیرات ایک نیک عمل اور کارِ ثواب ہے؛ لیکن یہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنے رد عمل سے اس کام کو اپنے لئے اس طرح وبالِ جان بنا لیتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی طرف سے نظر پھیر لیں گے۔ یہ وہ بُرائی ہے جس کا مشاہدہ پہلے سے کہیں زیادہ کیا جارہا ہے۔اِس عمل کے ذریعہ  غریبوں کی عزت نفس کو تار تار کرنا بھی عیب نہیں سمجھا جارہا ہے۔یاد رکھئے! خیرات دے کر جتلانا اور بتلانا  صرف یہ نہیں ہے کہ اِس عمل کے بعد قولا ً یا عملاً اس کا بار بار اظہار کیا جائے بلکہ یہ بھی یاد دلانے اور بتلانے کے زمرے میں شامل ہے کہ خیرات دیتے وقت تصویر لے لی جائے اور اس کو بار بار اپنے مقاصد کے لئے اشتہارات میںشائع کیا جائے۔اِس نا پسندیدہ عمل سے بچانے کے لئے بھی سماجی مصلحین کو لوگوں میں اللہ رب العزت کیلئے خیرات کرنے کی تعلیم و ترغیب کو عام کرنا ہوگا اور اخلاصِ نیت کی اہمیت و افادیت کو حکمت کے ساتھ سمجھانا ہوگا۔
 اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو تمام سماجی برائیوں سے بچائے اور ایک پاکیزہ معاشرہ کی تعمیر کے مقصد سے  اُن بُرائیوں کو ختم کرنے کے لئے ہمیں جدو  جہد کرنے کی توفیق عطا  فرمائے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK