کسی قوم کی ترقی و عروج کے لئے اہم اورا بڑا عامل علم ہے۔ دنیا میں جتنی قوموں نے دیرپا عروج حاصل کیا، علم ہی کی بدولت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی تعلیمات میں حصولِ علم پر بڑا زور دیا ہے۔ قرآن و سنت کے صفحات میں جابجا اس کے فضائل نظر آتے ہیں۔ نبی کریم ؐ پر سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی اس میں حصول علم ہی کی تاکید کی گئی اور سب سے پہلے انسان پر خدا کی نعمت ِ علم ہی کو شمار کیا گیا۔
قرآن مجید کے مطالعے سے جو چیز سب سے پہلے ہمارے سامنے آتی ہے وہ کسی قوم کا اتحاد و اتفاق ہے۔ تصویر : آئی این این
’’دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں ، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اُس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں ، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لئے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں۔‘‘ (سورہ یونس:۲۴)
قرآن مجید کی مذکورہ آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ ظہور، کمال اور زوال فطرت کا وہ اصول ہے جو کائنات کی ہر چیز میں جاری و ساری ہے۔ پودا زمین سے پھوٹتا، پروان چڑھتا، درخت بن کر پھیلتا پھولتا اور پورے جوبن پر آکر مقررہ مدت کے لئے زمین کا زیور بنارہتا ہے،مگر آخرکار اس کی جڑیں سوکھنے اور شاخیں مرجھانے لگتی ہیں تاآنکہ وہ ٹنڈمنڈ ہوکر پیوند ِ زمین ہوجاتا ہے۔
کائنات کی ہر دوسری چیز کی طرح خود انسان کی انفرادی زندگی کا بھی یہی حال ہے۔ وہ ایک ناتواں بچے کی صورت میں جنم لیتا، بتدریج پروان چڑھتا اور عالم شباب کو پہنچتا ہے اور آخرکار بڑھاپے میں اضمحلال ِ قویٰ کا شکار ہوکر موت کے سیاہ دبیز پردوں کے پیچھے ہمیشہ کے لئے روپوش ہوجاتا ہے۔ اس کی اجتماعی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ قومیں صفحہ ٔ ہستی پر نمودار ہوتی ہیں ، جدوجہد سے غلبہ و اقتدار حاصل کرتی ہیں اور آخر میں زوال کا شکار ہوکر نکبت و ادبار کی ظلمتوں میں اس طرح گم ہوجاتی ہیں کہ صرف تاریخ میں ان کا نام رہ جاتا ہے۔
فطرت کا یہ اصول اس قدر ہمہ گیر ہے کہ دنیا کی کوئی قوم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:
’’ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے، پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم بھی نہیں ہوتی ۔‘‘ (اعراف:۳۴)
ظہور و زوال کا یہ درمیانی وقفہ کتنے عرصہ کا ہوتا ہے، فلسفہ اجتماع کے ماہرین نے اس کی مدت اپنے اپنے مشاہدے اور مطالعے کے مطابق بتائی ہے۔ کوئی اسے فرد کی زندگی سے تشبیہ دیتے ہوئے اس کی عمر، انسان کی زیادہ سے زیادہ ممکن عمر کے برابر یعنی ایک سو بیس کے قریب بتاتا ہے اور کسی کی رائے میں پانچ صدیاں گزرنے کے بعد ہر قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی۔ کیونکہ کسی قوم کی نسلی خصوصیات، اس کی عادات و مزاج، اس کے مذہبی معتقدات و اعمال، اس کی تاریخی روایات، آب و ہوا، محل وقوع، معاشی و تمدنی نظام، غرض بہت سے ایسے عوامل ہیں جو اس کی صلابت و جلاوت یا اس کے ضعف و اضمحلال پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ایک مضبوط اور صحت مند جسم بیماریوں کا زیادہ دیر تک مقابلہ کرسکتا ہے اور زیادہ عرصہ تک جی سکتا ہے جبکہ ایک پیدائشی طور پر لاغر و ناتواں انسان، آسانی سے جسمانی عوارض کا شکار ہوکر بہت جلد موت کے گھاٹ اترسکتا ہے۔
اِسی طرح وہ قوم جو جفاکش، شدائد و مشکلات کا تحمل کرنے والی ہو، جس کے اسلاف نے تاریخ میں غیرت و شجاعت اور ایثار و قربانی کے غیرمعمولی یادگار کارنامے چھوڑے ہوں ، جنہوں نے اس قوم کے اندر عزت سے جینے یا کٹ مرنے کا جذبہ ہمیشہ زندہ رکھا ہو، جو صحراؤں یا کوہستانوں کی سخت کوش زندگی کی خوگر ہو اور جس کا مذہب اسے پاکیزہ خیالات رکھنے اور پاکیزہ اعمال کی تلقین کرتا ہو، اس قوم کے مقابلہ میں زیادہ دیرپا ثابت ہوتی ہے جس کے سامنے عزت سے جینے کی کوئی مثال اس کے اسلاف نے نہ چھوڑی ہو یا تعیش و تنعم کی زندگی کی خوگر ہوجائے اور جسے خبائث اعمال سے روکنے والا اس کا اپنا کوئی اجتماعی ضمیر بھی نہ ہو۔ غالباً اسی لئے قرآن مجید نے یہ بات تو بار بار دہرائی ہے کہ لکل امۃ اجل کہ ہر قوم کے لئے ایک مدت مقرر ہے، لیکن اس مدت کا تعین کہیں نہیں کیا۔
البتہ بنی اسرائیل کے زوال اور امت مسلمہ کے کمال و عروج کی داستان ہمارے سامنے بڑی تفصیل سے رکھی ہے جس کے مطالعہ سے ہم عروج و زوال ِ امم کے قرآنی اصولوں کو ضرور معلوم کرسکتے ہیں ۔ بے شک دوسری بہت سی قوموں کے زوال کو بھی قرآن مجید میں بار بار دہرایا گیا ہے تاہم اس میں اس تفصیل سے کام نہیں لیا گیا جس سے بنی اسرائیل کے کردار کو بیان کیا گیا ہے۔
چونکہ قرآن مجید کوئی عمرانیات کی کتاب نہیں ، اس لئے اس میں ان اصولوں کو اسی طرح گن گن کر تو بیان نہیں کیا گیا جس طرح اس موضوع کی کسی دوسری کتاب میں بیان کیا جاتا ہے، البتہ امت ِ مسلمہ کے احوال و احکام کو جس تفصیل، تذکرہ، تاکید، تمثیل، اولیت اور اعادہ و تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان امور کو کسی قوم کے غلبہ اور تمکن فی الارض میں گہرا دخل ہے اور ان کا فقدان اس کے زوال و انحطاط کا مؤجب بن سکتا ہے۔
اس سلسلے میں قرآن مجید کے مطالعے سے جو چیز سب سے پہلے ہمارے سامنے آتی ہے وہ کسی قوم کا اتحاد و اتفاق ہے۔ ظاہر ہے جب تک کسی قوم کے تمام افراد باہم متحد نہیں ہوتے اور کوئی مضبوط رشتۂ وحدت انہیں باہم دگر وابستہ و پیوستہ نہیں کردیتا اس وقت تک اُسے وہ قوت و طاقت میسر نہیں آسکتی جس سے کام لے کر وہ دنیا والوں سے اپنا لوہا منواسکے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کے باہمی اتحاد و یگانگت کو نعمت ِ عظمیٰ قرار دیا ہے، اسے قائم رکھنے کی تاکید کی ہے اور انتشار و افتراق کے ہولناک نتائج پر متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تم کمزور پڑجاؤ گے ۔ چنانچہ آل عمران میں انہیں تاکید کی کہ ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ‘‘ (۱۰۳) اور سورہ انفال میں انتباہ کیا کہ ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔‘‘ (۴۶)
دنیا میں غلبہ و تمکن کے حصول کی اس خشت ِ اول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ خود رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیاکہ ایک دوسرے کے خون پیاسے قبائل کو باہم شیر و شکر کردینا آپ کے بس کی بات نہ تھی۔ یہ اللہ کا بہت بڑا فضل سمجھئے کہ اس نے نفرت و عصبیت کی دیواروں کو توڑ کر انہیں ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنادیا ۔ ان عربوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ بے شمار ایسے قبائل میں بٹے ہوئے تھے جو ہمیشہ معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے تھے۔ ان میں قبائلی تفاخر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ ان کی کوئی قوت نہ تھی۔ لیکن آپﷺ کی بعثت کے بعد وہ کلمۂ توحید پر اس طرح اخوت و یگانگت کے رشتے میں منسلک ہوگئے کہ ایک دوسرے کی خاطر جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ اس اتحاد و وحدت نے ان کو وہ قوت دے دی کہ وہ اپنے وقت کی دو سپر طاقتوں کو پامال کرکے انہیں اپنے زیرنگیں لے آئے، مگر شومیٔ قسمت سے امت ِ مسلمہ کی یہ وحدت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔
کسی قوم کی ترقی و عروج کے لئے دوسرا بڑا عامل علم ہے۔ ہوسکتا ہے ایک وحشی و جاہل قوم اپنی سفاکی و خونریزی کی بدولت چند روز کے لئے برسراقتدار آجائے مگر اس کے قصر ِ اقتدار کی بنیاد اتنی کمزور ہوتی ہے کہ بہت جلد زمین بوس ہوجاتی ہے جبکہ دنیا میں جتنی قوموں نے دیرپا عروج حاصل کیا، علم ہی کی بدولت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنی تعلیمات میں حصولِ علم پر بڑا زور دیا ہے۔ قرآن و سنت کے صفحات میں جابجا اس کے فضائل نظر آتے ہیں ۔ نبی کریم ؐ پر سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی اس میں حصول علم ہی کی تاکید کی گئی اور سب سے پہلے انسان پر خدا کی نعمت ِ علم ہی کو شمار کیا گیا۔ اور اس غیرمتناہی میدان میں جولانیوں کے لئے انسان کی غیرمحدود استعداد کی طرف اشارے کئے گئے۔ علم کے لئے اسی غیرمحدود استعداد کی بدولت آدمؑ نے فرشتوں پر برتری حاصل کی اور انہیں خلعت ِ خلافت سے نوازا گیا۔ اہل علم اور غیراہل علم میں جو بعدالمشرقین پایا جاتا ہے اس کو یہ کہہ کر واضح کیا کہ ’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں ؟ ‘‘ (زمر:۹)۔ پہلے مسلمانوں کے نزدیک علم کا کیا مقام تھا، اس کا اظہار حضرت معاذؓ کے ایک خطبے سے ہوتا ہے جو آپ نے علم کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ میرے خیال میں علم کے موضوع پر اس پر اضافہ ناممکن ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
’’علم حاصل کرو، کیونکہ اس کا سیکھنا خشیت ِ الٰہی، اس کی تلاش عبادت، اس کا تکرار و اعادہ تسبیح، اس کی تحقیق جہاد، اَن پڑھوں کو اس کا سکھانا صدقہ اور اہل لوگوں پر اس کا خرچ کرنا قربِ خداوندی ہے، کیونکہ اس سے حلال و حرام کا پتہ چلتا ہے اور اس سے اہل جنت کی راہیں روشن ہوتی ہیں ۔ یہ پریشانیوں میں مونس جان ، غریب الوطنی میں ساتھی، تنہائیوں میں ہم سخن، دکھ سکھ میں راہنما، دشمنوں کے خلاف ہتھیار اور دوستوں میں زینت ہے۔ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ قوموں کو سربلند کرکے اچھے کاموں میں امام و پیشوا بنادیتا ہے جن کے نشان ہائے قدم سے لوگ اقتباسِ نور کرتے، ان کے کارناموں کی پیروی کرتے اور ان کی رائے سے استناد کرتے ہیں ۔ فرشتے اُن کی دوستی کے خواہاں ہیں اور اپنے پروں سے انہیں چھوتے ہیں ۔ دنیا کی ہر رطب و یابس چیز حتیٰ کہ سمندروں میں مچھلیاں اور دوسرے حشرات، خشکی کے درندے اور چوپائےان کے لئے استغفار کرتے ہیں ۔ کیونکہ علم جہالت کی وجہ سے مردہ دلوں کے لئے باعث ِ حیات اور تاریکیوں میں آنکھوں کے لئے چراغ ہے۔ اس کی بدولت انسان نیک لوگوں کے مرتبے تک پہنچتا بلکہ دنیاو آخرت میں اس سے بھی بلند تر مقام پالیتا ہے۔ اس میں غور و فکر کرنا روزے اور اس کا پڑھنا پڑھانا نماز کے برابر ہے۔ اس کے ذریعے رشتوں کو جوڑا اور حلال و حرام میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ علم، عمل کا امام اور عمل علم کا تابع ہے۔ یہ سعادت مندوں کو ہی نصیب ہوتا ہے، بدنصیب اس سے محروم رہتے ہیں۔‘‘ (حیاۃ الصحابہ) کسی قوم میں روحِ عمل پھونکنے، اس کے خون کو گرمانے اور اس کے رگ و پے میں بجلیاں بھرنے والا تیسرا بڑا عامل اس قوم کا نصب العین اور مقصد حیات ہے۔ یہ نصب العین حصولِ مسرت و آسائش بھی ہوسکتا ہے اور اقتدار و استعلاء کا جذبہ بھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں ہر مقصد انسان کو آمادۂ عمل بناتا ہے اور ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ وسائل دوسروں سے چھین کر اپنے قبضے میں لے آنے پر آمادہ کرتا ہے لیکن جو سیمابی کیفیت کسی قوم میں اس کا نظریاتی مقصد ِ حیات پیدا کرتی ہے وہ کسی دوسرے جذبہ سے ممکن نہیں ۔ یہ نظریاتی مقصد اسے ایسا شعلہ ٔ جوالہ بنادیتا ہے جسے کسی کل چین نہیں پڑتا۔ اس کی تبلیغ و تدویج کے لئے وہ قوم جدوجہد کرتی اور راہ کی تمام صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتی ہے۔ نصب العین کی یہ آتشِ سوزاں اس میں وہ وسعت ِ نگاہ پیدا کردیتی ہے کہ اس کی نظریں افق پار پر جا ٹھہرتی ہیں اور اسے وہ عزم اور حوصلہ بخشتی ہے کہ نہ صحراؤں کی وسعتیں اس کی پیش قدمی روک سکتی ہیں اور نہ کوہساروں کی رفعتیں ۔ وہ آفاق پر نگاہیں جمائے، سمندروں میں گھوڑے ڈال دیتی ہے اور کشتیوں کو جلا دیتی ہے کہ پسپائی کا امکان ہی باقی نہ رہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جدوجہد کی ضرورت قیامت تک باقی رہے گی۔
لیکن اقتدار پالینے کے بعد وسائل ِ معیشت پر تسلط ہوجانے کے بعد اس بات کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ قوم تعیشات و تنعمات کی عادی بن کر اپنے مقصد ِ حیات کو بتدریج پس پشت ڈال دے، جدوجہد اور جفاکشی کی زندگی سے دست کش ہوجائے اور دولت کی محبت اسے بزدل بنادے، جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو سمجھ لیجئے کہ نہ صرف اس کے اقتدار و استعلاء کےد ن گنے جاچکے بلکہ بہت ممکن ہے کہ بتدریج وہ ذلت و مسکنت کے گڑھے میں جاگرے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا کہ ’’وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں ان پر ذلّت مسلط کر دی گئی ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۱۲) قرآن مجید نے بنی اسرائیل کی ان تینوں کمزوریوں کا متعدد آیات میں ذکر کیا ہے۔ چنانچہ متاعِ دُنیا سے ان کی محبت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ اس کی خاطر وہ کتاب ِ الٰہی میں تحریف سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ قرآن مجید کہتا ہے:’’پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں ، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں ، سو ان کے لئے (اُس کتاب کی وجہ سے) ہلاکت ہے جو ان کے ہاتھوں نے تحریر کی اور اس (معاوضہ کی وجہ) سے تباہی ہے جو وہ کما رہے ہیں ۔‘‘ (بقرہ: ۷۹) موت سے ان کے دل اس قدر لرزاں تھے کہ ’’ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار برس کی عمر مل جائے۔‘‘ (بقرہ: ۹۶) موت کے اسی خوف کی وجہ سے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا کہ : ’’بس تم اور تمہارا رب، دونوں جاؤ اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں ۔‘‘ (مائدہ:۲۴) ان دو باتوں کا نتیجہ یہ کہ انہوں نے اپنے مقصد ِ بعثت کو پس پشت ڈال دیا۔ قرآن مجید کا بیان ہے کہ : ’’اِن اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا مگر انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اُسے بیچ ڈالا، کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں ۔‘‘
(آل عمران: ۱۸۷)
اقتدار و عروج حاصل ہوجانے کے بعد کوئی قوم کتنی دیر تک اس سے بہرہ ور ہوتی ہے، اس کا انحصار اُس نظام حکومت اور طرز معاشرت پر ہے جسے یہ قوم اپناتی ہے۔ یہ حقیقت اتنی واضح اور بدیہہ ہے کہ اس پر کسی استدلال کی ضرورت نہیں ۔ ظاہر ہے جب خدا کی مخلوق کو کسی قوم کے سایہ ٔعاطفت میں امن و سکون اور عدل و انصاف میسر ہوگا تو جہاں مخلوق کے خالق کی نصرت و حمایت اسے حاصل ہوگی وہاں خود وہ مخلوق بھی اس سایہ کو اپنے سروں پر دیر تک قائم رکھنے کی خواہشمند ہوگی اور اس کے لئے کوشاں بھی۔ حمص کے عیسائیوں نے اپنے ہم مذہبوں کے برخلاف مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی اسی لئے دعا کی تھی کہ مسلمانوں کے نظامِ عدل و انصاف میں وہ ایک مطمئن زندگی گزار رہے تھے جو انہیں اپنے ہم مذہبوں کے زیراقتدار میسر نہ آسکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں نئی ابھرتی ہوئی امت ِ مسلمہ کو بار بار عدل و انصاف کی تاکید کی گئی۔
عدل کا مفہو م صرف جھگڑوں اور تنازعات کو اصول انصاف کے مطابق طے کرنے تک محدود نہیں بلکہ یہ لفظ اپنے اندر ایک بڑا وسیع اور ہمہ گیر مفہوم رکھتا ہے جو معاشرت، معیشت، محاکمات، سیاست، حکومت اور انسان کے ساتھ انسان کے طرز عمل (اخلاق) کو محیط ہے۔ ان تمام شعبہ ہائے حیات میں عدل و انصاف پر مبنی نظام ہی عدل و انصاف کہلا سکتا ہے اور یہ خوبی صرف اسلامی نظام ِ حیات ہی میں پائی جاتی ہے۔ زندگی کے ان دائروں میں سے کسی ایک میں بے اعتدالی کو ظلم و جور سے تعبیر کیا جائے گا۔
اگرکسی قوم کا معاشرہ عدل کی بنیادوں پرقائم نہیں بلکہ اس میں رنگ، نسل، زبان، مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر انسانوں میں اونچ نیچ قائم ہے، انسان انسان سے نفرت کرتا ہے، اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کو مباح ٹھہراتا ہے اور اسے اچھوت قرار دیتا ہے تو عدالتوں میں نام نہاد انصاف کے باوجود وہ قوم ظالم شمار ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی قوم کے نظام ِ معیشت میں بے اعتدالی پائی جاتی ہے، چند صنعت کار یا جاگیردار ملک کی معیشت پر قابض ہیں اور قوم کی اکثریت نادار و مفلس اور ان کی دست نگر ہے تو یقیناً یہ قوم بحیثیت مجموعی ظلم کی مرتکب ہورہی ہے۔ وہ معاشرہ بھی یقیناً ظلم و عدوان میں مبتلا ہے جس کے نظام اخلاق کی بنیاد انسان کے سفلی جذبات کے استحصال پر ہو اور جس کا مقصود و منتہا صرف حصول لذت و مسرت ہو اور جہاں منکرات کی کھلی چھوٹ ہو۔
ظلم و جور کی یہ ساری صورتیں ایسے عوام ہیں جو کسی بھی مقتدر قوم کو دیمک کی طرح چاٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہؓ سے فرمایا تھا کہ پہلی قومیں اسی لئے تباہ و برباد ہوئیں کہ ان میں عدل و انصاف نہ تھا، وہ جرائم کے ارتکاب پر نام نہاد معززین سے تو درگزر کرتے تھے مگر بے بس و لاچار لوگوں کو تعذیب کے شکنجے میں کس دیا جاتا تھا۔ قرآن مجید کے مطالعے سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قوموں کی ہلاکت و بربادی کا جہاں بھی ذکر کیا ہے اس کی وجہ ظلم و عدوان، ان کی مجرمانہ زندگی اور ان کا فسق و فجور ہی بتائی ہے۔ سورہ الحج، آیت نمبر ۴۵؍ میں فرمایا: ’’کتنی ہی خطاکاربستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر اُلٹی پڑی ہیں ، کتنے ہی کنویں بیکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں ۔‘‘
اسی سورہ میں دوسرے مقام پر فرمایا کہ ’’کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ، میں نے ان کو پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا اور سب کو واپس تو میرے پاس ہی آنا ہے۔‘‘ (الحج: ۴۸)۔ قوم تبع اور ان سے پہلے کی اقوام کے بارے میں کہا کہ : ’’ہم نے انہیں ہلاک کردیا، یقیناً وہ مجرم تھے۔‘‘
سورہ احقاف میں سنت الٰہی بتائی ’’کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہو گا؟ ‘‘ (آیت:۳۵) آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کی بربادی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: ’’ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کیا۔‘‘
یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی معاشرہ کو ظالمانہ بنیادوں پر استوار کرنے اور اس میں فواحش و منکرات کو رواج دینے والے ہمیشہ بقول قرآن مترفین یا بہ الفاظ دگر سرمایہ دار ہوتے ہیں ۔ اپنے سرمائے کے بل پر وہ لوگ ملک کے اندر ایسا نظام معیشت قائم کرتے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ وسائل دولت انہی کے ہاتھ میں رہیں اور ملک کی بہت بڑی آبادی کو صرف قوت ِ لایموت ہی میسر آسکے۔ قرآن مجید اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کرتا ہے:
’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں ، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔‘‘
(الاسراء: ۱۶)