Inquilab Logo

’’اِنڈیا‘‘ اِتحاد سے خدا واسطے کا بیر

Updated: January 01, 2024, 4:28 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

 اِنڈیا کہلانے والے الائنس میں ۲۸؍پارٹیاں ہیں۔ ان میں سے اکثر، بی جے پی سے پہلے کانگریس کی مخالف تھیں (اب بھی ہیں)۔ جب بی جے پی کی سیٹیں معدوے چند تھیں تب ان پارٹیوں کا مقابلہ کانگریس ہی سے ہوتا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اِنڈیا کہلانے والے الائنس میں ۲۸؍پارٹیاں ہیں۔ ان میں سے اکثر، بی جے پی سے پہلے کانگریس کی مخالف تھیں (اب بھی ہیں)۔ جب بی جے پی کی سیٹیں معدوے چند تھیں تب ان پارٹیوں کا مقابلہ کانگریس ہی سے ہوتا تھا۔ ان کی بی جے پی سے حریفائی نسبتاً نئی ہے، کانگریس سے حریفائی پرانی ہے۔ اب جبکہ بدلے ہوئے حالات میں ان پارٹیوں کے درمیان مفاہمت ہوئی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اختلافات ختم ہوگئے یا ان میں ایک دوسرے کی قبولیت کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ ان میں کل بھی اختلافات تھے، آج بھی ہیں مگر کل اور آج میں فرق یہ ہے کہ آج ان کے سامنے کانگریس سے بڑا حریف ہے جو وسائل اور سیاسی طاقت کے اعتبار سے کافی بڑا ہے لہٰذا اِنہوں نے بڑے بلکہ بہت بڑے حریف سے نمٹنے کیلئے چھوٹے حریف سے ہاتھ ملانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ برسوں ایک دوسرے کی مخالفت کرنے، ایک دوسرے پر تنقید کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے والی یہ پارٹیاں اچانک شیروشکر ہوجائیں یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے اس لئے کبھی ممتا بنرجی یہ بیان دے سکتی ہیں کہ بنگال میں ٹی ایم سی ہی بی جے پی کو ہرا سکتی ہے اس لئے انڈیا الائنس دیگر ریاستوں کیلئے ہے بنگال کیلئے نہیں۔ اسی طرح کبھی سنجے راؤت اعلان کرسکتے ہیں کہ شیو سینا مہاراشٹر کی ۴۸؍میں سے ۲۳؍ سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ آئندہ دنوں میں ممکن ہے جے ڈی یو کے ساتھ بحث و تکرار کی نوبت آئے یا ڈی ایم کے سے تناتنی کی خبریں ملیں۔ اسی طرح نہ تو شیوسینا سے من مٹاؤ خارج از امکان ہے نہ ہی لیفٹ پارٹیو ں سے تعلقات استوار رہنے کی ضمانت دی جاسکتی ہے مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا وسیع تر مقصد سے انحراف ہے کہ ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ اگر ان کا الائنس اتنا ہی کمزور تھا جیسا کہ باور کرایا جارہا ہے تو مہینوں کے غوروخوض کے بعد اِنہوں نے اتحاد کا فیصلہ کیوں کیا اور پٹنہ، بنگلور اور ممبئی میں یکجا کیوں ہوئے؟
اس سلسلے میں ہمارا خیال یہ ہے کہ اِن دنوں قومی میڈیا اپوزیشن کے اتحاد کے تعلق سے شک و شبہ کی فضا پیدا کرنے میں سرگرم ہے چنانچہ روزانہ ایسی خبریں منظر عام پر لائی جارہی ہیں جو ٹھوس حقائق پر مبنی نہیں ہیں بلکہ یا تو ذرائع کے حوالے سے ہیں یا ان میں قیاس آرائیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کورونا کے دور میں کسی کو چھینک بھی آجاتی تو لوگ کہتے یا سمجھتے تھے کہ اس شخص کو کورونا ہوگا، بالکل اسی طرح اپوزیشن کے خیمے میں معمولی سا اختلاف بھی ہوجائے تو قومی میڈیا اسے انڈیا اتحاد میں دراڑ کہنے لگتا ہے۔ بلاشبہ انڈیا اتحاد کمزور ہے اور اس کے طاقتور ہونے میں ابھی وقت ہے مگر این ڈی اے تو گزشتہ ساڑھے نو سال سے مضبوط ہے اور مضبوط تر ہوتا چلا گیا ہے،پھر قومی میڈیا اسے اتنا کمزور کیوں سمجھ رہا ہے جیسے اپوزیشن کا اتحاد اسے پھونکوں سے اُڑا دے گا؟
دراصل میڈیا نہیں چاہتا کہ انڈیا اتحاد این ڈی اے سے لڑنے کیلئے کیل کانٹوں سے لیس ہو اور اس کا اتحاد بی جے پی کیلئے چیلنج بنے۔ اسی لئے بات بات پر اِس اتحاد کی کمیاں گنائی جارہی ہیں، یہ سمجھایا جارہا ہے کہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد کا نام ضرور ہے مگر اس میں شامل پارٹیوں میں اتحاد نہیں ہے اور یہ کبھی بھی ایک دوسرے کے خلاف تن کر کھڑی ہوسکتی ہیں۔ ایسے حالات میں عوام کو خبر وں میں پائی جانے والی جانبداری کو محسوس کرنا چاہئے۔ سیاسی گمراہی سے بچنے کا یہی بہتر طریقہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK