Inquilab Logo

ماحولیاتی رضاکاردِشا رَوی کم عمر سہی مگر خود کسان خاندان سے ہیں

Updated: March 07, 2021, 6:47 PM IST

دِشا رَوی۔ یہ نام کسان تحریک سے پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آیا تھا مگر گزشتہ ایک ماہ کے دوران اتنی مرتبہ آیا کہ بہت سے لوگ حیران ہوئے کہ اتنا تو معلوم ہے کہ دِشا روی پر کسان تحریک کو تقویت بخشنے کیلئے بنائے گئے ’’ٹول کٹ‘‘ کی ایڈیٹنگ کا ملزم بنایا گیا ہے مگر یہ دشا روی ہیں کون؟

 Disha Ravi.Picture:INN
دِشا رَوی ۔تصویر :آئی این این

دِشا رَوی۔ یہ نام کسان تحریک سے پہلے کبھی منظر عام پر نہیں آیا تھا مگر گزشتہ ایک ماہ کے دوران اتنی مرتبہ آیا کہ بہت سے لوگ حیران ہوئے کہ اتنا تو معلوم ہے کہ دِشا روی پر کسان تحریک کو تقویت بخشنے کیلئے بنائے گئے ’’ٹول کٹ‘‘ کی ایڈیٹنگ کا ملزم بنایا گیا ہے مگر یہ دشا روی ہیں کون؟ 
دراصل دِشا ایک ۲۲؍ سالہ سماجی خدمتگار ہیں جن کا اصل میدان ماحولیاتی تحفظ ہے۔ اُنہوں نے سویڈن کی کم عمر ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کی ’’فرائی ڈیز فار فیوچر‘‘ (مستقبل کیلئے جمعہ کی مہم ) نامی تحریک کو چند ساتھیوں کے اشتراک و تعاون سے ہندوستان میں جاری کیا۔ ان کی سابقہ محدود شہرت اسی وجہ سے تھی۔ اس تحریک کے تحت طلبہ کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ ہر جمعہ کو ایک دن کیلئے پڑھائی لکھائی کو بالائے طاق رکھ کر اپنے اپنے اسکول کے احاطے میں ماحولیاتی بیداری کیلئے مہم چلائیں۔ گریٹا کی عالمی شہرت اسی مہم کی مرہون منت ہیں۔ جب اس مہم نے زور پکڑنا شروع کیا تو بہت سے ملکوں نے گریٹا کو اپنے ہاں مدعو کیا جن کی خاص بات یہ ہے کہ اسی جگہ کی دعوت قبول کرتی ہیں جہاں وہ ہوائی جہاز کے بغیر سفر کرسکیں۔ یہ اس لئے کہ ہوائی جہاز کی اُڑانوں کیلئے اتنا ایندھن درکار ہوتا ہے کہ اس کا ماحولیات پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ بہرکیف، ہندوستان میں فرائیڈیز فار فیوچر کا بیج بویا دشا روی اور اُن کے ساتھیوں نے۔ دشا  پہلے سے ماحولیاتی تحفظ کیلئے کام کرتی رہی ہیں۔
بنگلور و کی دشا روی نے اپنے شہر بنگلورو  ہی کے بزنس اسکول سے گریجویشن کیا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کیلئے عوامی بیداری لانے میں مصروف لوگوں (سماجی و ماحولیاتی کارکنان)   میں نیز اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں میں دشا روی کا نام محتاج تعارف نہیں مگر یہ تعارف عام نہیں تھا۔ انہوں نے اُتراکھنڈ میں ہاتھیوں کی گزر گاہ کی حفاظت، گوا میں حیاتیاتی تنوع کی حفاظت اور ممبئی میں آرے  (کالونی) کے جنگلات کی حفاظت کیلئے جاری ہونے والی تحریکات میں حصہ لیا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کا جذبہ اُن میں بچپن ہی سے موجود تھا جب وہ اپنے نانا نانی کو، جو کہ کسان تھے، خشک سالی، قحط اور سیلاب سے نبرد آزما دیکھا کرتی تھیں۔
 اس جذبے نے باقاعدہ ایکٹیویزم کا روپ تین سال قبل  اختیار کیا جب وہ اپنے اسی جذبے کے سبب بنگلورو کے ماحولیاتی کارکنان سے متعارف ہوئیں۔ اُن کے دوستوں اور ساتھی کارکنان میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عنقریب وہ وقت آئے گا جب اُن کا نام قومی ہی نہیں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی گونجے گا مگر اس لئے نہیں کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کا اتنا بڑا جذبہ رکھتی ہیں بلکہ اس لئے کہ اُنہیں ایک ایسی ٹول کٹ کی ایڈیٹنگ کا ذمہ دار قرار دیا جائیگا جس کے بارے میں حکومت کا خیال ہوگا کہ اس کے ذریعہ حکومت اور ملک کی شبیہ خراب کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اُنہیں ۱۳؍ فروری کو کچھ اس طرح گرفتار کیاگیا کہ دہلی پولیس بنگلورو پہنچی اور پھر اُنہیں وہاں سے دہلی لایا گیا۔ اُن پر (اور دیگر دو پر) مجرمانہ سازش اور غداری کی دفعات لگائی گئیں۔ فی الحال وہ ضمانت پر ہیں۔
’’مجھے اپنے نانا نانی کو دیکھ کر موسم اورماحول کے تئیں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی تحریک ملی۔‘‘ دشا روی نے یہ بات ۲۰۱۹ء میں ایک انٹرویو کے دوران کہی تھی۔ ’’اُس وقت میرے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اُنہیں ہر سال جس بحران سے گزرنا پڑتا ہے وہ ماحولیاتی خرابی اور زمین کی تپش کی وجہ سے ہے۔ میرے بچپن میں نہ تو مجھے یہ علم تھا نہ ہی میرے آس پاس کے لوگوں کو۔‘‘ 
مگر جب دِشا کو ایک دِشا (سمت) مل گئی تو وہ بڑی بہادری کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ کیلئے سرگرم ہوگئیں چنانچہ تحفظِ ماحول کیلئے احتجاج ہو یا صفائی ستھرائی کا کوئی مشن، کلائمیٹ ایکشن ورکشاپ کا انعقاد کرنا ہو یا شجر کاری کی مہم جاری کرنی ہو، دشا ہمیشہ پیش پیش رہیں۔ اُن کی یہ سرگرمیاں ایسے حالات میں جاری رہیں جبکہ اُنہیں  روزی روٹی کی فکر بھی کرنی تھی۔ اُن کے والد نہیں ہیں۔ والدہ ہی نے اُن کی پرورش کی اور لکھایا پڑھایا۔ وہ نباتاتی غذا تیار کرنے والی گڈ ملک (GoodMylk) نامی ایک کمپنی میں ملازمت بھی کرتی رہیں اور ماحولیاتی مشن کو آگے بھی بڑھاتی رہیں۔ میڈیا کے ذریعہ اُن کے رفقائے کار کی یہ تشویش منظر عام پر آچکی ہے کہ اُنہیں اتنی تگ و دو کرتا ہوا دیکھ کر انہیں (ساتھیوں کو) اکثر فکر لاحق ہوا کرتی تھی کہ یہ اپنی صحت کی پروا نہیں کرتی۔ مگر اُن کے جوش اور جذبے میں کبھی کمی نہیں دیکھی گئی۔جب اُنہوں نے کسانوں کو احتجاج کرتا ہوا دیکھا تو اُن کی حمایت اور تائیدکرنا ضروری سمجھا۔ گریٹا تھنبرگ نے جو دستاویز روانہ کی تھی اُسے پولیس نے ’قابل اعتراض‘ پایا چنانچہ  دِشا اور دو دیگر افراد پرالزام عائد کیا گیا جس کے نتیجے میں دشا کی گرفتاری عمل میں آئی۔ ٹول کٹ کی ’’ صرف دو سطریں میں نے ایڈٹ کی تھیں جس کا قطعی کوئی تعلق بغاوت سے نہیں تھا۔‘‘ دِشا نے کہا ’’میں تو کسانوں کو تعاون دے رہی تھی اسلئے کہ وہ ہمارا مستقبل ہیں، ہم جو غذا کھاتے ہیں وہ وہی تو اُگاتے ہیں!‘‘
  دِشا روی مزاحمت اور احتجاج کو ہندوستانی روایت کا حصہ قرار دیتی ہیں۔ ایک امریکی مصنف پروفیسر گائل کمبال کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا: ’’ہمارے ملک ہندوستان میں احتجاج عوام کی زندگی کا حصہ ہے اُس وقت سے جب آزادی کی جدوجہد جاری تھی۔ یہ جدوجہد بھی پُرامن احتجاجی مظاہروں سے عبارت تھی۔ ہندوستانی سماج میں احتجاج کوئی نئی چیز نہیں ہے، وہ خواہ انسانی معاملات ہوں یا کوئی اور موضوع،  ہماری سرزمین پر احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا نےاس احتجاج کو زیادہ وسعت عطا کی ہے۔‘‘ 
 دِشا رَوی فنانس میں کریئر بنانا چاہتی تھیں مگر گھریلو حالات، معاش کی مجبوری اور ایکٹیویزم کے جذبے نے اُنہیں ملازمت کرنے اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے سرگرم رہ کر اپنے جذبے کی تسکین کا راستہ فراہم کیا۔ ۲۰۱۸ء میں بنگلورو کے ماؤنٹ کارمیل کالج سے گریجویشن کے بعد ہی سے وہ متحرک ہوئیں ۔ اپنے ایک بیان میں اُنہوں نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں بہت سے مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت ماحولیاتی بحران کو تسلیم کرے۔ ہماری حکومت اب بھی اس بحران کو سنگین تصور نہیں کرتی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسے بحران ہی نہیں مانتی۔ یورپ میں یہ بحران اس لئے نہیں ہے کہ وہاں کی حکومت اس کا اعتراف کرتی ہے۔‘‘ انڈین ایکسپریس (۱۵؍ فروری) میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق انہوں نے اپنے ایک بیان میں وطن عزیز میں ہونے والی ماحولیاتی خلاف ورزیوں اور بڑے بڑے پروجیکٹوں کیلئے ماحولیاتی ذمہ داریوں سے چشم پوشی پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ اُنہوں نے اس بات پر بھی دکھ کا اظہار کیا تھا کہ ملک میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو ماحولیاتی یا موسمی تبدیلیوں کے بحران کو سمجھ سکے اور اسے موضوع بناسکے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK