Inquilab Logo Happiest Places to Work

جانوروں کے ڈاکٹروں کا تبادلہ، دیونار میں بڑے جانوروں کا ذبیحہ بند

Updated: July 15, 2025, 7:13 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

سلاٹرہاؤس میں کام کاج ٹھپ۔سیکڑوں جانور مذبح کے باہر کھڑے ہیں کیونکہ ڈاکٹروں کی سند کے بغیر داخلہ ممکن نہیں۔ ذبیحہ کیلئے جانور دستیاب نہیں۔گوشت کاکاروبار متاثر ہونے کا خدشہ

Deonar Slaughterhouse where work has stopped.
دیونارسلاٹرہاؤس جہاں کام کاج ٹھپ ہے۔

حکومت نے غریب عوام مخالف اقدام کرتے ہوئے دیونار مذبح کے تمام ڈاکٹروں کا تبادلہ کردیا ہے جس کی وجہ سے دیونار میں بڑے جانوروں کا ذبیحہ بند ہوگیا ہے۔ نہ صرف عوام کی ایک بہت بڑی تعداد سستے گوشت پر انحصار کرتی ہے بلکہ کسان سے لے صارفین تک ایک طویل کڑی ہے جو دیونار میں بڑے جانوروں کا ذبیحہ بند ہونے سے بُری طرح متاثر ہوگی۔ اس دوران دیونار میں ذبیحہ کیلئے جانور نہیں بچے ہیں اور مذبح   کے باہر سیکڑوں جانور اندرجانے کے انتظار میں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی سند کے بغیر نہ تو انہیں مذبح   میں داخلہ مل سکتا ہے اور نہ ہی ذبیحہ ہوسکتا ہے۔واضح رہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا ہے اور موجودہ حالات پیدا ہونے سے روکنے کیلئے بڑے جانوروں کے کاروبار سے وابستہ تاجر کئی دنوں سے کوشاں ہیں اور رکن اسمبلی رئیس شیخ نے اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھایا تھا تاکہ مسئلہ بروقت حل ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
 واضح رہے کہ دیونار مذبح   میں فی الوقت کُل ۹؍ ڈاکٹر تعینات تھے جن کا دیگر مقام پر تبادلہ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے بڑے جانوروں (بھینسوں) کی جانچ کرکے انہیں ذبیحہ کے قابل ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے والا ایک بھی ڈاکٹر دستیاب نہیں ہے۔ قانون کے مطابق جانوروں کے ڈاکٹروں کے ذریعہ سرٹیفکیٹ دیئے بغیر انہیں ذبح نہیں کیا جاسکتا اس لئے دیونار میں بھینسوں کا ذبیحہ بند ہوگیا ہے۔
 اس سلسلے میں رکن اسمبلی رئیس شیخ نے انقلاب سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’دیونار مذبح بی ایم سی چلاتی ہے اور یہاں جانوروں کے ڈاکٹر ریاستی حکومت فراہم کرتی آئی ہے۔ تاہم حکومت نے یہاں بھیجے گئے تمام ڈاکٹروں کا دیگر مقام پر تبادلہ کردیا ہے اور بی ایم سی سے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کا انتظام کرنا شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں نے اس مسئلہ کو اسمبلی میں اٹھایا تھا اور ’اینیمل ہسبنڈری‘ کی وزیر پنکجا منڈے سے بھی ملاقات کرکے اس مسئلہ کو حل کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے نتیجہ میں عبوری حل کے طور پر ڈاکٹروں کے تبادلے کو ایک مہینے کیلئے روک دیا گیا تھا لیکن یہ مدت ۱۳؍ جولائی کو ختم ہوگئی لیکن نہ تو ڈاکٹروں کی مدت کار میں مزید توسیع کی گئی اور نہ ہی نئے ڈاکٹر لائے گئے جس کی وجہ سے اب یہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔‘‘ انہوںنے یہ بھی کہا کہ ’’بی ایم سی کو ڈاکٹروں کا انتظام کرنے کو کہا گیا ہے لیکن جب تک ’اَربن ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ (یوڈی ڈی)‘   جس کے تحت شہری انتظامیہ آتا ہے، بی ایم سی کو ہدایت جاری نہیں کرتا تب تک بی ایم سی از خود ڈاکٹروں کا انتخاب نہیں کرسکتی۔ متعلقہ محکمہ اور وزراء ایک دوسرے پر ذمہ داری تھوپ رہے ہیں لیکن بی ایم سی کو ہدایت جاری نہیں کی جارہی کہ بی ایم سی اپنے ڈاکٹروں کا انتظام کرلے اس لئے یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا۔ آج بھی میں پنکجا منڈے کے سیکریٹری سے اسی موضوع پر گفتگو کرنے جارہا ہوں۔‘‘انہوںنے مزید بتایا کہ ’’ایڈیشنل میونسپل کمشنر اشونی جوشی نے اربن ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کو خط لکھ کر ان ڈاکٹروں کا تبادلہ روکنے کی درخواست کی تھی اور پنکجا منڈے بی ایم سی کو کہہ رہی ہیں کہ وہ ڈاکٹروں کا انتظام کرلیں جبکہ انہیں یو ڈی ڈی سے کہنا چاہئے کہ وہ بی ایم سی کو ہدایت جاری کرے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔‘‘
 بڑے جانوروں کے تاجروں کی تنظیم ’القریش ہیومن ویلفیئر اسوسی ایشن‘ کے جنرل سیکریٹری عمر انصاری نے اس سلسلے میں انقلاب سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’ڈاکٹروں کاتبادلہ روک کر یہاں ان کی ڈیوٹی میں ایک ماہ کی توسیع کردی گئی تھی جس کی وجہ سے ہم پُر امید تھے کہ اس وقفہ میں نئے ڈاکٹروں کا انتظام کرلیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘‘ ان کے مطابق کُل ۴۶۶؍ ڈاکٹروں کا تبادلہ کیا گیا ہے جن میں دیونار کے ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ دیونار میں ذبیحہ بند ہونے سے نہ صرف کسانوں سے لے کر صارفین تک کی ایک طویل کڑی متاثر ہورہی ہے بلکہ ریوینیو ڈپارٹمنٹ اور بی ایم سی کی آمدنی بھی کم ہورہی ہے۔ عمر انصاری کے بقول ’’جو جانور نہ دودھ دینے کے قابل ہوتے ہیں اور نہ ہی کھیتی کے لائق رہ جاتے ہیں ، انہیں کسان فروخت کردیتے ہیں۔ تاجر ان جانوروں کو خریدتے ہیں جنہیں ٹرکوں کے ذریعہ مذبح تک لایا جاتا ہے تو کسان کے بعد ٹرانسپورٹ والے، جانوروں کو ٹرکوں میں چڑھانے اور اتارنے والے متاثر ہورہے ہیں۔ مذبح   لانے پر ریوینیو ڈپارٹمنٹ کو فی جانور کے داخلے پر ۱۰۰؍ روپے ملتے ہیں اور بی ایم سی ہر جانور پر ۱۹۵؍ روپے وصول کرتی ہے۔ مذبح میں لانے کے بعد ’داوَن واکھا (شیڈ میں رکھنے کا) چارج ہوتا ہے، ان جانوروں کو مذبح  میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والے ’ہیلکاری‘ کو پیسے دیئے جاتے ہیں، اس کے بعد قصائی کا نمبر آتا ہے، گوشت پہنچانے والے ٹرانسپورٹر، کھال کے تاجر، گوشت فروخت کرنے والے دکاندار اور پھر آخر میں صارفین متاثر ہورہے ہیں۔‘‘
 اس تعلق سے جب دیونار مذبح کے جنرل منیجر ڈاکٹر کلیم پاشا پٹھان سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے تصدیق کی کہ اب دیونار میں جانوروں کے ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہاں کام کاج بند ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو جانور پہلے سے مذبح میں تھے ،وہ پیر کو ذبح کردیئے گئے۔ یہاں عام طور پر ایک یا دو دن کیلئے جانور دستیاب ہوتے ہیں اور اب ذبیحہ کیلئے جانور نہیں بچے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈاکٹروں کا انتظام کب تک ہوگا تو انہوں نے کہا کہ اب تک ریاستی حکومت اس کا انتظام کرتی آئی ہے اس لئے حکومت سے یہ سوال کیا جانا چاہئے۔ 
 یاد رہے کہ گئو رکشکوں کی دھاندلی، جانوروں کی پکڑ دھکڑ اور اس میں پولیس کی مبینہ شمولیت کے خلاف ریاست کے کچھ اضلاع میں تاجروں نے بڑے جانوروں کا گوشت فروخت کرنا پوری طرح سے بند کردیا ہے مگر ممبئی پر ابھی اس کااثر نہیں ہوا تھا۔ تاہم ڈاکٹروں کے مسئلہ کی وجہ سے یہاں بھی گوشت کی فروخت متاثر ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK