ہندوستان جیسے کثیر جہتی معاشرہ میں یگانگت اور یک جہتی کی ضرورت سے کون انکار کرسکتا ہے مگر جب مٹھی بھر لوگ ان اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نفرت کے بیج بوتے ہیں تو اکثر لوگ اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے کہ وہ جتنی نفرت پھیلائیں ہم اتنی محبت سے پیش آئیں۔
انسانیت نوازی اور احترام نفس کا خیال رکھنا ضروری ہے، یہ دین اسلام کی تعلیم بھی ہے۔ تصویر: آئی این این
اجتماعیت، یکجہتی اور اتحاد و یگانگت ایک ایسی روحانی و جسمانی طاقت و قوت ہے جو قوموں اور معاشروں کو زندہ رہنے اور زندہ ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ جن قوموں کو معاشرتی سطح پر یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کا فقدان ہوتا ہے وہ ہمیشہ مایوس رہتے ہیں اور ایسے معاشروں کا وجود روشن کارنامے انجام نہیں دے پاتا ۔ اس لئے آج کے اس ہما ہمی کے ماحول میں عروج و ارتقاء حاصل کرنے کے لئے بنیادی طور پر اجتماعیت کی صرف ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ بچوں ، جوانوں ، بوڑھوں اور خواتین گویا سماج کے ہر فرد کو اس کی اہمیت و معنویت کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
عالمی منظر نامہ پر جب نگاہ تدبر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جوں جوں ہم نے ترقی کی ہے، جدید ایجادات و اختراعات سے دنیا استفادہ کررہی ہے، آرٹیفشل انٹلیجنس جیسی ایجادات نے بڑی مستعدی کے ساتھ دستک دے دی ہے اور اس تکنیک سے وجود میں آنے والے کارناموں اور سرگرمیوں کو دیکھ کر دنیا حیرت میں ہے، ان سب چیزوں کی اپنی جگہ اہمیت و افادیت مسلم ہے لیکن معاشرے سے انسانیت کا احساس، جذبہ خیر سگالی، باہمی تعاون اور اجتماعی انداز میں فلاحی سرگرمیوں کو انجام دینے کا تصور ناپید ہورہا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بھارت جیسے تکثیری سماج اور سیکولر معاشرے میں جو کردار دیکھنے کو مل رہے ہیں اور جس طرح سے محبت و احترام کے جذبہ کو بے وقعت کرنے کی دانستہ کاوشیں ہورہی ہیں، اجتماعی طورپر ان کرداروں کا دفاع کرنا اور معاشرے میں اخلاقی قدروں اور سماجی تقاضوں کو بحال کرنا ناگزیر ہے۔ اجتماعیت کا مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا کے تمام امن پسند معاشرے ان افکار و نظریات کا رد کریں جنہوں نے بھید بھاؤ، اونچ نیچ اور تعصب و تنگ نظری جیسی باتوں سے سماج میں تفریق و امتیاز کو پروان چڑھایا۔
انسانیت نوازی اور احترام نفس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہمیں کسی کے ساتھ مذہب و دھرم اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرنی چاہئے۔ دنیا میں آج جتنے بھی نظریات، افکار و خیالات اور مذاہب و ادیان یا نظام ہائے زندگی پائے جاتے ہیں اور کائنات میں کوئی بھی گروہ کسی بھی مذہب و دھرم کا حامل ہو ان تمام کا یکساں طور پر یہ نظریہ اور فلسفہ ہے کہ کسی بھی فرد کی حرمت و ناموس اور تحفظ برقرار رہے۔ ایذارسانی اور دل آزاری یا دل شکنی جیسے جرائم کے جملہ مذاہب سخت مخالف ہیں ۔ اسلام نے تکریم انسانیت اور تحفظ نفس کا جو فلسفہ اور نظریہ پیش کیا ہے اس کی آفاقی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اسلام کی واضح تعلیمات ہیں کہ کسی فرد کو بلا وجہ مارنا ساری انسانیت کو مارنے کے مترادف ہے اور کسی شخص کی جان بچانا ساری انسانیت کی جان بچانے کے مترداف ہے۔ اسی طرح مذہب و ملت اور رسوم رواج کی بابت بھی اسلام صاف طور پر کہتا ہے کہ کسی بھی مذہبی شخصیت پرسب وشتم نہ کرو۔ گویا اس طرح کی جملہ تعلیمات خواہ وہ کسی بھی مذہب میں پائی جاتی ہوں نوع انسانی کو اجتماعیت کا احساس دلاتی ہیں اور یہ بھی باور کراتی ہیں کہ سماج میں اسی وقت پرامن اور پر سکون ماحول بپا ہوسکتا ہے جب کہ پورا سماج مل کر ان عناصر کا قلع قمع کرے جو معاشرتی حقائق، سماجی و روحانی قدروں اور متنوع ثقافتوں کو مٹانے کے درپے ہیں ۔ گویا ایک طرف وہ نظریہ اور فلسفہ ہے جو تنوع اور تعدد کا دشمن ہے اور اس کے نزدیک سماجی تانے بانے اور تہذیبی قدروں کی کوئی وقعت نہیں ہے، برعکس اس کے ایک طرف وہ نظریہ ہے جو سماج کو جوڑنے اور اس میں پائی جانے والی جملہ متنوع اقدار کا محافظ و نگہبان ہے۔ آج جو تصادم و کشمکش ہے وہ انہیں دو نظریات کے مابین ہے۔ لہٰذا ہمیں آج شعوری طور پر بیدار ہونا ہے۔ ذرا ملک کے عصری منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ مذہب و ملت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کتنے افراد کو ہجومی تشدد کا شکار بنایا گیا۔ یقینی طور پر ہجومی تشدد کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں وہ محض مذہب اور ذات کی بنیاد پر واقع ہوئے ہیں ۔ اس رویہ سے خاص کمیونٹی میں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کرنا مقصود ہے۔ دوسری طرف تمام حساس افراد سوچیں کہ آج ملک میں کس طرح کی بحثیں اور مسائل و مباحث کو رونما کیا جارہا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والے مباحث کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ میڈیا نے اپنا کام چھوڑ دیا ہے اور میڈیا کے تقریبا تمام شعبے ارباب اقتدار کی علی الاعلان حمایت کرتے ہیں ۔ حکومت سے سوال کرنے اور اس کے کام کاج کو لے کر کسی طرح کی تنقید کرنے کو آج عیب سمجھا جارہا ہے۔ یا پھر ان موضوعات پر مباحثہ منعقد کراتے ہیں جن سے سماج کی یکجہتی اور اجتماعیت متاثر ہوتی ہے۔
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ’’ بایاں محاذ یتیم ہے، مودی جی خوش نصیب ہیں کہ انہیں آج کا میڈیا ملا ہے‘‘ اندازہ کیجئے کہ آج جن باتوں پر تمام تر توجہ مبذول کرائی جارہی ہے اور اس کے لئے تمام ذرائع اور اسباب کو استعمال کیا جارہاہے کیا یہ تمام چیزیں بھارتیہ سماج کو متحد کرسکتی ہیں ؟ کیا ملک ان خطوط پر گامزن ہے جن سے سماج میں برداشت اور سلامتی کی راہ ہموار ہوتی ہے ؟ پروفیسر منوج کمار جھا نے راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہندو مسلم ایک دوسرے کی ضرورت ہیں ، ہندو مسلم اتحاد یہاں کی شناخت ہے، قومی اتحاد، بھائی چارگی کو ختم مت ہونے دیجئے‘‘ یقیناً بھارت کی یہ یکجہتی جس دن معدوم ہو جائے گی یقین سے کہا جاسکتا وہ دن بھارت کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ کیسا نظریہ اور منطق ہے کہ ہم ووٹوں اور سیاسی بالادستی کے لئے بھارت ہی میں رہنے والے باشندوں کو کبھی ہندو اور مسلم کے نام پر، تو کبھی ہندوؤں کو ذات و رنگ کے نام پر تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ کیا ہم بھارتیہ سماج کو اپنے محدود مفادات کی خاطر تقسیم کرتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ ہماری اس تقسیم سے صرف قومیں اور برادریوں میں ہی تقسیم نہیں ہو گی بلکہ ہندوستانی سماج بٹ جائے گا اور ہندوستانی سماج کا تقسیم ہونا اس ملک کی عظمت رفتہ کیلئے بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔
آخرمیں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج بڑی تیزی سے ہندوستانی سماج کو جذباتی سیاست اور مذہب کے نام پر مشتعل کیا جارہاہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہندوستانی سماج، سیاست کی اس جدید تعبیر و تشریح کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پا رہا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے ہندوستانی بھائی کے خلاف ہو جاتا ہے۔ ملک میں اجتماعیت کی فضا پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس جذباتی سیاست کو سمجھیں جو آج کل ہمارے سماج میں کی جارہی ہے۔ جب تک ہم سیاسی طور پر حساس نہیں ہوں گے اور مذہب کے اس کھیل سے واقفیت پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک سادہ لوح عوام کا اسی طرح سے استعمال کیا جاتا رہے گا۔ مسلم کمیونٹی کو بھی چاہئے کہ وہ ان بیانات اور تحریروں سے دور رہیں جن کو پڑھ یا سن کر جذبات مشتعل ہوتے ہوں ۔ فرقہ پرست طاقتیں یہی تو چاہتی ہیں کہ مسلمان پوری طرح سے جذبات کا شکار ہو جائے اور پھر ہمیں اس کا فائدہ ملے۔ مغلوں کے تشدد کے نام پر ملک میں جس طرح کا ماحول بنایا جاتا ہے اس پر ہمیں بالکل بھی رد عمل کے اظہار کی ضرورت نہیں ہے۔ گویا اجتماعیت اور اس کے روحانی و عملی احساس سے سماج اسی وقت محظوظ ہوسکتا ہے جب کہ ہم سب یعنی تمام مثبت اور تعمیری خیالات کے حاملین بلا مذہب و ملت کی تفریق کے ان نظریات کے خلاف سعی کریں جو سماج میں اپنے منفی اثرات مرتب کررہے ہوں ۔ یہ طبقہ خواہ کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہو۔ اس سوچ اور نظریہ کو غیر متحرک بنا نا سماج کی سالمیت اور استحکام کے لئے ضروری ہے۔
یہ بھی یاد رکھئے! اقتدار آتا جاتا رہتا ہے اور بہتر قیادت و سیادت وہی ہوتی ہے یا اسی رہنمائی کو تاریخ میں جلی حروف سے لکھا جاتا ہے جس میں حریت فکر و نظر، عدل و انصاف اور عوامی فلاح و بہبود کا خیال رکھا جائے۔ البتہ سیاست دانوں کیلئے عوام کو اپنی قدروں کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔ پہلا مقصد عوام کا یہی ہو کہ ارباب اقتدار مذہب کی تبلیغ نہ کریں بلکہ قومی اور ملکی ترقی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں، جب عوام اس نوعیت سے اہلِ سیاست سے برتاؤ کریں گے تو کوئی بھی سیاست داں بے وقوف نہیں بنا پائے گا۔