آج سے کئی صدیاں پہلے، جب سائنسی انقلاب اپنے ابتدائی مراحل میں تھا، ایک عظیم سائنسداں سر آئزک نیوٹن نے اپنے ذاتی مطالعہ کے کمرے میں ایک حیرت انگیز ماڈل تیار کرایا تھا۔
EPAPER
Updated: May 02, 2025, 3:57 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
آج سے کئی صدیاں پہلے، جب سائنسی انقلاب اپنے ابتدائی مراحل میں تھا، ایک عظیم سائنسداں سر آئزک نیوٹن نے اپنے ذاتی مطالعہ کے کمرے میں ایک حیرت انگیز ماڈل تیار کرایا تھا۔
آج سے کئی صدیاں پہلے، جب سائنسی انقلاب اپنے ابتدائی مراحل میں تھا، ایک عظیم سائنسداں سر آئزک نیوٹن نے اپنے ذاتی مطالعہ کے کمرے میں ایک حیرت انگیز ماڈل تیار کرایا تھا۔ یہ ماڈل نظام شمسی کا مکمل نمونہ تھا: ایک بڑی سنہری گیند سورج کی نمائندگی کر رہی تھی اور اس کے گرد چھوٹے چھوٹے گلوب سیاروں کی علامت تھے، جو خاص ترتیب اور رفتار سے حرکت کرتے تھے۔ یہ پورا نظام ایک پیچیدہ میکانزم سے چلتا تھا، جسے ایک ہلکی سی گردش دے کر حرکت میں لایا جا سکتا تھا۔ ایک دن نیوٹن کا ایک دوست، جو الحاد کی طرف مائل تھا، ان کے کمرے میں آیا۔ اس نے وہ ماڈل دیکھا تو دم بخود رہ گیا۔ چمکتے گلوب، گردش کرتے سیارے، نہایت نازک تناسب اور درست رفتار سے اپنی راہوں پر چل رہے تھے۔ کچھ دیر خاموشی سے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے نیوٹن سے پوچھا:’’یہ شاندار ماڈل کس نے بنایا؟‘‘ نیوٹن نے لاپروائی سے جواب دیا: ’’کسی نے نہیں ۔ بس یہ پرزے خودبخود گر کر جُڑ گئے اور یہ خوبصورت نظام بن گیا!‘‘
اس دوست کے چہرے پر ایک طنزیہ ہنسی آئی۔ وہ بولا: ’’یہ ناممکن ہے! اتنا مکمل اور مربوط نظام بغیر کسی صانع کے کیسے بن سکتا ہے؟‘‘
نیوٹن نے بڑی سنجیدگی سے کہا: ’’جب ایک چھوٹے سے ماڈل کے لئے تم صانع کا انکار نہیں کر سکتے، تو یہ عظیم الشان کائنات، یہ عظیم نظام شمسی، یہ بےشمار کہکشائیں ، ان سب کا بغیر کسی خالق کے وجود میں آجانا تمہیں کیسے معقول لگتا ہے؟‘‘ یہ سن کر وہ دوست ندامت سے خاموش ہو گیا۔ اسی لمحے، الحاد کے زنگ آلود پردے اس کے دل سے چھٹنے لگے اور وہ خدا کے وجود پر ایمان لے آیا۔
اگر چھوٹے سے نظام کو بھی کاریگر درکار ہے، تو کائنات کے اس عظیم اور وسیع تر نظام کیلئے، ایک لازمی خالق، ایک حکیم اور قادر ذات کی ضرورت عقلاً، فطرتاً اور وجداناً کیوں نہ ہوگی؟ اس عظیم کائنات کا ایک ہی مالک اور خالق ہے؛ وہ جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ وہ جس نے عدم کے سناٹوں میں وجود کا نغمہ چھیڑا، جو نہ تھا اسے جلوۂ ہستی عطا کیا اور جس کے ارادے کی اک جنبش سے کائنات کے رنگین پردے کھل گئے۔ وہی مطلق مالک، جو ہر شے پر قادر ہے، جس کے گنجینۂ قدرت سے ہر وجود نے اپنا سر چشمہ پایا۔ وہ جو زمان ومکان کی قید سے بالاتر ہے اور جس کی ذات ہر ذرہ، ہر ذرۂ ذی روح، ہر ذرۂ بے جان کے وجود کا سرچشمہ ہے۔ جو کل بھی تھا، آج بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ عظیم الشان کارخانۂ ہستی، جس میں کہکشائیں جھومتی ہیں ، سیارے تسلسل کے ساتھ گردش کرتے ہیں ، ہوائیں سرگوشیاں کرتی ہیں اور سمندر سینہ کوبی کرتے ہیں ، کسی بے سمتی حادثے کا نتیجہ ہو؟
نہیں ! ہرگز نہیں ! یہ عالمِ رنگ وبو، یہ نہاں خانۂ حیات، یہ رقصِ ذرات، یہ نغمۂ کائنات کسی بے شعور دھماکے کی دین نہیں ، بلکہ ایک بےمثال خالق کی حکمت و مشیت کا مظہر ہے۔
وہ ذات قوی و قادر ہے کہ جس کی تخلیق میں اتنی ہم آہنگی اور اتنا درست تناسب ہے کہ انسانی عقل اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود اس کے اسرار کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ انسان، جو اس کرۂ خاکی پر چند روزہ مہمان ہے، کبھی اپنی دانشمندی پر ناز کرتا ہے، کبھی اپنے علوم وفنون پر فخر کرتا ہے، مگر جب کائنات کی بے پایاں وسعتوں اور تخلیق کی حیرت انگیز باریکیوں پر غور کرتا ہے تو اس کی عقل خود سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔
جس ہستی نے خود عقل کو عقل دی ہے، اس کی قدرت کا احاطہ عقل کیسے کر سکتی ہے؟ کاش وہ جو کہتے ہیں کہ کائنات کسی دھماکے کا نتیجہ ہے، لمحے بھر کے لئے ٹھہر کر سوچتے کہ کیا کوئی قیمتی گھڑی بغیر بنانے والے کے خودبخود بن سکتی ہے؟ کیا بغیر درزی کے لباس تیار ہو سکتا ہے؟ جب ایک معمولی سی شے اپنی ساخت کے لئے کسی بنانے والے کی محتاج ہے تو پھر یہ بسیط کائنات کیسے بغیر خالق کے معرضِ وجود میں آسکتی ہے؟
افسوس! جب اہلِ دانش سے بھی ایسی بےوزن باتیں سننے کو ملتی ہیں تو دل پر کسک سی اترتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے پاس اپنا وجود بھی عطا شدہ ہو، جو خود کسی کے رحم وکرم کا محتاج ہو، وہ دوسروں کو کیا عطا کر سکتا ہے؟ جس کی اپنی ہستی ادھار ہو، وہ دوسروں کو کس بنیاد پر فیض دے سکتا ہے؟ یقین جانئے! وہی دے سکتا ہے جس کے پاس سب کچھ ہو، اور وہ صرف ایک ہے: ’’اللہ وحدہ لاشریک لہ‘‘ — وہی معبود، وہی مالک، وہی خالق! کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کی قدرت کی گواہی دے رہا ہے، انسان کا دل اسی کی معرفت کے ترانے چھیڑ رہا ہے، اور عقل جب تعصب کے پردے ہٹاتی ہے، تو اسی ایک کی طرف جھک جاتی ہے۔ یہی ابدی حقیقت ہے، یہی سرمدی پیغام ہے، اور یہی وہ چنگاری ہے جسے ہر فہمیدہ دل میں فروزاں ہونا چاہئے۔ n