کثیر مطالعہ کے باوجود حجاجِ کرام سے لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں۔لغزشیں تو خیر بشریت کا خاصہ ہیں، تاہم اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا حج خطاؤں سے پاک صاف ہو، ہر مومن کیلئے ضروری ہے ۔ اس مضمون میںچند خطاؤں پر متنبہ کیا گیا ہے جو عموماً حجاجِ کرام سے سرزد ہو جاتی ہیں۔
اسلام کی عمارت جن بنیادی ارکان پر قائم ہے ان میں حجِ بیت اللہ بھی ایک اہم رکن ہے۔ صاحب ِ استطاعت ہونے کی صورت میں ہر مسلمان عاقل وبالغ مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ حج میں مالی وبدنی دونوں طرح کی عبادات پائی جاتی ہیں، چنانچہ اس کی فرضیت کے لیے مالی اور بدنی، دونوں قدرتیں ضروری ہیں۔ ارشادِ باری ہے:’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ ‘‘ (آل عمران:۹۷) حج اپنے اندر عالم گیر اخوت ومحبت اور انسانی مساوات کاعملی پیغام رکھتا ہے۔ تمام حجاج کاایک وقت میں ایک جگہ جمع ہوکر ایک ہی طرح کے اعمال وشعائر انجام دینا، جہاں ایک طرف: ’’مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں ‘‘ (الحجرات: ۱۰) کے احساس کوپختگی دیتا ہے، وہیں دوسری طرف ربِ واحد کے حضور انسانی مساوات کا نادر نمونہ پیش کرتا ہے۔
اس عبادت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ نبی کریمؐ نے بھی صرف ایک بار حج کیا اور فرمایا: ’’مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو، اس لئے کہ مجھے نہیں معلوم، شاید کہ میں اس حج کے بعد دوبارہ حج نہ کرسکوں۔ ‘‘ (مسلم، ۳۱۹۷) ہر اسلامی عبادت میں دوشرائط کا پایا جانا ضروری ہے: اخلاص اورپیرویِ شریعت۔ چونکہ یہ عبادت عموماً انسان زندگی میں صرف ایک بار ادا کرتا ہے، اس لئے اس میں خطاؤں اور لغزشوں کے ارتکاب کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ حج کی تمام جزئیات کا کتابی مطالعہ اور نظری علم الگ چیز ہے، اور عملی حج کرنا الگ۔ اسی لئے کثیر مطالعہ کے باوجود حجاجِ کرام سے لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں۔ لغزشیں تو خیر بشریت کا خاصہ ہیں ، تاہم اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا حج خطاؤں سے پاک صاف ہو، ہر مومن کیلئے ضروری ہے۔ اس مضمون میں چند خطاؤں پر متنبہ کیا گیا ہے جو عموماً حجاجِ کرام سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ اِن خطاؤں کا سبب ناواقفیت ہے یا اندھی تقلید۔ مومنانہ کردار یہ ہے کہ جب صحیح علم حاصل ہوجائے تو اس پر عمل کیا جا ئے۔ اسی لئے یہ کوشش کی گئی ہے کہ دلائل کی روشنی میں صحیح بات سامنے لائی جائے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت ادائیگی ٔ حج کے وقت کے تعیین کو حاصل ہے۔ فقہاے کرامؒ کے درمیان اس امر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا فرضیت ِ حج کے بعد فوراً حج کرنا ضروری ہے یا اس میں تاخیر کی گنجائش ہے۔ احناف کے نزدیک فوراً حج کرنا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ رخصت ایک وبا کی طرح پھیل گئی ہے، اور حج کے لئے عملاً بڑھاپے کا وقت مخصوص مان لیاگیا ہے۔ حالانکہ شرعی لحاظ سے بھی اور موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی جوانی میں حج کرلینا ہی بہتر ہوتاہے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔
اگر کسی شخص پر حج فرض ہوجائے اور وہ اسے بڑھاپے پر اٹھا رکھے اور پھر حج کئے بغیر ہی مر جائے تو سخت گناہ گار ہوگا۔ نیز حج ایک پُرمشقت عبادت ہے۔ دیا۔ موجودہ دور میں کثرتِ حجاج کی وجہ سے اس میں مزید مشقتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بوڑھے حجاج خواتین وحضرات ارکانِ حج کیسے اور کس قدر ادا کرپاتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کا وطیرہ برصغیرکے ساتھ خاص نظر آتا ہے، ورنہ دنیا بھر کے بیشتر ممالک سے آنے والے حجاجِ کرام کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہمارے علماء کرام کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
احرام کے سلسلے میں سرزد ہونے والی خطائیں
۱- میقات سے حج اور عمرہ کی نیت کرنا لازم ہے۔ میقاتیں اللہ کے رسولؐکی جانب سے متعین کردہ ہیں۔ حاجی ومعتمر کے لئے بغیر احرام کے میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ زمین کے راستے سفر کررہا ہو یا بحری یا ہوائی راستے سے۔ بعض حجاج ہوائی سفر میں بغیر احرام کے میقات سے گزر جاتے ہیں اور جدہ ایئر پورٹ پہنچ کر احرام باندھتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔ ان کو چاہئے کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل احرام باندھ لیں اور میقات سے پہلے جہاز ہی میں نیت کرلیں۔ اگر بغیر احرام کے وہ جدہ پہنچ جاتے ہیں تو واپس میقات تک جائیں اور وہاں سے احرام باندھیں۔ اگر ایسا نہیں کرتے ہیں اور جدہ ہی سے احرام باندھتے ہیں تو اکثر علماء کے نزدیک اُن پر ایک جانور کے ذبح کرنے کا فدیہ واجب ہے، جو مکہ میں ذبح کیا جائے گا اور فقراء میں تقسیم ہوگا۔
۲- احرام کی حالت میں حاجی ومعتمر دو چادر استعمال کرتا ہے۔ ایک تہبند کی طرح باندھ لیتا ہے اور دوسری کندھے پر ڈال لیتا ہے۔ بعض حجاج کرام کی چادرناف سے نیچے سرک جاتی ہے اور وہ اس پر توجہ نہیں دیتے حالانکہ ناف ستر میں داخل ہے۔ اس کو ڈھکنے کا خصوصی التزام ہونا چاہئے۔
طواف میں سرزد ہونے والی خطائیں
۱- احتیاطاً حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان سے طواف شروع کرنا، غلو فی الدین ہے جس سے نبی کریمؐ نے منع کیا ہے۔
۲- زیادہ بھیڑ کی صورت میں حطیم کے اندر سے طواف کرنا۔ ایسی صورت میں طواف درست نہیں ہوگا، کیونکہ حطیم خانہ کعبہ کاحصہ ہے۔
۳- ساتوں چکر میں رمل کرنا( دلکی چال چلنا)۔ رمل صرف ابتدائی تین چکروں میں ہے۔
۴- حجرِ اسود کے بوسے کے لئے شدید دھکا مکی کرنا۔ کبھی کبھی نوبت گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے، حالانکہ یہ چیز حج میں خصوصیت کے ساتھ ممنوع ہے۔ ارشادِ باری ہے: ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ ‘‘ (البقرہ:۱۹۷)
۵- حجرِ اسود کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ بذاتِ خود نفع ونقصان پہنچاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض حضرات اس کا استلام کرکے اپنے پورے بدن پر اور بچوں کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں ، یہ سراسر جہالت اورناسمجھی کی بات ہے۔ نفع ونقصان کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ حضرت عمرؓ کا واقعہ ہے: ’’آپؓ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے علم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اور اگر میں نے اللہ کے رسولؐ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔ (بخاری، ۱۵۹۷، مسلم، ۳۱۲۶-۳۱۲۸)
۶-ہر طواف کے لئے مخصوص دعا کا التزام کرنا: بایں طور کہ اس کے علاوہ کوئی دعا نہ کرنا، بلکہ بسا اوقات اگر دعا پوری ہونے سے قبل طواف مکمل ہوجاتا ہے تو دعا بیچ ہی میں منقطع کرکے اگلے طواف میں پڑھی جانے والی دوسری دعا شروع کردی جاتی ہے، اور اگر طواف مکمل ہونے سے قبل دعا پوری ہوجاتی ہے تو بقیہ طواف میں خاموش رہا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اللہ کے رسولؐ سے ثابت نہیں۔
۷- کچھ لکھی ہوئی دعاؤں کو ان کا معنی ومطلب سمجھے بغیر پڑھتے رہنا۔ حالانکہ طواف کرنے والے کو معنی ومطلب سمجھ کر دعا کرنی چاہیے خواہ اپنی مادری زبان میں ہی دعا کرے۔
۸- بعض حجاج یہ سمجھتے ہیں کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں لازماً مقامِ ابراہیمؑ کے پاس پڑھنی چاہئیں ، چنانچہ اس کے لئے دھکا مکی کرتے اور طواف کرنے والوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں ، حالانکہ یہ خیال صحیح نہیں۔ یہ دو رکعتیں بیت اللہ میں کسی بھی مقام پر پڑھی جاسکتی ہیں۔
۹- بعض حضرات مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس بلاسبب کئی کئی رکعات پڑھتے ہیں ، جب کہ دیگر حضرات طواف سے فراغت کے بعد وہاں نماز کے منتظر ہوتے ہیں۔
۱۰- بسا اوقات نماز سے فراغت کے بعد گروپ کا رہنما پوری جماعت کے ساتھ بلند آواز سے دعا کرتا ہے جس سے دیگر نمازیوں کی نماز میں مخل ہوتا ہے۔
سعی کے دوران سرزد ہونے والی خطائیں
۱- بعض حجاج صفا اور مروہ پر چڑھ کر خانہ کعبہ کی جانب رخ کرکے تین بار تکبیرِ تحریمہ کی طرح تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔
آپؐ کے حج کے طریقے میں مروی ہے کہ: ’’جب آپؐ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ (البقرہ۲:۱۵۸) ’’یقینا صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ‘‘۔ اور فرمایا: میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپؐ نے صفا سے سعی کا آغاز کیا اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آگیا، پھر آپؐ نے قبلہ رو ہوکر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی اور اس کی کبریائی بیان کی اور یہ دعا پڑھی: (ترجمہ) ’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، بادشاہت اسی کی ہے، اور سارے شکریہ کا مستحق بھی وہی ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تن تنہا تمام گروہوں کو شکست دی‘‘۔ پھر اس کے درمیان دعا کی۔ اسی طرح تین بار کیا۔ پھر اُتر کر مروہ کی جانب چلے، یہاں تک کہ جب وادی کے بیچ میں پہنچے تو تیزرفتاری سے چلے، اور جب اوپر چڑھ گئے تو عام رفتار سے چلے، یہاں تک کہ مروہ پر پہنچ گئے اور وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا۔ ‘‘ (مسلم، ۳۰۰۹)
۲- پوری سعی کے دوران تیزرفتاری سے چلنا سنت کے خلاف ہے۔ تیزرفتاری سے صرف دونوں سبز لائٹوں کے درمیان چلنا ہے، بقیہ سعی میں عام چال چلنا ہے۔
۳- بعض خواتین دونوں سبز لائٹوں کے درمیان مردوں کی طرح تیزرفتاری سے چلتی ہیں ، حالانکہ عورتوں کو تیزی سے نہیں ، بلکہ عام رفتار سے چلنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ارشاد ہے: ’’طواف میں رمل اور سعی میں تیزرفتاری عورتوں کے لئے نہیں ہے۔ ‘‘(سنن دارقطنی، ۲۷۶۶، سنن کبری للبیہقی، ۹۳۲۱)
۴- بعض حجاج جب صفا یا مروہ کے قریب پہنچتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں : اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّٰہِ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ صرف پہلی سعی میں جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھے۔
۵- بعض حجاج ہر چکر میں مخصوص دعا پڑھتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
۶- بعض حجاج سعی کے دوران اضطباع کرتے ہیں ، یعنی دایاں کندھا کھلا رکھتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ اضطباع صرف طوافِ قدوم میں مسنون ہے۔ (باقی آئندہ ہفتے)