Inquilab Logo Happiest Places to Work

آخرت کی پوری راہ دُنیا سے ہوکر جاتی ہے

Updated: May 02, 2025, 2:41 PM IST | Khurram Murad | Mumbai

قرآنِ مجید نے دنیا کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا ہے کہ آخرت کی پوری راہ دُنیا سے ہوکر جاتی ہے

We should keep in mind at all times that nothing in this world is permanent, everything will end with death, forever. Photo: INN
ہمیں ہر لمحہ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ٹھہرنے والی ہو، ہر بات موت کے ساتھ بالکل ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی۔ تصویر: آئی این این

دنیا اور آخرت کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف پہلوئوں سے واضح کیا ہے۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز، نعمت ہو یا تکلیف، گزر جانے کی چیز ہے۔ چونکہ وقت نہیں ٹھیرسکتا، اس لئے تکلیف بھی نہیں ٹھہرسکتی اور آرام بھی نہیں ٹھہرسکتا۔ اب اس صورت میں کہ وقت کا گزرنا یا رُک جانا ہمارے بس میں نہیں ہے، ہم اس کو روک کے نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لئے یہاں کی خوشی، یہاں کا آرام، یہاں کی تکلیف، یہاں کا رنج و الم، اور یہاں کا درد، ایسی ہر چیز گزر جانے والی ہیں۔ یہ ہمارا روز کا تجربہ ہے کہ خوشی کا بڑا انتظار رہتا ہے۔ ہم اس کی تمنا ہی نہیں کرتے، خواب دیکھتے ہیں۔ خوشی آتی ہے اور بالآخر گزر جاتی ہے۔ تکلیف سے ہم ڈرتے رہتے ہیں۔ تکلیف بڑھتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اب گزر ہی جائے گی۔ 
 ایک اٹل حقیقت
 دنیا کے ساتھ ایک عجیب معاملہ ہے کہ اس کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ٹھہرنے والی ہو۔ ہر بات موت کے ساتھ بالکل ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی۔ اس خاتمے کو ٹالا نہیں جاسکتا اور موت سب کے لئے ہے: ’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے‘‘(آل عمران:۱۸۵) لیکن آخرت میں جو کچھ ہے، اس کا تعلق دنیا کے وقت سے نہیں ہے۔ اس کے وقت کا پیمانہ الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہمیں ہماری زبان میں جو کچھ سمجھایا ہے اس میں اسی بات پر زور دیا ہے کہ وہاں کی ہرچیز باقی رہنے والی ہے، کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ 
دنیا کی مثال تفصیل کے ساتھ دو تین جگہ دی گئی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ دنیا کی مثال بارش کی سی ہے۔ بارش ہوتی ہے، فصل اُگتی ہے، ہری بھری ہوتی ہے، بہار آتی ہے، اس کے بعد زرد پڑتی ہے اور چورا چورا ہوکر زمین کے اندر مل جاتی ہے۔ سورئہ کہف میں، سورئہ حدید میں اور سورئہ یونس میں تین جگہ اس مثال کے مختلف پہلو مختلف انداز سے اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ان سب میں یہی بتایا گیا ہے کہ جس طرح کھیتی باڑی ہوتی ہے، انسان کھیتی کرتا ہے، وہ کچھ نتائج دیکھتا ہے لیکن پھر بالآخر سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ دنیا کے معاملات اسی طرح ہیں۔ 
آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل صاف کہی گئی ہے کہ وہاں پر موت نہیں آئے گی۔ ’’اور اسے ہر طرف سے موت آگھیرے گی اور وہ مر (بھی) نہ سکے گا۔ ‘‘ (ابراہیم :۱۷) یعنی وہ عذاب تو ایسا ہوگا کہ جیسے ہر طرف سے موت آرہی ہے مگر انسان مرنے نہ پائے گا۔ دُنیا میں جب درد و الم بہت بڑھتا ہے تو آدمی یہ آرزو کرتا ہے کہ بس اب موت آجائے تاکہ یہ درد و اَلم ختم ہو اور موت آبھی جاتی ہے، اور درد و اَلم ختم ہو بھی جاتا ہے۔ لیکن وہاں کا عالم ایسا ہے جو موت ہی کی طرح ہوگا کہ موت آرہی ہے، لیکن آدمی مرے گا نہیں۔ یہ عذاب کی بڑی تکلیف دہ صورت ہوگی لیکن انعام پانے والے بھی ایک موت کے بعد کسی دوسری موت کا مزا نہیں چکھیں گے۔ 
 یقینی نتائج
دوسری بات جو اللہ تعالیٰ نے آخرت اور دنیا کے موازنے میں کہی ہے وہ یہ ہے کہ آخرت کے لئے کوشش کے نتائج یقینی ہیں۔ آخرت کے لئے کوشش رائیگاں نہیں جاسکتی۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ آدمی خلوص کے ساتھ آخرت کے لئے کوشش کرے اور وہ ضائع ہوجائے اور اس کا اجر اس کو نہ ملے۔ لیکن دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی کوشش کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آدمی بہت محنت کرے اور پھر بھی ممکن ہے کچھ حاصل نہ ہو، یا تھوڑی محنت کرے اور ممکن ہے بہت زیادہ مل جائے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی جو کوشش کرے گا اس کو اس کا پھل ضرور ملے گا، بلکہ کسی کو مل سکتا ہے اور کسی کو نہیں ملے گا۔ گویا دنیا کے نتائج غیریقینی بھی ہیں، کم اور زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، اور ہرشخص کو ملنا ضروری بھی نہیں ہیں۔ لیکن آخرت کے بارے میں یہ بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ کسی شخص کا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو ضائع جائے گا، بلکہ ارشاد ہے کہ جو کچھ عمل ہوگا اس سے زیادہ کا بھی وعدہ ہے، ہماری طرف سے۔ 

یہ بھی پڑھئے:اوقاف کے ساتھ کیا خود ہمارا طرز عمل شریعت کے مطابق ہے؟

 کثرت کی ہوس
 اب ایک اور پہلو سے دیکھیں۔ سورئہ حدید میں ایک پوری آیت میں دنیا کو زینت بھی کہا گیا ہے، تکاثر بھی کہا گیا ہے۔ ان میں سے ہر لفظ کے اندر دنیا کے نتائج کی ایک قدرو قیمت کو واضح کیا گیا ہے۔ سجاوٹ اور زینت صرف ظاہری ہوتی ہے۔ آپ باہر سے ایک چیز کو سجاتے ہیں۔ سجاوٹ کے معنی یہ ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اندر سے اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔ زینت اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ تو ظاہر کی سجاوٹ ہے۔ اچھا لباس ہے، اچھا مکان ہے، اچھی گاڑی ہے، یہ سب کچھ ہے، لیکن یہ سجاوٹ ہے۔ اس کی کوئی اندرونی قدروقیمت نہیں ہے۔ تکاثر کے معنی یہ ہیں کہ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت ہے اور مسابقت کے ساتھ حسد اور جلن اور کش مکش کی جو برائیاں ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ آتی ہیں۔ تکاثر کے معنی ہیں : زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہوس۔ یہ دنیا کی بھوک ہے جس سے کبھی آدمی سیر نہیں ہوتا۔ یہ وہ پیاس ہے کہ ایک گھونٹ پی کر اور بڑھتی ہے، اور بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ آدمی اس کو اور زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 
 دنیا کے یہ مختلف پہلو یہاں کے نتائج اور ان کی قدرو قیمت کو واضح کرتے ہیں۔ قرآن حکیم انہی نتائج کو بیان کر کے تصریح کرتا ہے کہ یہ متاع ہے اور متاع الغرور ہے۔ غرور کے معنی دھوکے کے ہیں۔ سارے دھوکے اس کے اندر شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں آخرت کو خیر کہا ہے کہ یہ بہتر بھی ہے، باقی رہنے والی بھی ہے اور یہاں خوف و حزن اور اَلم سے نجات بھی ہے۔ آخرت کے بارے میں وعدہ ہے کہ’’نہ ان پر خوف ہوگا نہ کسی قسم کے غم کا شکار ہوں گے‘‘(البقرہ :۳۸) اور نہ وہاں پر یہ مسابقت ہوگی کہ اس کو اتنا مل گیا۔ ایسی کوئی چیز مالک کی خوشنودی پانے والوں کے درمیان نہ ہوگی۔ 
قرآنِ مجید نے دنیا کو اس لحاظ سے اہم قرار دیا ہے کہ آخرت کی پوری راہ دُنیا سے ہوکر جاتی ہے۔ یہی راہ، یہی مال، اور یہی نعمتیں آخرت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اسی لئے دنیا کے مال کو خیر بھی کہا گیا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر یہی مال آخرت بنانے کے لئے استعمال ہو تو یقیناً وہ خیر ہے۔ گویا یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جو اس کے پیچھے چلا وہ برباد ہوا، اور جس نے اس کو اپنے پیچھے چلایا اور آخرت کی منزل کی طرف لے گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ جو انسان ان حقائق سے واقف ہو، اس کو آخرت ہی کو اپنی منزلِ مقصود قرار دینا چاہئے۔ لیکن اگر یہ سب کچھ چھوڑ کر آپ دنیا کو مقصود بنائیں اور اس کے پیچھے دوڑیں تو آپ خود ہی سوچیں کہ اس سے بڑی غلطی کیا ہوسکتی ہے۔ 
 اس سے پہلے کہ موت آجائے!
اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمیں دنیا استعمال کرنے کی جو مہلت ملی ہوئی ہے وہ ایک مختصر مہلت ہے۔ ایک تو یہ مختصر ہے اور دوسرے اس کے اختتام کا علم ہمیں نہیں ہے۔ یہ اختتام آج بھی ہوسکتا ہے اور کل بھی، برسوں بھی لگ سکتے ہیں اور دنوں میں بھی بات ختم ہوسکتی ہے۔ ماہ و سال کی جو مقدار بھی ہو، اس مدت کو مختصر ہی قرار دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ یہ مدت مختصر ہے بلکہ ہمیں اس مختصر مدت کے نہ اختتام کا علم ہے اور نہ جگہ کا۔ 
 موت کے بارے میں قرآنِ مجید نے جو تعلیمات دی ہیں، ان سے دراصل یہ بات واضح ہوتی ہے کہ موت ڈرنے اور خوف کھانے کے لئے نہیں ہے۔ موت جس سے ڈرنے اور خوف کھانے کا کوئی نتیجہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ بالآخر موت آئے گی، ہمیں فکر اس بات کی کرنی چاہئے کہ موت کے بعد جو کچھ پیش آنے والا ہے، اس کے لئے ہم کتنا تیار ہیں اور کتنا آگے بھیج رہے ہیں یعنی آخرت کا سامان کررہے ہیں۔ 
مہلت سے فائدہ اُٹھانے کی فکر
یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مہلت ِ عمل مختصر بھی ہے اور یہ بغیر کسی نوٹس کے ختم ہونے والی بھی ہے۔ یہ بھی دعوت دی گئی ہے کہ ا س سے پہلے کہ وہ وقت آئے جب تم دُنیا سے رخصت ہو، اس سے پہلے ہی اس کی تیاری کرلو۔ یہی دعوت اس انداز سے بھی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے کہ تم کو پکڑ لیا جائے اور موت تمہارے اُوپر آجائے، اس مہلت سے فائدہ اٹھا لو۔ اس لئے کہ اس کے بعد پھر، عمل کی ہرگز مہلت نہیں ہوگی۔ 
 اگر آخرت مقصود بن جائے تو پوری دنیا کا رُخ متعین ہوجاتا ہے۔ شادی ہو، عائلی زندگی ہو، کریئر ہو، اولاد ہو، کارخانے ہوں، کھیت ہوں، پیداوار ہو، تجارت اور مالِ تجارت ہو، بینک بیلنس ہو، سب چیزیں موجود ہوں گی اور آدمی کا ان سے تعلق بھی یقیناً ہوگا۔ لیکن اب سب سے برتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہی اس کی منزلِ مقصود ہوگی۔ یہی طاقت کا اصل سرچشمہ اور قوت کا اصل منبع ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK