یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بطورِ نمونہ کچھ نتائج یا کم سے کم ان نتائج کی ہلکی سی جھلک دنیا میں بھی رونما ہوتی ہے۔
EPAPER
Updated: October 06, 2023, 1:27 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بطورِ نمونہ کچھ نتائج یا کم سے کم ان نتائج کی ہلکی سی جھلک دنیا میں بھی رونما ہوتی ہے۔
حق تعالیٰ شانہٗ نے انسان کی سعادت وشقاوت کو اس کے اعمال سے وابستہ فرمایا ہے۔ ہر عمل پر اس کے مناسب ردّ عمل کا ظہور ہوتا ہے۔ بندوں کے جس قسم کے اعمال آسمان پر جائیں گے، اُنہی کے مناسب اُن کے حق میں آسمان سے فیصلے صادر ہوں گے۔ اعمالِ خیر پر خیر کے فیصلے آئیں گے اور اعمالِ شر پر دوسری نوعیت کے فیصلے ہونگے۔ انفرادی اعمال پر افراد کے بارے میں شخصی فیصلے ہوں گے اور اجتماعی اعمال پر مجموعی طور پر قوم یا طبقہ کے بارے میں فیصلے ہوں گے۔ اعمال کے ثمرات ونتائج دنیا میں بھی رونما ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ہوں گے۔ اچھے اعمال پر جس طرح اُخروی سعادت مرتب ہوتی ہے، اسی طرح دنیا میں سعادت وکامرانی نصیب ہوتی ہے، اور برے اعمال پر آخرت کی شقاوت وخسران کے ساتھ ساتھ دُنیا میں بھی عذاب کی شکلیں نمودار ہوتی ہیں ۔ نیک وبد اعمال کے پورے نتائج کا ظہور تو آخرت میں ہوگا، کیونکہ کامل جزا و سزا کے لئے قیامت کا دن تجویز فرمایا گیا ہے، لیکن بطورِ نمونہ کچھ نتائج یا کم سے کم ان نتائج کی ہلکی سی جھلک دنیا میں بھی رونما ہوتی ہے، تاکہ معاملہ یکسر اُدھار پر نہ رہے، بلکہ کچھ تھوڑا سانقد بھی دے دیا جائے۔
ہمارے یہاں جزا وسزا کے تصور میں دو غلطیاں بہت عام ہوگئی ہیں چنانچہ بہت سے لوگ ان میں مبتلا نظر آتے ہیں :
ایک: یہ کہ اچھے بُرے اعمال کے نتائج قیامت میں ظاہر ہوں گے، اُسی وقت جزا وسزا بھی ہوگی۔ ہماری اس دُنیوی زندگی کو نیک وبد اعمال کی جزا وسزا سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس زندگی میں نیک وبد اعمال پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا، نہ یہاں کسی کو اپنے کئے کی جزا یا سزا ملتی ہے۔
دوم: یہ کہ آخرت کی جزا وسزا پر اگرچہ ایمان ہے، لیکن خواہشات کے غلبہ وتسلط، غفلت آمیز ماحول کی تاریکی اور دنیوی لذّات کی حلاوت وشیرینی نے آخرت کی جزا وسزا کے تصور کو بہت ہی دھندلا اور مضمحل کردیا ہے۔ اس کا استحضار ہی نہیں رہتا کہ جو اعمال ہم اپنے نامۂ عمل میں درج کرارہے ہیں ، قیامت کے دن اُن کے ایک ایک ذرّہ کا حساب بھی دینا ہوگا:
کلام مجید میں فرمایا گیا: (ترجمہ) ’’سو جو شخص (دنیا میں ) ذرہ برابر نیکی کرے گا، وہ (وہاں ) اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا، وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘ (الزلزال:۷،۸)
اور جن گناہوں کا بوجھ ہم آج لاد رہے ہیں ، کل اُسے خود اپنی ناتواں کمر پر اٹھانا ہوگا۔ اس مضمون کو کلام پاک میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے:
’’اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے بار اپنی کمر پر لادے ہوں گے۔ خوب سن لو! کہ بری ہوگی وہ چیز جس کو لادیں گے۔‘‘ (الانعام:۳۱)
ہمارے طرزِ زندگی سے ایسا لگتا ہے کہ آخرت کی جزا وسزا کا ہمارے دنیوی اعمال سے کوئی ربط وتعلق نہیں ، آخرت کا معاملہ اس دنیا سے یکسر بے تعلق ہے، ہم خواہ کیسے ہی عمل کرتے رہیں ، ہم سے کوئی باز پُرس نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہیں ، خود ہی معاف فرمادیں گے۔ ظاہر ہے کہ غفلت کی یہ کیفیت ہماری کھلی حماقت اور عاقبت نااندیشی ہے۔
حدیث شریف میں ارشاد ہے:
’ہوشیار اور عقلمند تو وہ ہے جس نے اپنے نفس کو رام کرلیا اور موت کے بعد کی زندگی کیلئے عمل کیااور احمق ہے وہ شخص جس نے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگادیا اور اللہ تعالیٰ پر آرزوئیں دھریں ۔‘‘(مشکوٰۃ،ص:۴۵۱)
الغرض ان دو غلطیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہم اصلاحِ اعمال کی فکر سے بے نیاز ہیں ، نہ اصلاحِ دنیا کے لئے اصلاحِ اعمال کی فکر ہے اور نہ اصلاحِ آخرت کے لئے۔ حکیم الامت حضرت اقدس تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے ان ہی دو غلطیوں کی اصلاح کے لئے رسالہ ’’جزاء الاعمال‘‘ تالیف فرمایا تھا، اس کی تمہید میں فرماتے ہیں :
’’یہ ناچیز ناکارہ اپنے دینی بھائیوں کی خدمت میں عرض رساں ہے کہ اس وقت میں جوحالت ہم لوگوں کی ہے کہ طاعت میں کاہلی وغفلت اور معاصی میں انہماک وجرأت وہ ظاہر ہے۔ جہاں تک غور کیا گیا، اس کی بڑی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اعمالِ حسنہ وسیئہ کی پاداش صرف آخرت میں سمجھتے ہیں ، اس کی ہرگز خبر تک نہیں کہ دنیا میں بھی اس کا کچھ نتیجہ مرتب ہوتا ہے اور غلبۂ صفاتِ نفس کے سبب دُنیا کی جزا وسزا پر چونکہ وہ سر ِدست واقع ہوجاتی ہے، زیادہ نظر ہوتی ہے۔ پھر عالم ِ آخرت میں بھی جزا وسزا کے وقوع کو گو عقیدۃً ان اعمال کا ثمرہ جانتے ہیں ، مگرواقعی بات یہ ہے کہ جو علاقۂ قوی، مؤثر واثر میں اور سبب ومسبب میں سمجھنا چاہئے اور اسباب ومسبباتِ دنیویہ میں سمجھتے ہیں ، وہ علاقہ اس قوت کے ساتھ اعمال اور ان کے ثمراتِ آخرت میں ہرگز نہیں سمجھتے، بلکہ قریب قریب اس طرح کا خیال ہے کہ گویا اس عالم کے واقعات کا ایک مستقل سلسلہ ہے، جس کو چاہیں گے پکڑکر سزا دے دیں گے، جس کو چاہیں گے خوش ہوکر نعمتوں سے مالامال کردیں گے۔ اعمال کو گویا اس میں کچھ دخل ہی نہیں ہے۔(حاشیہ:۱)
قرآن کریم کی آیاتِ بینات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ طیبہ میں اعمال کے دُنیوی نتائج بہ کثرت مذکور ہیں ، آج کی صحبت میں اس سلسلہ کی ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے۔مؤطا امام مالکؒ ’’کتاب الجہاد باب ماجاء في الغلول‘‘ میں حضرت ابن عباس ؓ کا ارشاد نقل کیا ہے: ’’جس قوم میں خیانت عام ہوجاتی ہے، ا س کے دل میں رعب ڈال دیا جاتا ہے۔ اور جس قوم میں زنا عام ہوجاتا ہے، ان میں اموات کثرت سے واقع ہونے لگتی ہیں ۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، ان کا رزق بند کردیا جاتا ہے۔ جو حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے، اس میں خونریزی عام ہوجاتی ہے اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے، ان پر دشمن کا تسلُّط ہوجاتا ہے۔‘‘
اس حدیث میں جن پانچ گناہوں کے پانچ ہولناک نتائج ذکر کئے گئے ہیں ، آج کا معاشرہ پوری طرح اُن کی لپیٹ میں ہے:
(۱)غلول: مالِ غنیمت میں خیانت کرنے کو کہتے ہیں اور کبھی اس کا اطلاق مطلق خیانت پر بھی آتا ہے، جس کے مقابلہ میں دیانت داری اور امانت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ’’امانت‘‘ اور ’’ایمان‘‘ قرین ہیں اور خیانت ایمان کی ضد ہے۔ خادمِ رسولؐ اللہ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں : ’’بہت کم ایسا ہوا ہوگا کہ آنحضرتؐ نے ہمیں خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ ایمان ہی نہیں اس شخص کا جس کیلئے امانت نہیں اور دین ہی نہیں اس شخص کا جس کو اپنے عہد کا پاس نہیں ۔‘‘ (مشکوٰۃ،ص:۱۵)(۲)حدیث کا دوسرا فقرہ یہ ہے کہ جس قوم میں زنا عام ہوجاتا ہے، اس میں اموات بہ کثرت واقع ہوتی ہیں۔ زنا کے عام ہوجانے میں اُس کے اسباب کو بڑا دخل ہے۔ ہمارے معاشرہ میں زنا کے اسباب اس قدر عام ہیں کہ بھلے زمانوں میں اُن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ناخدایانِ قوم کو نسلِ جدید کی ان مشکلات کا کوئی احساس نہیں اورنہ اُسے اس طوفانِ نوح سے بچانے کیلئے کوئی تدبیر کبھی زیر غور آتی ہے، بلکہ بہت سے قلم، جن کی آواز مؤثر ہے اور جو مسکین خود بادۂ جنسیت کے مئے گسار ہیں، وہ ’’آزادیِ نسواں‘‘ کا علم اٹھائے اس صورت حال کو مزید سنگین بنانے میں مصروف ہیں۔
(۳)حدیث کا تیسرا فقرہ ہے کہ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، وہ رزق کی بندش کے عذاب میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ ’’ناپ تول میں کمی‘‘کا مفہوم عام ہے کہ جس مقدار کی تعیین کیلئے جو پیمانہ مقرر ہے، اُسے پورا نہ کیا جائے اور صاحبِ حق کا حق پورا ادا نہ کیا جائے۔ حضرت مفتی محمد شفیع ؒ ’’معارف القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ناپ تول میں کمی‘‘اور حقوق ادا کرنے کے جو پیمانے مقرر ہیں،ان کو پورا نہ کرنے کی بیماری بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ہزاروں میں کوئی ایک ہوگا جو مقررہ پیمانے کو پورا ادا نہ کرنے کا مریض نہ ہو،یہی وجہ ہے کہ اس کی سزا یعنی رزق کی بندش بھی عام ہور ہی ہے۔ رزق کی بندش کی بھی بہت سی صورتیں ہیں: ایک یہ کہ رزق کا قحط ہوجائے۔ ایک صورت یہ ہے کہ چیزوں کی تو فراوانی اور بہتات ہو، مگر صارفین کی قوتِ خرید میں کمی واقع ہوجائے۔ ایک صورت یہ ہے کہ رزق سے برکت اُٹھ جائے اور( الا ماشاء اللہ!) ہر شخص کو قلت ِ وسائل کی شکایت ہو۔ غور فرمایئے! تو ہمارے یہاں ’’بندشِ رزق‘‘ کی یہ ساری صورتیں پائی جاتی ہیں اور رزق کے معاملے میں معاشرے کی اکثریت حیران وپریشان ہے۔
(۴)حدیث کا چوتھا فقرہ یہ ہے کہ جو قوم حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے، اس میں قتل وخونریزی عام ہوجاتی ہے۔ ’’حق کے مطابق فیصلہ‘‘ کرنے کا مطلب ہے: ’’صحیح قانون کے مطابق صحیح فیصلہ کرنا‘‘ گویا اس کے مفہوم میں دو چیزیں شامل ہیں: ایک یہ کہ قانون کے مطابق بے لوث فیصلہ کیا جائے، جس میں نہ کسی کی رو رعایت ہو، نہ لالچ یا سفارش کار فرماہو۔ دوم یہ کہ جس قانون کے مطابق فیصلہ کیا گیا، وہ قانون بھی بجائے خود صحیح اور برحق ہو۔ پس اگر قانون ہی غلط ہو، ظالمانہ ہو تو اس کے مطابق جو فیصلہ بھی کیا جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عدل وانصاف کا فیصلہ نہیں ہوگا اور ایسے فیصلے کرنے والا ’’ناحق فیصلہ‘‘ کی وعید کا مستحق ہوگا، وہ قیامت کے دن یہ عذر نہیں کرسکے گا کہ میں نے قانون کے مطابق فیصلہ کیا تھا۔ اسی طرح اگر قانون تو صحیح اور برحق ہے، مگر فیصلہ کرنے والے نے قانون کے مطابق بے لوَث اور بے لاگ فیصلہ نہیں کیا، بلکہ رشوت و سفارش یا قرابت کی وجہ سے ایک فریق کی رعایت کی گئی تو یہ فیصلہ بھی ظالمانہ اور جابرانہ فیصلہ ہوگا۔
حدیث شریف کا پانچواں فقرہ عہد شکنی سے متعلق ہے کہ جب کوئی قوم اپنے کئے ہوئے معاہدوں کا پاس نہیں کرتی، بلکہ عہد شکنی کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس پر دشمن کو مسلط کردیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ آج ہم جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں، وہ ہماری شامت ِ اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ان پریشانیوں کے ازالہ کی بس ایک صورت ہے کہ ہم اپنی بدعملیوں سے توبہ کریں اور اصلاحِ احوال کیلئے اصلاحِ اعمال کا راستہ اختیار کریں۔ حق تعالیٰ شانہٗ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائیں اور اعمالِ صالحہ اختیار کرنے کی صورت میں جس ’’حیاۃِ طیبۃ‘‘ کا وعدہ فرمایاگیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائیں۔ آمین