تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں، یہ انسان کی شخصیت، سوچ، کردار اور مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ نوجوان صرف اپنے والدین کا سہارا نہیں بنتا بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔
EPAPER
Updated: November 19, 2025, 11:36 AM IST | Momin Fayyaz Ahmed Ghulam Mustafa | Mumbai
تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں، یہ انسان کی شخصیت، سوچ، کردار اور مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ نوجوان صرف اپنے والدین کا سہارا نہیں بنتا بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔
تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں، یہ انسان کی شخصیت، سوچ، کردار اور مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ نوجوان صرف اپنے والدین کا سہارا نہیں بنتا بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج بھی ہمارے علاقوں میں ڈراپ آؤٹ یعنی بچوں کا تعلیم ادھوری چھوڑ دینا ایک بڑا اور خطرناک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایک بچے کا نہیں، بلکہ آنے والی پوری نسل کا مستقبل خطرے میں ڈال رہا ہے۔ زیرنظر مضمون میں اس مسئلے کی اصل وجوہات، ذمہ دار کرداروں کی غفلت، اور اس کے حل کے لیے تعلیمی اداروں، اساتذہ، والدین اور سماج کی ذمہ داریوں پر گفتگو کی گئی ہے۔
ڈراپ آؤٹ کی بنیادی وجوہات
ناخواندہ والدین اور سماجی ماحول: بہت سے والدین خود غیر تعلیم یافتہ ہیں، اس لئے وہ بچوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ گھر میں تعلیمی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بچے پڑھائی سے بےزار ہو جاتے ہیں۔
معاشی کمزوری : غربت کی وجہ سے بچے کم عمری میں کام پر لگ جاتے ہیں۔ چھٹیوں میں ۵؍سے ۱۰؍ ہزار روپے کما کر بچے اور والدین خوش ہو جاتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ چند سال مزید پڑھ کر وہ لاکھوں روپے ماہانہ کما سکتے ہیں۔
کمزور نتائج ،موبائل، ماحول اور رہنمائی کی کمی: والدین کی نگرانی نہ ہونا، موبائل گیمز اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال، اسباق میں عدم دلچسپی، وقت کا ضیاع اور ٹیوشن یا رہنمائی کی کمی بچوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔
بری صحبت اور غلط دوست: غلط ماحول بچوں کو تعلیم سے دور کرتا ہے۔ بہت سے نوجوان تعلیمی راہ چھوڑ کر غلط سرگرمیوں میں پڑ جاتے ہیں۔
سیاست دانوں اور انتظامیہ کی غفلت: ہمارے ایم پی، ایم ایل اے اور کارپوریٹرز نے آج تک اپنے علاقوں میں انجینئرنگ کالج، میڈیکل کالج، سائنس، کامرس اور آرٹس کالج، آئی ٹی اور مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ حالانکہ ان کے پاس زمینیں اور پلاننگ دونوں موجود ہوتے ہیں۔
تعلیمی ٹرسٹوں کی عدم دلچسپی: زیادہ تر ٹرسٹ صرف اسکول تک محدود ہیں۔ اعلی تعلیم کے ادارے قائم کرنا ان کے پروگرام میں شامل ہی نہیں ہوتا۔ نہ منصوبہ بندی، نہ زمین کا انتظام، نہ فنڈ کی کوشش۔
اسکولوں کی حد بندی : زیادہ تر اسکولوں میں تعلیم ساتویں یا دسویں جماعت تک محدود ہے۔ اسی وجہ سے ۵۰؍فیصد بچے ساتویں یا دسویں کے بعد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔ صرف ۵؍سے ۱۰؍ طلبہ ہی بارہویں اور اعلی تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں۔
کو ایجوکیشن پر اعتراض تو بہت، حل کوئی نہیں: ہم کو ایجوکیشن (مخلوط تعلیم) پر اعتراض کرتے ہیں مگر لڑکیوں اور لڑکوں کے الگ کالج بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ چند ادارے ضرور کام کر رہے ہیں لیکن یہ تعداد بہت کم ہے۔
اساتذہ اور پرنسپل کیا کر سکتے ہیں؟
ہم اکثر ڈراپ آؤٹ کے لئے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا دیتے ہیں، لیکن ایک بڑی اور اہم ذمہ داری اساتذہ اور پرنسپل کی بھی ہے۔ اگر اسکول کے اندر مضبوط نظام ہو تو ڈراپ آؤٹ کی شرح نمایاں طور پر کم ہو سکتی ہے۔
(۱)بچوں کے ساتھ مضبوط رابطہ، اعتماد اور رہنمائی: اساتذہ روزانہ بچوں سے ملتے ہیں، اس لیے ان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ:کمزور طلبہ کی شناخت کریں، ان کی رہنمائی کریں، ان کے مسائل سنیں اور ان کے اندر اعتماد پیدا کریں۔ایک اچھا استاد وہ ہے جو بچے کو صرف مضمون نہیں پڑھاتا بلکہ زندگی کی سمت بھی دیتا ہے۔
(۲)پرنسپل کا فعال کردار: ایک اچھا پرنسپل صرف انتظام نہیں کرتا بلکہ وژن دیتا ہے۔ وہ یہ کر سکتا ہے: اسکول میں کریئر گائیڈنس سیل قائم کرے، والدین کے شایھ میٹنگ کو موثر بنائے، کمزور طلبہ کیلئے ریمیڈیل کلاسز شروع کرے، ڈراپ آؤٹ طلبہ کا فالو اپ سسٹم بنائے اور اساتذہ کے ساتھ ماہانہ جائزہ میٹنگ کرے۔
(۳)والدین کی تربیت اور آگہی: اساتذہ اور پرنسپل کو والدین کو بتانا چاہئے کہ موبائل کا غلط استعمال بچے کے مستقبل کیلئے نہایت نقصان دہ ہے۔ والدین بچے کی روزانہ کم از کم گھنٹے پڑھائی کو یقینی بنائیں۔
کریئر کونسلنگ جدید دور کی اہم ضرورت
طلبہ کو بتایا جائے کہ کون سے کورس مستقبل بدل سکتے ہیں: ڈپلوما، انجینئرنگ، میڈیکل، نرسنگ، آئی ٹی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، فیشن ڈیزائننگ، ایئر ہوسٹس، چارٹرڈ اکاؤنٹنسی، فارمیسی، پالیٹیکل سائنس، آئی اے ایس/آئی پی ایس، وغیرہ کی معلومات دی جائے۔ کریئر کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بھی بچے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔
سماج کی مشترکہ ذمہ داری
ڈراپ آؤٹ کا مسئلہ صرف اسکول کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ اگر ہم نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں ہمیشہ پسماندہ رہیں گی۔ ہر ڈراپ آؤٹ بچہ مستقبل کا ایک ضائع ہونے والا سرمایہ ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔