• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹی ای ٹی کافی نہیں،انٹرن شپ کو لازمی قرار دیا جائے

Updated: November 19, 2025, 11:44 AM IST | Junaid Abdul Qayyum Sheikh | Mumbai

انٹرن شپ نظریہ اور عمل کے درمیان ایک مضبوط پُل ہے جو اساتذہ کو تجربہ کار اساتذہ کی نگرانی میں کلاس کے ماحول کو قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے

Picture: INN
تصویر:آئی این این
اساتذہ کی اہلیت جانچنے کے لئے ٹیچر ایلیجبلیٹی ٹیسٹ (TET) متعارف کرایا گیا تھا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تدریس کے خواہش مند امیدوار تعلیم دینے کی بنیادی صلاحیت رکھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ ٹی ای ٹی پورے ملک میں اساتذہ کی تقرری کا معیار بن گیا۔ مگر اس دوڑ میں ایک نہایت اہم پہلو پسِ پشت چلا گیا — کلاس روم میں عملی تجربہ۔  تدریس محض کتابی علم یا نظریاتی مہارت کا نام نہیں۔ یہ ایک زندہ عمل ہے جو رابطے، جذباتی فہم، برداشت، اور ہمدردی جیسے اوصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک استاد کی اصل آزمائش ٹی ای ٹی کے امتحان ہال میں نہیں بلکہ اُن تیس سے پچاس متجسس اور شرارتی ذہنوں کے سامنے ہوتی ہے جو کلاس روم میں اس کے سامنے موجود  ہوتے ہیں۔ افسوس کہ ٹی ای ٹی جیسے امتحانات اس عملی تدریسی صلاحیت کو جانچنے سے قاصر ہیں۔ ہندوستانی تعلیمی نظام نے بے شمار ایسے اہل علم پیدا کیے ہیں جو بہترین لیسن پلان لکھ سکتے ہیں مگر حقیقی کلاس روم سنبھالنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استاد کی تعلیمی اہلیت اور تدریسی تیاری کے درمیان ایک واضح خلا موجود ہے۔ لہٰذا ایک سالہ انٹرن شپ کوئی اضافی بوجھ نہیں بلکہ وقت کی سب سے بڑی تعلیمی ضرورت ہے۔
انٹرن شپ کیوں ضروری ہے؟
انٹرن شپ دراصل نظریہ اور عمل کے درمیان ایک مضبوط پُل ہے۔ یہ تربیتی مرحلہ اساتذہ کو موقع دیتا ہے کہ وہ تجربہ کار اساتذہ کی نگرانی میں کلاس کے ماحول کو قریب سے دیکھیں، بچوں کی نفسیات سمجھیں، اور سبق پڑھانے کے عملی طریقے سیکھیں۔ اس عمل سے نہ صرف ان کا اعتماد بڑھتا ہے بلکہ ایک پیشہ ور استاد کے طور پر اُن کی شناخت بھی مستحکم ہوتی ہے۔ نیشنل ایجوکیشن پالیسی (NEP 2020) نے بھی عملی تربیت اور تجرباتی  ذریعہ  ٔ تدریس پر خاص زور دیا ہے۔ اگر انٹرن شپ کو لازمی قرار دیا جائے تو یہ پالیسی کے اس وژن سے ہم آہنگ ہوگا۔ آخر کتابی علم کبھی بھی عملی تجربے کی جگہ نہیں لے سکتا۔
ٹی ای ٹی سے آگے، تدریس کے معیار 
کی نئی تعریف:
ٹی ای ٹی محض علمی قابلیت کا پیمانہ ہے، مگر یہ تدریسی مہارت یا کلاس روم مینجمنٹ کی ضمانت نہیں دیتا۔ ایک سالہ انٹرن شپ پروگرام سے ایسے اساتذہ سامنے آئیں گے جو نہ صرف علم رکھتے ہیں بلکہ طلبہ کے ساتھ بہتر رابطہ، نظم و ضبط اور متاثر کن تدریس کے قابل بھی ہیں۔  دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جیسے فن لینڈ اور سنگاپور میں انٹرن شپ کو استاد کی تربیت کا لازمی حصہ مانا گیا ہے۔ وہاں حکومتیں اساتذہ کی رہنمائی، عملی تربیت، اور اسکول کی سطح پر تجرباتی ذریعہ ٔ  تدریس کے نظام میں بھاری سرمایہ کاری کرتی ہیں تاکہ جب استاد کلاس روم میں داخل ہو تو وہ ذہنی، جذباتی اور علمی طور پر پوری طرح تیار ہو۔
خصوصی مضامین کے اساتذہ کے لئے انٹرن شپ کی اہمیت
اگرچہ عمومی تدریسی صلاحیت ہر استاد کے لیے ضروری ہے، لیکن کچھ مضامین ایسے ہیں جن میں عملی تربیت کا کردار کہیں زیادہ اہم ہے:  فزیکل ایجوکیشن (B.P.Ed / D.P.Ed) کے اساتذہ کے لئے جسمانی طور پر فِٹ ہونا، نظم و ضبط اور کھیل کے انتظامی اصولوں سے واقف ہونا لازمی ہے۔  آرٹ اور ڈرائنگ (ATD / AM) کے اساتذہ کے لئے تخلیقی صلاحیت اور فنی مہارت بنیادی شرط ہے تاکہ وہ بچوں میں جمالیاتی ذوق بیدار کر سکیں۔  موسیقی، کرافٹ اور ورک ایجوکیشن کے اساتذہ کے لئے اپنے فن میں عملی مہارت کے ساتھ ساتھ طلبہ کو سرگرمیوں کے ذریعے سکھانے کا ہنر سیکھنا ضروری ہے۔  ان تمام مضامین کے اساتذہ کو بھی کم از کم ایک سالہ انٹرن شپ کے عمل سے گزارنا چاہئے تاکہ وہ تدریسی مہارت کے ساتھ ساتھ عملی تجربہ بھی حاصل کر سکیں۔
آگے کا راستہ
  اگر تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے تو ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوشنز کو اسکولوں کے ساتھ مل کر منظم انٹرن شپ پروگرام شروع کرنے ہوں گے۔ تجربہ کار اساتذہ کو بطور مینٹر مقرر کیا جائے تاکہ وہ تربیت حاصل کرنے والے اساتذہ کو باقاعدہ رہنمائی اور فیڈبیک دے سکیں۔  حکومت اگر انٹرن شپ کے دوران دس سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ وظیفہ فراہم کرے تو زیادہ سے زیادہ نوجوان تدریسی پیشہ اپنانے کے لئے آگے آئیں گے۔ اس اقدام سے نہ صرف تدریسی معیار بلند ہوگا بلکہ طلبہ کی کارکردگی میں بھی نمایاں بہتری آئے گی۔
نتیجہ: اب وقت آگیا ہے کہ ہم اساتذہ کی اہلیت کے پیمانوں پر ازسرنو غور کریں۔ ٹی ای ٹی دروازہ کھولتا ہے، مگر تدریس کی حقیقی دنیا میں قدم انٹرن شپ سے رکھا جاتا ہے۔ جب استاد عملی تربیت سے گزر کر کلاس میں آتا ہے تو وہ صرف سبق نہیں پڑھاتا، بلکہ دلوں کو روشن کرتا ہے…یہی وہ مقام ہے جہاں تعلیم محض پیشہ نہیں بلکہ ایک مشن بن جاتی ہے۔ (مضمون نگار مصنف، اور سوشل ہائی اسکول و جونیئر کالج آف سائنس، سولاپور میں سائنس ایجوکیٹر ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK