• Mon, 17 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’تو نتائج ویسے ہی آتے ہیں جیسے بہار کے آئے ہیں‘‘

Updated: November 17, 2025, 3:45 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

’’جیت گئے بہت بڑی جیت! مگر یہ تو بتلائیں کہ لوگوں نے ووٹ کس بات پر دئیے؟ ایک موضوع اب تک بتانہیں پائے، کانگریس کی غلطیاں، آرجے ڈی پر حملے۔ کیا اس بنیاد پر چھپرپھاڑ ووٹ ملتا ہے؟ ان کی غلطیاں ہیں، ہوں گی، مگر اس بنیاد پر کسی دوسرے کو کوئی اس حد تک پسند کرتا ہے؟‘‘

Picture: INN
تصویر:آئی این این
بہار کے الیکشن نتائج پر اپوزیشن حامی حیران ہیں۔ حکومت نواز بلیوں اچھل رہے ہیں جبکہ ہار کے غم اور جیت کے جشن سے الگ تھلگ جمہوریت نواز، اپوزیشن کے سمٹتے چلے جانے پر فکرمند ہیں۔ سوشل میڈیا گلیاروں میں نتائج پر طرح طرح کی باتیں ہورہی ہیں۔ سیاسی تجزیوں اور تبصروں کی باڑھ چلی آئی ہے۔ اپوزیشن پر جی بھر کر لعن طعن کی جارہی ہے۔ نتائج سے پہلے تک جو لوگ ووٹ چوری، انتخابی دھاندلی، ووٹر لسٹ گڑبڑی اور الیکشن کمیشن کے کردار پر شبہات قائم کررہے تھے، وہ بھی اب ان موضوعات سے منہ پھیر رہے ہیں۔ 
 
 
صحافی و انتخابی تجزیہ کار آدیش راول نے لکھا کہ’’گاندھی خاندان یہ بات نہیں سمجھ رہا ہے کہ پارٹی پر اُن کی گرفت دھیرے دھیرے کمزور پڑرہی ہے۔ تین بار لوک سبھا الیکشن ہارنا اور ریاستی انتخابات میں شکست سے ان کے لیڈران علاقائی پارٹیوں کا رخ کررہے ہیں۔ زمینی حقائق سے دور رکھا جارہا ہے۔ پارٹی کے لیڈران میں غصہ ہے۔ بند کمروں میں لوگ قیادت کی تبدیلی کی بات کررہے ہیں۔ وقت رہتے غور و فکر کی ضرورت ہے۔‘‘اجیت انجم نے لکھا کہ ’’ بہار میں این ڈی اے کی اتنی بڑی جیت کے پیچھے صرف سازشی نظریئے کھوجنے کی بجائے اپوزیشن کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ ووٹ چوری کرکے اور الیکشن مینیج کرکے کچھ سیٹیں بھلے دائیں بائیں ہو سکتی ہیں لیکن اتنی بڑی ریکارڈ توڑ جیت نہیں ہوسکتی۔ بہت گہری جانچ اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ میں بہار گھومتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ این ڈی اے کی سرکار بن رہی ہے لیکن اتنی سیٹیں آئیں گی یہ کسی نے نہیں سوچا تھا، خود امیت شاہ ۱۶۰؍کا نعرہ دے رہے تھے، پھر یہ دو سو پار کیسے ہوگیا؟ اپوزیشن نے اتنی خراب کارکردگی کیسے کی؟ اس پر گہرائی سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ دنیش ڈانگی نے لکھا کہ’’ لگاتار تین لوک سبھا چناؤ میں ہار، پھر ہریانہ، مہاراشٹر اور بہار میں کراری شکست۔ کانگریس تھنک ٹینک اور حکمت عملی سازوں کو اب غور و فکر کرنا ہی ہوگا۔ عوام کے مزاج اور موڈ کو سمجھنا ہی ہوگا۔ تنقید اور منفی سیاست سے بالکل کام نہیں چلنے والا۔ جئے جگت۔ این جی او ٹائپ نیتا اور جنوب کے لیڈروں کو زیادہ توجہ دینا کہیں نقصان تو نہیں کررہا ہے۔ اب اس سے زیادہ تو کیا نقصان ہوگا؟ کچھ کیجیے  اب تو کھونے کو بھی کیا ہے؟‘‘ ماحول کیا ہے؟ نامی معروف شو چلانے والے صحافی راجیو رنجن نے لکھا کہ’’جب آپ ستہ میں ہوتے ہیں چاٹوکار، چاپلوس آپ کو گھیرے رہتے ہیں۔ عموماً ایسا ہوتا ہے، لیکن آپ اپوزیشن میں ہیں تو ایسے ہی لوگوں سے گھرے رہیں اور انہی کی سنیں تو نتائج ویسے ہی آتے ہیں جیسے بہار کے آئے ہیں۔اپوزیشن لیڈران کو اپنے ناقدین کو نزدیک رکھنا چاہئے۔ نہیں تو اور بھی برے دن آئیں گے۔ پانچ سو سال پہلے کبیر لکھ گئے تھے : نندک نیئرے رکھئے، آنگن کوٹی چھوائے۔‘‘
 
 
رمیش رادھا کرشنن نے لکھا کہ’’ جو لوگ اس ہار کیلئے راہل گاندھی یا کانگریس کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں، وہ بھی اس مسئلے کی جڑ ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ این ڈی اے کی جیت نہیں ہے۔ یہ عوام کا فیصلہ نہیں ہے۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کیوں؟‘‘ داراب فاروقی نے تبصرہ کیا کہ’’مستقبل قریب میں بی جے پی مغربی بنگال، تامل ناڈو اور کیرالا بھی جیتے گی اور وہ لوگ ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر اپوزیشن کا تمسخر اڑائیں گے اور آپ ان کی باتوں پر بھروسہ کریں گے۔‘‘ میگھناد نے مزاحیہ انداز میں طنز کی برچھی چلائی کہ ’’پہلے تو براہ مہربانی یہ کہنے والی تجزیہ کاروں کی بھیڑ دفع ہوجائے کہ ووٹ چوری کوئی مُدّا(موضوع) نہیں۔‘‘ ابھیجیت ڈِپکے نے لکھا کہ ’’جو لوگ دھاندلی کو نظر انداز کرکے اپوزیشن کو حکمت عملی کا سبق دے رہے ہیں،دراصل وہ اس طرح دھاندلی والے انتخابات کو جائز ثابت کرکے  بی جے پی کی مدد کررہے ہیں۔‘‘ شکیل اختر نے سوالات قائم کئے کہ’’ جیت گئے بہت بڑی جیت! مگر یہ تو بتلائیں کہ لوگوں نے ووٹ کس بات پر دئیے؟ ایک موضوع اب تک بتانہیں پائے، کانگریس کی غلطیاں، آرجے ڈی پر حملے۔ کیا اس بنیاد پر چھپرپھاڑ ووٹ ملتا ہے؟ ان کی غلطیاں ہیں، ہوں گی، مگر اس بنیاد پر کسی دوسرے کو کوئی اس حد تک پسند کرتا ہے؟ ہریانہ، مہاراشٹر اور اب جو بہار میں جیت رہے ہیں انہیں خود یقین نہیں ہورہا ہے۔ ایسی جیت کی وجہ نہیں مل رہی ہے۔ الیکشن مینجمنٹ، باریک باتیں سب ٹھیک ہیں مگر اتنی بڑی جیت نہیں دلاسکتے۔‘‘آرجے ڈی کی دو خواتین ترجمانوں کو ٹرول کیا گیا کہ ان کی وجہ سے پارٹی کے ووٹ کٹ گئے۔اس پر اشوک کمار پانڈے نے لکھا کہ’’ کمال کی بات ہے کہ ماں بہن کی گالی دینے والے ترجمانوں سے ووٹ نہیں کٹتے، لیکن پرینکا بھارتی جیسی پروکتا جاتی واد اور فرقہ پرستی پر حملہ کرتی ہیں تو ووٹ کٹ جاتے ہیں۔‘‘ 
 
 
جن سوراج کے پرشانت کشور بھی تنقیدوں کی زد پر ہیں۔ کھاتہ نہ کھول پانے والے پرشانت نتائج سے پہلے تک دعوے کررہے تھے کہ سرکار ان کی پارٹی کی ہوگی۔ اس پر اوما شنکر سنگھ نےچٹکی کاٹی کہ’’ یہ بھائی صاحب ہر انٹرویو کرنے والے کو پرچی پر کچھ لکھ کر دے رہے تھے، کسی نے دکھایا کہ کیا لکھ کر دے رہے تھے؟‘‘منو جوزف نے لکھا کہ’’ پرشانت کشور کی انتخابی کارکردگی دیکھ کر وہ صورتحال یاد آتی ہے جب کوئی ادبی ناقد اپنا پہلا ناول تخلیق کرتا ہے۔‘‘ فری لانس صحافی مہتاب عالم نے فیس بک پوسٹ میں تبصرہ کیا کہ’’  میں اپنی خوشی الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، بہار کے انتخابات میں پرشانت کشور اور ان کی جن سوراج پارٹی کا تقریباً صفایا ہوگیا ہے۔ امید ہے کہ یہ نتیجہ سیاسی کنسلٹنسی کے اس کاروبار کے بتدریج مگر یقینی خاتمے کی نوید ثابت ہوگا جو زمینی سطح کی سیاست اور جمہوریت کو دیمک کی طرح کھاتا جا رہا ہے۔ منے کہہ رہے ہیں۔‘‘
ویسے تو باتیں اور بھی ہیں، لیکن کیا کریں ہم’ ساجھا‘کرنے سے مجبور ہیں۔ تنگی داماں کا لحاظ ہے۔ اسلئے اتنے پر ہی اکتفا کیجئے، لیکن جاتے جاتے ہم بھی اپدیشک کی طرح کچھ کہے جارہے ہیں، بننے بگڑنے کا کھیل ہوتا رہے گا، ہار اور جیت لگی رہے گی۔ یہی دنیا کی ریت ہے پیارے۔ قصہ تمام۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK