• Mon, 17 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: پہلے گائوں میں بیماروں کو رنگ برنگی گولیاں کھانے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی

Updated: November 17, 2025, 3:50 PM IST | Ehsan-ul-Haq

ایک وقت تھا جب گائوں میں دور دور تک اسپتال نہیں ہوتے تھے۔ ایسی صورت میں جب کوئی بیمار پڑتا تو پہلے اُس کا گھر پر ہی دادی نانی کے نسخے سے علاج ہوا کرتا تھا۔

Until a few years ago, medicines were rarely used for treatment in the village, often relying on herbs. Photo: INN
کچھ سال قبل تک گاؤں میں علاج کیلئے دواؤں کا استعمال شاذونادر ہی ہوتا تھا، اکثر جڑی بوٹیوں سے کام چلایا جاتا تھا۔ تصویر:آئی این این
ایک وقت تھا جب گائوں میں دور دور تک اسپتال نہیں ہوتے تھے۔ ایسی صورت میں جب کوئی بیمار پڑتا تو پہلے اُس کا گھر پر ہی دادی نانی کے نسخے سے علاج ہوا کرتا تھا۔ اُس وقت نزلہ ، زکام ، بخار اور قے دست کا علاج دیسی طریقے سے ہوتا تھا ۔وہ طریقہ ایسا تھا کہ رات کو امرود کھانے والے بچوں کو دادیاں ڈانٹتی تھیں اور صبح کھانسی آنے پر الائو کے پاس بیٹھے بچے کو اُسی امردو کو بھون کر کھلاتی تھیں۔ اس طریقہ علاج سے دوپہر تک بچے کی کھانسی غائب ہو جاتی تھی۔ زبان میں چھالے پڑ جائیں تو ببول کی پتیاںچپائی جاتی تھیں، اس سےرفتہ رفتہ  چھالے غائب ہو جاتے تھے ۔ پیٹ میں درد ہونے پر گنگنے پانی میں نمک ڈال کر لیمو نچوڑ دیا جاتا اور ...ہاں یہ پانی ایک سانس میں پینے کی شرط ہوتی تھی۔  اس طرح ایک ڈکار کے ساتھ پیٹ کا درد غائب ہو جاتا تھا۔ کھانسی میں جب امرودوالا نسخہ کام نہ آتا تو پھر اُس کا شہد سے علاج کیا جاتا تھا۔ اُس وقت گائوں میں ہر گھر میں خالص شہد ہوتا تھا ، اب بھی گائوں میں خالص شہد آسانی سے مل جاتاہے، باغات کےدرختوں پر شہد کے چھتے نظر آجاتے ہیں۔خاص طور پرآم اور مہوا میں پھول آنے کے موسم میںان کے پیڑوں پر شہد کے چھتےلگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح مہینے دو مہینے میں جب چھتے میں خوب شہد جمع ہو جاتی تو بڑی سی مشعل جلا کر گائوں کاہی شہد نکالنے میں ماہر بندہ(جسے ہمارے یہاں مُسہرا کہا جاتا ہے) اس پر چڑھتا اور چھتے کو نیچے لاکر اُس میں سے شہد نکالتا تھا ۔ اُس شہد میں سے نصف حصہ وہ خود لیتا اور باقی شہد گائوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔ اس طرح گائوں کے ہر گھر میں خالص شہد پہنچ جاتی تھی۔  اِسی شہد سے کھانسی کی دوا تیار کی جاتی تھی۔ اس میں سیاہ مرچ اور پیپل کے خشک کئے گئے پتے کو پیس کر ملایا جاتا اور بچے کو صبح شام پلایا جاتا ۔ اس نسخے سے چند دنوں میں کھانسی ٹھیک ہو جاتی تھی۔
 
 
آج کی یونانی دوا ساز کمپنیوں کے ذریعہ تیار کئے جانے والے سیرپ پینے پر اُس گھریلو سیرپ کی یاد آ تی ہے کیونکہ وہ بھی ذائقے میں اسی سیرپ کی طرح ہوتی تھی ۔ سردی کھانسی ٹھیک کرنے کا ایک اور نسخہ یاد آیا ۔ گھر کی کچی ہلدی اور سونٹھ پیس کر ، گُڑ اَجوائن اور سرسوں کے تیل سے ایک خاص قسم کا حلوہ تیار کیا جاتا تھا۔ گُڑ کی وجہ سے وہ میٹھا ہو جاتا تھا، اس لئےاسے حلوہ کہتے تھے ۔  ویسے اسے گائوں کی زبان میں پھتکا کہا جاتا تھا۔ یہ موسم سرما میں سردی زکام ٹھیک کرنے کے ساتھ قوت مدافعت میں اضافے کا باعث تھا۔ بچے اسے شوق سے کھاتے تھے۔اس کے کھانے  کا اثر یہ ہوتا تھا کہ وہ بغیر سوئٹر کے باغوں میں اُچھل کود کرتے اور سردی اُن سے کوسوں دور رہتی تھی۔ 
بخار آنے پر نیم کا کاڑھا دیا جاتا تھا ۔نیم کی پتیاں پیس کر کپڑے سے چھان کر ایک کٹورے میں رکھ دی جاتیں اور پھر چولہے پر خوب پکایا جاتا  تھا۔ صبح صبح مریض کو نیم کی مسواک کرنے کے بعد اسے پلا یاجاتا تھا جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ بخار توختم ہو جاتا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی منھ کا مزہ بھی خراب ہو جاتا  تھا۔ اس کی وجہ سے کچھ بھی کھائو سب کڑوا لگتا تھا۔ ایسی صورت میں نیم کی پتیاںچبانے کا مشورہ دیا جاتا تھا۔چنانچہ رفتہ رفتہ   منھ سے کڑواہٹ بھی ختم ہو جاتی تھی اور پھر کھانے کا ذائقہ واپس آجا تا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے اس سے بھوک بڑھنے کے ساتھ ہی خوراک بھی بڑھ جاتی تھی ۔ دست آنے پر پیاز کاعرق نکال کر پلا  یا جاتا تھا ۔ پیاز کےعرق پر یاد آیا کہ ۱۹۶۰ء کے آس پاس جب ہمارے علاقے میںکالرا پھیل گیا تھا۔ علاج نہ ہونے سے لوگ مرنے لگے تھے ۔ اُس وقت پیاز کا عرق بڑا کارگر ثابت ہوا تھا ۔ بتاتے ہیں جس نے بھی یہ عرق پیا اُس نے کالرا سے نجات  پائی۔ کالرا میں یہ ہوتا تھا کہ دست رُکتا نہیں تھا اور رفتہ رفتہ بدن میں پانی کی کمی کے سبب انسان دنیا چھوڑ دیتا تھا ۔ دادی نانی کے یہ نسخے اس قدر کارآمد تھے کہ آج کی طرح رنگ برنگی گولیاں کھانے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی، مریض گھریلو نسخے  ہی سے ٹھیک ہو جاتا تھا ۔ پھوڑا ہونے پر پیپل کے پتے پر چونا لگا کر رات میں گرم کرکے باندھ دیا جاتا تھا ،صبح تک پھوڑے سے مواد بہنے لگتی تھی اور رفتہ رفتہ وہ ٹھیک ہو جاتا تھا۔ 
 
 
آخر میں کچھ ٹوٹکے کی بھی بات کرتے چلیں۔گائوں میں پہلے چھوٹے بچوں کو ’بڑی سردی‘(بڑی سردی جب بگڑتی تو نمونیا ہو جایا کرتا تھا) ہوا کرتی تھی جس میں انہیں سانس لینے میں دشواری پیش آتی اور کبھی کبھی سانس رُکنے بھی لگتی تھی ۔اُن کا علاج ایک مخصوص لکڑی سے ہوتا تھاوہ لکڑی اس بچے کے سرکے اوپر پھیری جاتی تھی ، یہ لکڑی جتنی بار پھیری جاتی وہ بڑھ جاتی اور اس کو سروتے سے کاٹ دیا جاتا تھا ، وہ پھر بڑھ جاتی تھی اس طرح کاٹنے کے ساتھ سردی ختم ہوجاتی تھی ۔اُس وقت یہی طریقہ علاج تھا ۔ ’ہوک‘چلی جانا ۔ اس میں کمر اور پسلی میں شدید درد ہوتا تھا ۔یہ درد اُلٹا پیدا ہونے والے بچے کے چھونے سے چھومنتر ہو جاتا تھا۔وہ وقت تھا دیسی علاج کے ساتھ اس طرح کے ٹوٹکے کا بھی خوب سہارا لیا جاتا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK