دیوالی کے فوراً بعد دہلی اور نواحی علاقوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی اور جب شہریوں نے اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا تو پولیس نے متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔اس سنجیدہ صورتحال پر مختلف غیر اُردو اخبارات نے اداریے تحریر کئے۔
دیوالی کے فوراً بعد دہلی اور نواحی علاقوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی اور جب شہریوں نے اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا تو پولیس نے متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔اس سنجیدہ صورتحال پر مختلف غیر اُردو اخبارات نے اداریے تحریر کئے۔ دریں اثنا مہاراشٹر میں بلدیاتی انتخابات کی گہماگہمی جاری ہے جس پر’نوشکتی‘ نے جامع اداریہ لکھا ہے۔ پیر کو دہلی میں ہونے والا دھماکہپورے ملک کو ہلا کر رکھ دینے والا واقعہ ثابت ہوا۔ ’ہندوستان ٹائمز‘ نے اس پر اداریہ لکھ کر منصفانہ تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی دولت کی عدم مساوات اورہندوستان میں امیروں کی بڑھتی تعداد کے حوالے سے’نو بھارت‘ نے نہایت مؤثر اداریہ تحریر کیا ہے۔
دہلی میں صاف ہوا کا وعدہ ایک سراب ثابت ہوا
لوک ستہ(مراٹھی، ۱۱؍نومبر)
’’یہ حقیقت اب کسی وضاحت کی محتاج نہیں رہی کہ دارالحکومت دہلی اور اس کے اطراف کے علاقے ہر موسم سرما میں ایک خوفناک فضائی قید خانے میں بدل جاتے ہیں۔ سردی کی ابتدا ہوتے ہی دھوئیں اور گرد و غبار کی دبیز تہہ پورے ماحول کو اس طرح نگل لیتی ہے کہ دن کا اجالا بھی مدھم پڑ جاتا ہے۔ یہ محض موسمی تبدیلی کا مسئلہ نہیں بلکہ سیاسی کمہمتی اور انتظامی ناکامی کی ایک توانا مثال ہے۔دہلی میں آلودگی کی بنیادی وجوہات پڑوسی ریاستوں میں فصلوں کی باقیات جلانا، بے ہنگم ٹریفک کا بوجھ اور مسلسل بڑھتی ہوئی تعمیرات ہیں، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب حالات ’گیس چیمبر‘ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو بھی حکومتی ردعمل انتہائی غیرسنجیدہ اور سطحی رہتا ہے۔سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ یا مصنوعی بارش جیسے مہنگے اور غیر مؤثر تجربات محض مسئلے کی سنگینی پر پردہ ڈالنے کی کوشش معلوم ہوتے ہیں۔ ورنہ ان اقدامات کا عملی نتیجہ تقریباً صفر ہے۔جس طرح ’نمامی گنگے‘جیسے بڑے منصوبے اپنی توقعات پوری نہ کر سکے۔ اسی طرح دہلی کی صاف ہوا کا وعدہ بھی اب تک ایک سراب ثابت ہوا ہے۔ سابقہ کانگریسی دور میں جو فضائی معیار تھا موجودہ حکومت بھی اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔ سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو عوام نے ایک مضبوط متبادل کے طور پر منتخب کیا تھا لیکن ان کی انتظامی صلاحیتیں بھی اس بنیادی مسئلے کے حل میں خاطر خواہ کامیابی نہ دکھا سکیں۔ دہلی کی آلودگی کے خلاف عوامی تحریک کسی سیاسی یا اقتصادی مفاد کے خلاف نہیں بلکہ ایک خالص انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ مظاہرین کسی بڑے ترقیاتی منصوبے کے خلاف نہیں نکلے بلکہ اپنے بچوں کی سانسیں بچانے کیلئے سڑکوں پر آئے تھے۔ متعدد بچوں کو اسپتالوں میں داخل کرنا پڑا جبکہ کئی شہریوں کے پھیپھڑےایسے متاثر ہو چکے ہیں جیسے وہ برسوں سے سگریٹ نوش ہوں۔یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ایک کڑوا اور تشویش ناک حقیقت ہے کہ دہلی کے بچوں کی زندگیاں حقیقی خطرے سے دوچار ہیں۔‘‘
ہماری حفاظتی تیاریوں کی بنیادی کمزوریاں
دی ہندوستان ٹائمز(انگریزی، ۱۳؍ نومبر)
’’گزشتہ دنوں قومی دارالحکومت کے قلب میں تاریخی لال قلعہ کے قریب ہونے والے ہولناک دھماکے نے ایک بار پھر ملک کی داخلی سلامتی اور استحکام کے نظام پر گہرے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ دس قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع محض ایک المیہ نہیں بلکہ ایک سنگین انتباہ ہے کہ ہماری حفاظتی تیاریوں میں اب بھی بنیادی کمزوریاں باقی ہیں۔قابل اطمینان امر یہ ہے کہ ابتدائی مرحلے میں تحقیقاتی اداروں نے جس تدبر اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا وہ لائق تحسین ہے۔ جذبات اور سیاسی دباؤ کے باوجود واقعے کو فوری طور پر دہشت گردی کا نام نہ دینا اور کسی پڑوسی ملک کی جانب بلاجواز انگلی نہ اٹھانا پیشہ ورانہ سنجیدگی کی علامت ہے۔ یہی طرز عمل مستقبل میں بھی ہماری رہنمائی کا اصول ہونا چاہئے۔تاہم اس حادثے نے دہلی کے حفاظتی ڈھانچے میں موجود واضح کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔طویل وقفے کے بعد پیش آنے والے اس طرح کے واقعے نے پولیس اور انتظامیہ دونوں کو غافل پایا۔ عملے کی شدید کمی، پرانے طرز کے آلات اور محض سی سی ٹی وی کیمروں پر انحصار۔یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہماری سلامتی کی پالیسی زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ تشویش کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ پلوامہ اور فرید آبادماڈیول سے منسلک بعض افراد کا تعلق تعلیم یافتہ اور بظاہر خوشحال طبقات سے بتایا جا رہا ہے۔ یہ رجحان واضح کرتا ہے کہ شدت پسندی کا وائرس اب کسی مخصوص طبقے یا محروم طبقے تک محدود نہیں رہا۔یہ واقعہ حکومت اور معاشرے دونوں کیلئے ایک سخت پیغام ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سلامتی کے نظام میں موجود خامیوں کو دور کرے جبکہ معاشرے کو اپنے اندر پنپنے والی انتہا پسند سوچوں کے خلاف فکری محاذ قائم کرنا ہوگا۔‘‘
دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، جمہوریت کے زوال کا سبب
نوبھارت( ہندی،۸؍نومبر)
’’دنیا بھر میں اور خصوصاً ہندوستان میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اب ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں یہ محض اقتصادی بحث کا موضوع نہیں رہا بلکہ جمہوریت، معاشی استحکام اور سماجی انصاف کیلئے ایک حقیقی خطرے کی صورت اختیارکر چکا ہے۔ جی۲۰؍ممالک کی تازہ ترین رپورٹ جس کی نگرانی نوبیل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات جوزف سٹگلٹز نے کی ہے۔ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ عالمی عدم مساوات اب بحرانی سطح تک جا پہنچی ہے۔رپورٹ کےمطابق ہندوستان کا منظرنامہ غیر معمولی حد تک پریشان کن ہے۔ سال ۲۰۰۰ء سے ۲۰۲۳ءکے درمیان ملک کے امیر ترین ایک فیصد طبقے کی دولت میں ۶۲؍ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ملک کی ایک بڑی آبادی آج بھی غربت، غذائی قلت اور بے روزگاری کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔معاشی عدم مساوات کا بڑھتا ہوا یہ خلاء محض اقتصادی مسئلہ نہیں رہتا بلکہ سماجی اضطراب، سیاسی بے چینی اور جمہوری کمزوریوں کا دروازہ بھی کھولتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق وہ ممالک جہاں دولت کی تقسیم زیادہ غیر منصفانہ ہے۔وہاں جمہوری زوال کا امکان ۷؍ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں تقریبا ۳؍ارب افراد آج بھی شدید خوراکی عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔‘‘
۲۸؍ میونسپل کارپوریشنوں میں انتخابات کی گہما گہمی
نوشکتی( مراٹھی،۱۱؍نومبر)
’’ بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی عروج پر ہے۔انتخابی عمل کے اعلان نے ریاستی انتظامیہ سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں غیر معمولی تیزی لا دی ہے۔اس وقت ریاست بھر کی۲۸؍ میونسپل کارپوریشنوں میں وارڈوں کے ریزرویشن کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ خاص طور پر ممبئی میٹروپولیٹن ریجن (ایم ایم آر ) کی ۸ ؍میونسپل کارپوریشن تھانے، کلیان ڈومبیولی، نوی ممبئی، پنویل، وسئی ویرار، میرا بھائندر، بھیونڈی اور اُلہاس نگر کے ساتھ ساتھ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے سب سے زیادہ متنازع وارڈوں کی ریزرویشن قرعہ اندازی نے انتخابی ماحول کو مزید گرم کر دیا ہے۔ ریزرویشن کی تصویر واضح ہونے کے بعد آنےوالے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ممبئی میونسپل کارپوریشن کے آخری انتخابات ۲۰۱۷ء میں ہوئے تھے اور اب تقریباً ۷؍ سال کے طویل وقفے کے بعد یہ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ بی ایم سی کی مدت ۸؍مارچ ۲۰۲۲ء کو ختم ہو چکی ہے اور تب سے یہ ادارہ کمشنر کے زیر انتظام چل رہا ہے۔ کورونا کی وبا، نئی وارڈ بندیوں اور او بی سی ریزرویشن کے تنازعات اور عدالتی چیلنجز کی وجہ سے ان انتخابات میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی ہے۔سیاسی کھیل کے اہم موڑ ریزرویشن کی قرعہ اندازی نے یہ طے کر دیا ہے کہ کون سے وارڈ آئندہ مستقل طور پر محفوظ رہیں گے اور کون سے وارڈ دوسری بار محفوظ ہوں گے۔ اس اعلان کے موقع پر سیاسی کارکنوں کی غیر معمولی بھیڑ نے اس عمل کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ قرعہ اندازی کے نتائج نے کئی اہم مقامات پر سیٹوں کی بُنیادی اُلٹ پھیر کر دی ہے۔ کئی سیاسی قد آوروں کے وارڈ اب تبدیل ہو چکے ہیں۔ جہاں قسمت نے کچھ کا ساتھ دیا ہے اور انہیں سیٹ مل گئی ہے وہیں کئی کو اپنی زمین گنوانی پڑی ہے۔ اپنے سیاسی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے، اب کئی رہنماؤں کی نظریں اوپن سیٹوں پر ہیں جس کے نتیجے میں شدید مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ ممکنہ طور پر کئی جگہوں پر شوہر اور بیوی کے درمیان مقابلہ دیکھنے کو ملے گا یا پھر بااثر سیاسی رہنماؤں کے بیٹے یا بیٹیاں میدان میں اتریں گے۔ یہ ریزرویشن آئندہ کےسیاسی نتائج پر گہرے اثرات ڈالے گا۔ کئی سابق کارپوریٹر جو اپنی سیٹ کھو چکے ہیں وہ اپنی اہلیہ کومیدان میں اتارنے کی تیاری میں ہیں یا پھر نئے سیاسی راستے تلاش کرنے پرمجبور ہیں۔‘‘