اس لئے دُنیا میں ہر اہل ِ ایمان کو چاہئے کہ جزا کو پانے اور سزا سے بچنے کی فکر کرتا رہے۔ اس مضمون میں فلسفہ ٔ جزا پر روشنی ڈالی گئی ہے
EPAPER
Updated: July 21, 2023, 11:18 AM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
اس لئے دُنیا میں ہر اہل ِ ایمان کو چاہئے کہ جزا کو پانے اور سزا سے بچنے کی فکر کرتا رہے۔ اس مضمون میں فلسفہ ٔ جزا پر روشنی ڈالی گئی ہے
اچھے عمل پر جزاء و انعام اور بُرے عمل پر سزا اور جرمانہ عقل کا بھی تقاضا ہے اور فطرت کا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جاہل سے جاہل انسان اپنے محسن کے ساتھ اچھی طرح پیش آتا ہے اور بعض جانور بھی اپنے مالک کے ساتھ کمال محبت و وفاداری کا اظہار کرتے ہیں؛ کیوں کہ اچھے عمل پر اچھا بدلہ اور برے رویے پر اس کے مطابق رد عمل فطرت کا حصہ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو اس دُنیا کے بعد آخرت کے قائم کئے جانے کو بتلاتی ہے۔ دُنیا میں انسان بہت سی نیکیاں کرتا ہے؛ لیکن اس دنیا میں اس کو تمام نیکیوں کا بدلہ نہیں ملتا۔ ظالم ظلم کرتا ہے؛ لیکن اس کو ظلم کی سزا نہیں ملتی، مظلوم ظلم سہتا ہے؛ مگر اس کو انصاف نہیں مل پاتا، یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ موجودہ زندگی کے بعد ایک ایسی زندگی ہو، جس میں ہر عمل کا مکمل بدلہ دیا جائے، اسی دنیا کو اسلام میں عالم آخرت کہا جاتا ہے۔
آسمانی مذاہب میں اس کا واضح تصور موجود ہے، یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں مذاہب میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ اس دنیا کے بعد آخرت قائم ہوگی، جس میں نیکیوں کے بدلہ کیلئے جنت ہوگی اور برائیوں کی سزا کے لئے دوزخ ہوگی۔ ہندوستانی مذاہب میں جنت ودوزخ کے بجائے پنرجنم کا تصور ہے، یعنی اسی دنیا میں انسان اپنے عمل کے اعتبار سے کسی اور شکل میں پیدا ہوگا، ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے برہمنوں اور اونچی ذاتوں میں پیدا ہو جائے اور ممکن ہے کہ ایک برہمن اپنی بداعمالی کے سبب شودر خاندان میں یا خنزیر کی شکل میں پیدا ہو جائے؛ لیکن بہر حال ہر مذہب میں اچھے عمل پر انعام کا اور برے کاموں پر سزا کا تصور موجود ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ انعام کی کیا شکل ہوگی؟ ایک شکل تو روحانی اور نفسیاتی ہے ، دوسری شکل جسمانی ہے۔ روحانی اور نفسیاتی انعام کا تعلق صرف احساس سے ہے، اور وہ ہے مسرت وشادمانی کا احساس، یہ بھی بڑا انعام ہے، دُنیا میں بھی یہ نعمت انسان کو بہت عزیز ہوتی ہے، جیسے کسی بڑی شخصیت نے لوگوں کے درمیان کسی کے علم کی، فن کی اور خدمات کی تعریف کر دی تو اس سے اس کو ایک نفسیاتی سکون ومسرت محسوس ہوتی ہے، اور یہ لذت بہت دفعہ جسمانی لذتوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ حدیث میں ایسے واقعات آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی رفیق کے بارے میں تحسین آمیز کلمات کہے، صحابی اس کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ مجھے دنیا ومافیہا سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ قرآن مجید نے اہل جنت کے لئے جس نعمت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ جنت میں جانے والوں کو نہ کوئی رنج باقی ہوگا نہ کوئی غم، اور نہ آپس میں کوئی چپقلش، ’’خود اللہ تعالیٰ ان کو سلام فرمائیں گے۔‘‘ (یٰسین:۵۸) ، ’’نہ ان کو وہاں کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہاں سے نکالے جائینگے ‘‘ (حجر: ۴۸)، ’جو کینہ ان کے دل میں تھا ہم وہ بھی نکال دیں گے‘‘ (اعراف: ۴۳) ، ’’نہ ان کے درمیان کوئی اختلاف ہوگا اور نہ ان کے درمیان کوئی عداوت ودشمنی ہوگی، ان کے دل ایک آدمی کے دل کے مانند ہونگے۔‘‘
(ترمذی، حدیث نمبر:۲۵۳۷)
دوسری قسم کا انعام وہ ہے، جس کا تعلق محسوسات اور جسمانی لذتوں سے ہے اور یہ بنیادی طور پر پانچ طرح کی ہیں: غذا، لباس، مکان، شکل وصورت اور جنسی جذبات کی تسکین۔ انسان کے اندر غذا کی غیر معمولی طلب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں طرح طرح کے پھل، اجناس، ترکاریاں اور لذت بخش گوشت رکھے ہیں اور مشروبات کے وسائل عطا فرمائے ہیں، آخرت میں یہ ساری نعمتیں مقدار اور معیار کے اضافہ کے ساتھ انسان کی خواہش اور چاہت کے مطابق دستیاب ہوں گی: ’’(ان سے کہا جائے گا) کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘ (مرسلات: ۴۳) اس کا پھل بھی ہمیشہ موجود رہے گا اور سایہ بھی: ’’خدا ترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لازوال ۔‘‘ (رعد: ۳۵) ’’پرہیز گاروں کیلئے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کیلئے لذیذ ہوگی، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی ۔‘‘(محمد: ۱۵)
خوش پوشاکی بھی انسان کو مطلوب ہوتی ہے، انسان خوبصورت سے خوبصورت کپڑے پہننا چاہتا ہے، قدرت کی طرف سے تو اس کے وسائل دئیے ہی گئے ہیں، اور انسان اپنی تلاش کے ذریعہ سے بھی اس کو خوبصورت سے خوبصورت تر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے؛ چنانچہ جنت میں اس کو اعلیٰ ترین قسم کا لباس بھی دیا جائے گا:’’اہل جنت باریک اور خوبصورت ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘ (دخان: ۵۳)
تیسری نعمت جو انسان کو مطلوب ہوتی ہے، وہ ہے آرام دہ، کشادہ اور راحت بخش مکان، یہ بھی اللہ کی بڑی نعمت ہے، اور اس کا حصول انسان کے لئے بڑے سکون کا ذریعہ بنتا ہے، خود دنیا میں دیکھئے کہ انسان نے کیسی کیسی خوبصورت عمارتیں بنائی ہیں، قیمتی سے قیمتی تعمیری میڑیل ، نازک اور جاذب نظر ڈیزائن، خوبصورت رنگوں سے مکان کی تزئین و آرائش، درختوں اور پودوں کے ذریعہ اس کو سنوارنا وغیرہ، غرض کہ قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کے ذریعہ انسان اپنی کاریگری کی صلاحیتوں کا استعمال کرتا اور بہتر سے بہتر خوبصورت اور آرام دہ مکانات اپنے لئے بناتاہے۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ اہل جنت کو رہائش کی جو سہولت دیں گے، وہ دنیا کے ان مکانات سے کہیں بڑھ کر رہے گی:’’انہی لوگوں کو (جنت میں) بلند ترین محلات ان کے صبر کرنے کی جزا کے طور پر بخشے جائیں گے ۔‘‘(فرقان: ۷۵) قرآنمجید میں یہ بھی فرمایا گیا کہ ’’جنت میں ایسے کمرے ہوں گے، جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا۔ (ترمذی، حدیث نمبر: ۲۵۲۷)
انسان کیلئے ایک بڑی نعمت اس کی خوبصورتی بھی ہے،وہ اپنی بہتر شکل کی وجہ سے لوگوں کیلئے وجہ کشش بنتا ہے، اسی لئے دنیا میں آج اپنے آپ کو سنوارنے پر شاید سب سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ کاسمیٹک کی ایک پوری انڈسٹری وجود میں آچکی ہے، ضرورت ہو تو پلاسٹک سرجری سے بھی کام لیا جاتا ہے؛ لیکن چوں کہ انسان آپ اپنی صورت بدلنے پر قادر نہیں ہے؛ اسلئے اس کو اس میں محدود کامیابی ہی حاصل ہوئی ہے؛ مگر آخرت میں اللہ کی طرف سے خوبصورت ترین شکل عنایت کی جائیگی، ان کی صورت چودھویں کے چاند کی طرح ہوگی، یہ سہولت بھی دی جائے گی کہ وہ اپنی (پسند کی) صورت اختیار کریں۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۳۲۴۷)