Inquilab Logo Happiest Places to Work

ناموافق فیصلوں کو روکنے کا طریقۂ احتجاج

Updated: May 10, 2025, 3:50 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا صرف ایک قومی اور سماجی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ایک شرعی فریضہ بھی ہے، اور بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق نیز ماحول اور صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس عمل کو انجام دیا جائے۔

Lighting candles or raising black flags, etc. is a symbolic act of protest. Photo: INN
بتی گل کرنا یا سیاہ جھنڈے وغیرہ لگانا احتجاج کا ایک علامتی عمل ہے۔ تصویر: آئی این این

ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا صرف ایک قومی اور سماجی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ ایک شرعی فریضہ بھی ہے، اور بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق نیز ماحول اور صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس عمل کو انجام دیا جائے۔ قرآن مجید نے کہا ہے کہ’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘ (آل عمران:۱۱۰) اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلمان کا صرف اپنے آپ پر ہونے والے مظالم کے خلاف ہی آواز بلند کرنا کافی نہیں ہے؛ بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خیر اُمت کی حیثیت سے پوری انسانیت کا مددگار بنے اور سماج کے کسی بھی طبقہ پر ظلم ہو، وہ اُس کے خلاف آواز بلند کرے؛ کیوں کہ اللہ نے اس کو صرف اپنے ہم مذہب لوگوں کے لئے نہیں ؛ بلکہ پوری انسانیت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ 
 ظلم کو روکنے کی کوشش اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا حکم تو اصولی ہے جو صراحتاً قرآن وحدیث سے ثابت ہے؛ لیکن اس کے طریقہ کار کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض بنیادی ہدایتیں بھی دی ہیں ؛ چنانچہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو چاہئے کہ اسے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا محسوس کرے اور ارادہ رکھے کہ جب اس کو روکنے پر قادر ہو جائے گا توروکے گا، اور یہ دل سے روکنا ایمان کا کمترین درجہ ہے۔ ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۷۷)
 اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظلم کے خلاف احتجاج اور اس کو روکنے کے تین ذریعے بتائے ہیں، ایک: طاقت کا استعمال، دوسرے: زبان کا استعمال، تیسرے: دل سے کراہت اور ناپسندیدگی، پہلا ذریعہ یعنی طاقت کے استعمال کو حدیث میں ’’ید ‘‘ یعنی ہاتھ سے روکنے سے تعبیر کیا گیا ہے؛ کیوں کہ انسان جسمانی طور پر کسی چیز کو روکنے کے لئے زیادہ تر ہاتھ ہی کا استعمال کرتا ہے؛ مگر اس میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ جو چیز بھی انسان کو طاقتور بناتی ہو، اس کا استعمال کر کے ظلم کو روکنا چاہئے، زمانہ اور حالات کے لحاظ سے یہ الگ الگ ذرائع ہو سکتے ہیں، جیسے آج کے دور میں ووٹ، رائے دہی، پارلیمنٹ اور اسمبلی میں عددی قوت، میڈیا ایک بڑی طاقت ہے، جس کا ملک کے اہم فیصلوں میں کلیدی کردار ہے؛ اس لئے ان مہارتوں اور صلاحیتوں کا انصاف قائم کرنے اور نا انصافی کو روکنے میں استعمال کرنا بھی اس حکم میں شامل ہے، آج کل دھرنا، احتجاجی ریلیاں، ہیومن چین، قابل برداشت حد تک بھوک ہڑتال، حسب ضرورت جیل بھرو تحریک برائی سے روکنے کے اسی درجہ میں شامل ہے۔ 
 دوسری صورت یہ ہے کہ زبان کے ذریعہ برائی اور ظلم و نا انصافی اور ناحق باتوں کو روکے، اس کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں، بیانات اور تقریریں، نعرے، اعلانات، اسی طرح زبان سے بولے جانے والے الفاظ ہی تحریر کے سانچے میں ڈھلتے ہیں ؛ اس لئے اس مقصد کے تحت تحریری جدوجہد بھی زبان سے روکنے میں شامل ہے، جیسے: احتجاجی مضامین، ارباب مجاز کو خطوط، ای میل، پوسٹر، اخباری اشتہارات، آن لائن تشہیر، یہ سب زبان سے روکنے کی مختلف شکلیں ہیں، آج کل اس کے لئے جا بجا بینر بھی لگائے جاتے ہیں، ہاتھوں میں تختیاں لے کر عوامی مقامات پر کھڑا ہوا جاتا ہے، سرکاری عہدہ داروں اور افسروں کو میمورنڈم دیا جاتا ہے اور محضر پیش کیا جاتا ہے۔ 
 احتجاج اور ظلم کو روکنے کی تیسری صورت یہ ہے کہ دل سے ناگواری کا اظہار ہو، اور اس کو برا سمجھا جائے۔ حدیث سے اس کی بعض عملی تدبیریں بھی معلوم ہوتی ہیں، عام حالات میں ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان سے بات چیت بند کر لینا جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر دونوں کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی اور جذبات مشتعل ہوگئے تو اجازت دی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تین دن تک بات چیت روکی جا سکتی ہے؛ تاکہ غصہ فرو ہو جائے۔ (مسلم عن عبداللہ بن عمرؓ، حدیث نمبر: ۲۵۶۱) اور بعض مواقع پر آپ ؐنے معاملہ کی سنگینی کوسامنے رکھتے ہوئے اس سے زیادہ مدت بھی گفتگو بند کرنے بلکہ بائیکاٹ کرنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے دو رفقاء کے ساتھ فرمایا تھا اور آپؐ کے حکم سے پچاس دنوں تک ان کا بائیکاٹ کیا گیا تھا (باب حدیث کعب بن مالک، حدیث نمبر: ۴۴۱۸) 
 اظہار ناراضگی کے آج کل بعض اور طریقے بھی اختیار کئے جاتے ہیں، جیسے: سیاہ پٹیاں باندھنا، سیاہ جھنڈے لگانا وغیرہ، یہ علامتی عمل ہے، جس سے ناراضگی ظاہر کی جاتی ہے، اس کو مذہبی عمل کی حیثیت سے نہ انجام دیا جاتا ہے اور نہ اس کے پیچھے کوئی مذہبی تصور ہے۔ اس میں روشنی کو بجھانا یا روشنی کو جلانا بھی شامل ہے، اس کو کفروشرک سے جوڑنا درست نظر نہیں آتا؛ بلکہ جیسے گفتگو بند کر لینا یا بائیکاٹ کرنا زبان وقلم کے بغیر ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ 
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب آئے، اور اپنے پڑوسی کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو صبر کی تلقین فرمائی؛ مگر شاید پڑوسی کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی؛ اس لئے وہ دو تین بار خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپ ؐ نے فرمایا: جاؤ اپنے گھرکا سامان راستہ پر ڈال دو۔ اُن صاحب نے ایسا ہی کیا۔ اب ہوا یہ کہ لوگ آتے اور اُن صاحب سے اس کے بارے میں دریافت کرتے، وہ اُن کو اپنے پڑوسی کے بارے میں بتاتے، لوگ اس صورت حال کو سن کر اس شخص کو لعنت ملامت کرتے کہ اللہ تم کو ایسا کر دے، ویسا کر دے، پڑوسی جو تھا وہ صاحب خانہ کے پاس آیااور کہا کہ تم اپنے گھر واپس آجاؤ، اب تم میری طرف سے کوئی ایسی چیز نہیں دیکھو گے جو تمہارے لئے ناگواری کا باعث ہو۔ (سنن ابی داؤد، باب فی حق جوار، حدیث نمبر: ۵۱۵۳) اس سے جہاں عوام کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے مختصر وقت کے لئے سڑک جام اور پہیا جام کرنے کا جواز معلوم ہوا، وہیں اظہار ناراضگی کے ایسے طریقوں کے استعمال کا درست ہونا بھی معلوم ہوا، جن میں شرعی اعتبار سے کسی ناجائز بات کا ارتکاب نہ ہو۔ 
 شریعت میں کسی بات کے اظہار کے لئے جو طریقہ متعین کر دیا گیا ہو، اس کے لئے اسی طریقہ پر عمل کرنا ضروری ہے، اس کی جگہ کوئی خود ساختہ طریقہ اختیار کرنا درست نہیں ہوگا، مثلاًفرض نمازوں کی جماعت کی اطلاع کیلئے شریعت میں اذان کا طریقہ متعین ہے؛ اس ضرورت کو اذان کے کلمات کے ذریعہ ہی پورا کیا جانا چاہئے، یہاں تک کہ یہ بھی درست نہیں کہ اذان میں اپنی پسند کے الفاظ داخل کرلئے جائیں، اذان کے عربی کلمات کے بجائے دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ کر دیا جائے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں، جن کے لئے شریعت میں کوئی طریقہ متعین نہیں ہے، ان کو انجام دینے کے لئے کوئی بھی ایسا اشارہ یا اعلان اختیار کیا جا سکتا ہے جس کو قرآن وحدیث میں منع نہیں کیا گیا، مثلاً رمضان المبارک میں سحری کا وقت ختم ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے، بعض مقامات پر وہاں کی ضرورت کے لحاظ سے سحری کا وقت شروع ہونے پر بھی اعلان کیا جاتا ہے، کبھی اس کے لئے لاؤڈاسپیکر سے اعلان ہوتا ہے، کہیں سائرن بجایا جاتا ہے، کہیں توپ داغی جاتی ہے۔ 
  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مواقع پر علامات سے استفادہ فرمایا ہے۔ اہل مکہ، اہل مدینہ کو حقیر سمجھتے تھے اور اس زمانے میں مدینہ کی آب وہوا بھی صحت کے لئے ناموافق تھی۔ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کے لئے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نہ صرف دین وایمان کا مرکز بنادیا بلکہ خوشگوار ماحول اور خوبصورت موسم کا بھی گہوارہ بنا دیا۔ 
 اسلام میں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا ہے کہ آدمی اپنی چال سے اپنی طاقت اور بہادری کا اظہار کرے اور قرآن نے تو صراحت کی ہے کہ اللہ کی زمین پر اِترا کر نہ چلو: (بنی اسرائیل: ۳۷) لیکن اس موقع پر اہل مکہ کے سامنے اپنی طاقت کے اظہار کی ضرورت تھی، مشرکین مکہ پہلے سے کہہ رہے تھے کہ کل تمہارے سامنے ایک ایسی قوم آرہی ہے، جس کو بخار اور بیماری نے کمزور کر کے رکھ دیا ہے (مسلم، عن ابن عباس، حدیث نمبر: ۱۲۶۶) وہ مسلمانوں کی صورت حال کو دیکھنے کے لئے حجر اسود کے قریب بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر مسلمانوں کو رَمل کرنے کا حکم دیا، یعنی ایسی چال میں طواف کرنا جو ایک حد تک پہلوانوں کی چال ہوتی ہے، اہل مکہ پر اس کا بڑا اثر ہوا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ مشرکین کہنے لگے کہ ہم نے تو سمجھا تھا کہ مسلمانوں کو بخاراور بیماری نے کمزور کر دیا ہے؛ لیکن یہ تو فلاں اور فلاں سے بھی زیادہ صحت مند اور بہادر ہیں۔ طواف میں جو شروع کے تین چکر رَمل کے ساتھ کئے جاتے ہیں، وہ اسی عمل کی یادگار ہے۔ (سیرت ابن ہشام، ۳؍۲۹۹)  یہ ایک مثال ہے علامات واشارات کے ذریعہ پیغام دینے اور اپنے جذبات کے اظہار کی۔ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ چولہوں کی تعداد سے قافلہ کے افراد کی تعداد کا اندازہ کرتے تھے، فتح مکہ کے موقع سے جب صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مکہ سے باہر پڑاؤ ڈالا تو، اگرچہ عام طور پر آپ قافلہ کو ایک جگہ سمٹ کر رہنے کا حکم فرماتے تھے؛ لیکن اس موقع پر آپ ﷺنے صحابہ کو ہدایت دی کہ وہ زیادہ سے زیادہ پھیل جائیں، اپنے اپنے الگ الگ چولہے جلائیں اور حضرت عباس ؓ سے فرمایا کہ وہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر یہ منظر دکھائیں ؛ تاکہ اُن پر مسلمانوں کی قوت وشوکت اور تعداد کی کثرت کا اظہار ہو۔ (سیرت ابن ہشام: ۳؍ ۱۴۷) چنانچہ یہ حکمت عملی مفید ثابت ہوئی۔ ابو سفیان جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، یہ منظر دیکھ کر مرعوب ہوگئے اور آپؐ کے منشاء کہ مکہ میں خونریزی کی نوبت نہ آئے اور ارض حرم جنگ کے بغیر فتح ہو جائے، کو پورا کرنے میں اس حکمت عملی سے مدد ملی۔ 
 جمہوری نظام میں عوام کی ناراضگی کے اظہار کی بڑی اہمیت ہے، عوام ہی کی رائے سے حکومتیں قائم ہوتی ہیں، عوامی نمائندوں کی اظہار بے اعتباری سے حکومتیں اقتدار سے محروم ہوتی ہیں ؛ اس لئے ناموافق اور ناپسندیدہ فیصلوں اور اقدامات کو کو روکنے کیلئے اس انداز کے علامتی احتجاج کرنا نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ ضرورت کے لحاظ سے مطلوب بھی ہے، واللہ اعلم۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK