Updated: May 18, 2025, 2:37 PM IST
| Mumbai
یہاں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں پڑھائی لکھائی میں نہ صرف یہ کہ زیادہ سنجیدہ اور محنتی ہوتی ہیں بلکہ بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ بورڈ امتحانات میں اکثر لڑکیاں ٹاپ کرتی ہیں اور ایسا ہی کچھ یونیورسٹیوں کے امتحانات میں ہوتا ہے۔
عظیم ہاشم پریم جی فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر انوراگ بیہر نے اعلان ہے کیا کہ اُن کا ادارہ ڈھائی ارب روپے لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کیلئے مختص کررہا ہے جس کیلئے ۱۸؍ ریاستوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان میں فی الحال اروناچل پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، کرناٹک اور ایسی ہی دیگر ریاستیں شامل ہیں۔ آئندہ سال یا اس کے بعد مزید ریاستوں کو اس اسکیم کے تحت لایا جائیگا۔ اعلان کے مطابق ۱۰؍ ویں اور ۱۲؍ ویں کے بعد ڈگری یا ڈپلوما میں داخلہ لینے والی بچیوں کو دو قسطوں میں سالانہ ۳۰؍ ہزار روپے دیئے جائینگے۔
ظاہر ہے کہ یہ اچھا قدم ہے اور اس کی ستائش کی جائیگی مگر ڈھائی ارب روپے کی رقم خطیر ہونے کے باوجود کم ہے۔ اس کا کچھ حصہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہشمند ملک کی ہر طالبہ کے حصے میں نہیں آسکتا۔ اگر آجائے تب بھی اُن طالبات کی کوئی خاص مدد نہیں ہوسکے گی جو ایسے کالجوں سے وابستہ ہوتی ہیں جہاں کی فیس بہت زیادہ ہے اور جس کیلئے اُن کے والدین کو قرض لینا پڑتا ہے۔ جن والدین کی قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہوتی وہ تو ہمت ہی ہار بیٹھتے ہیں۔ بچیاں یا تو کوئی درمیانی راستہ نکال کر تعلیم جاری رکھتی ہیں یا اُن کی شادی کرکے اُنہیں گھر گرہستی کی ذمہ داریوں کے ساتھ سسرال کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
یہاں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں پڑھائی لکھائی میں نہ صرف یہ کہ زیادہ سنجیدہ اور محنتی ہوتی ہیں بلکہ بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ بورڈ امتحانات میں اکثر لڑکیاں ٹاپ کرتی ہیں اور ایسا ہی کچھ یونیورسٹیوں کے امتحانات میں ہوتا ہے۔ چنانچہ ان سنجیدہ اور محنتی طالبات کو اپنا ہدف پانے کیلئے ہر ممکن سہولت ملنی چاہئے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ والدین بیٹوں پر تو خرچ کرنا چاہتے ہیں اور استطاعت نہ ہو تب بھی خرچ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں مگر بیٹیوں کے بارے میں پس و پیش اور بخل میں پڑ جاتے ہیں یا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ اس کے اسباب جگ ظاہر ہیں اس لئے ہم اس کی تفصیل سے گریز کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر لڑکوں کی دلچسپی کم ہو اور لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر توجہ نہ دی جارہی ہو یا اس پرخرچ کرنے میں پس و پیش ہو تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ملک کی افرادی قوت متاثر ہوگی اور اِس وقت تو روزگار کے لالے پڑے ہیں مگر یہ دور گزر گیا اور اچھا روزگار پیدا ہونے لگا تب اعلیٰ ملازمتوں کیلئے افراد نہیں ملیں گے۔ مسلم معاشرہ کا یہ مسئلہ کہ پڑھی لکھی لڑکیوں کو مساوی تعلیم یافتہ لڑکے نہیں ملتے، یہ آگے چل کر مزید پریشان کن ہوجائیگا اسلئے دو محاذوں پر سنجیدہ کاوشیں ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم کی رغبت دلائی جائے تاکہ لڑکیوں کو اُن کے برابر پڑھے لکھے لڑکوں کا رشتہ مل سکے۔ دوسرا یہ کہ پیشہ جاتی تعلیم کے معاملے میں لڑکیوں کے ساتھ انصاف ہو اور جب وہ پڑھ لکھ لیں تو کریئر بنانے کے معاملے میں بھی اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس میں اُن کے شوہر اور ساس سسر کا تعاون کلیدی ہے۔ اکثر سسرالی عزیز یہ کہہ کر اُنہیں کریئر بنانے سے روکتے ہیں کہ کیا کرنا ہے ملازمت کرکے، گھر میں خدا کا دیا سب کچھ ہے۔ ایسا سوچتے اور کہتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے کی اہلیت کے باوجود آگے نہ بڑھنا خداکے دیئے کو ٹھکرانے جیسا ہے۔